عورت کی حیثیت

عرشیہ خان
روبی بہت نیک اور ماں باپ کی پیاری بیٹی تھی، اس کے باوجود اس کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی۔ روبی بہت شرمیلی لڑکی تھی، اُسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا، تاہم جب وہ ساتویں جماعت میں پہنچی تو اس کی ممانی کے بھائی حامد کے ساتھ اس کی منگنی کردی گئی۔ حامد پڑھے لکھے ضرور تھے، مگر گاؤں کے رہنے والے تھے۔ اسی دوران حامد کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی۔ روبی اُن کو پسند تو نہیں تھی، لیکن والدین کی خوشی کے لئے شادی کرنے رضامند ہو گئے۔ روبی کے والدین کو لڑکا بہت پسند تھا، لہذا منگنی کے بعد یہ طے پایا کہ شادی پانچ سال بعد کی جائے گی، جس کی وجہ سے حامد کبھی ہاں کہتے اور کبھی انکار کردیتے۔ اس طرح دیکھتے دیکھتے پانچ سال گزر گئے۔

حامد سعودی عرب سے آئے اور پھر دوسرے سفر کا بہانہ بناکر واپس چلے گئے۔ اسی دوران حامد کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے، تاہم زندگی کے آخری لمحہ میں انھوں نے اپنے لڑکے کو یہ قسم دے دی کہ ’’شادی اسی لڑکی سے کرنا‘‘۔
شادی تو ہو گئی، مگر روبی کو سسرال کا ماحول کچھ ایسا ملا کہ جس کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ چوں کہ گاؤں کا ماحول تھا، اس لئے وہاں کا رہن سہن اور طور طریقہ بالکل جداگانہ تھا، جب کہ روبی ایک اچھے خاندان میں پلی بڑھی تھی، یعنی اس کے میکے اور سسرال کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ پھر بھی وہ اپنی ماں کی خوشی کے لئے ساری تکالیف برداشت کرتی رہی اور زبان پر کبھی حرف شکایت نہ لائی۔

شادی کے موقع پر حامد سعودی عرب سے 28 دن کی چھٹی لے کر آئے تھے۔ وہ اپنی والدہ سے بہت ڈرتے تھے، جس کی وجہ سے دُلہن کو کہیں سیر و تفریح کے لئے نہیں لے گئے۔ ایک بار روبی زبردستی حامد کو فلم دیکھنے کے لئے لے گئی، مگر آدھی فلم دیکھ کر وہ سنیما ہال سے باہر نکل گئے۔
روبی نے اپنی زندگی میں بہت خواب دیکھے تھے، لیکن اس کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے۔ یہ تو صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ حامد کو روبی پسند نہیں ہے، پھر بھی سعودی عرب بلانے کا وعدہ کرتے رہے۔ روبی ابھی سسرال ہی میں تھی کہ حامد سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ حامد کے جانے کے بعد سسرال والوں کا ظلم بڑھتا گیا، جس کی وجہ سے روبی بیمار رہنے لگی۔ یہ دیکھ کر حامد کے بڑے بھائی روبی کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آئے۔ جب 11 ماہ گزر گئے تو حامد چھٹی لے کر وطن واپس آئے اور ماں بہن کی زیادتی دیکھ کر انھوں نے الگ رہنے کا فیصلہ کیا، تاہم گھروالوں نے الگ رہنے سے انکار کردیا۔

اس دوران شادی کی پہلی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی، پھر جیسے ہی حامد کی چھٹی ختم ہوئی وہ سعودی عرب واپس چلے گئے۔ روبی کو سعودی عرب بلانے کا وعدہ انھوں نے ضرور کیا، لیکن ماں بہن کے ڈر سے وہ ایسا نہیں کرسکے۔ روبی اپنی ساس کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہ رکھتی، پھر بھی حامد سے اس کی شکایت برابر کی جاتی۔ ساس کا مزاج ایسا تھا کہ انھوں نے کبھی بہو کو پیار سے نہیں دیکھا، جب کہ روبی کی حیثیت صرف ایک ’’ہاؤس وائف‘‘ کی تھی۔ وہ خدمت گزاری اور ہر طرح کی کوشش کرکے دیکھ چکی تھی، لیکن اسے سسرال میں کوئی مقام نہیں ملا۔ ہر تکلیف اور دُکھ برداشت کرتی رہی، مگر ساس نے کبھی اسے ماں جیسا پیار نہیں دیا۔ پڑوسیوں کا خیال تھا کہ ’’آج نہیں تو کل سب ٹھیک ہو جائے گا، کیونکہ کہیں ساس اچھی ہوتی ہے تو کہیں بہو۔ ہم اپنے بڑوں کے ساتھ جیسا سلوک کریں گے، ہمیں اس کا پھل ضرور ملے گا‘‘۔ کہا جاتا ہے کہ ’’رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد‘‘ لیکن یہ ساری باتیں روبی کے لئے اُلٹی ثابت ہوئیں۔

روبی نے حالات سدھارنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوسکے۔ ساری کہاوتیں بیکار محسوس ہونے لگیں، یعنی حنا تو گھس گئی، لیکن اُس کا رنگ نہیں چڑھ سکا۔ آج وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ’’کیا عورت کی قسمت میں صرف تکلیف ہی تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ سماج میں عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ کیا ایک عورت دوسری عورت کا دُکھ نہیں بانٹ سکتی؟۔ آخر کب تک عورت اِن حالات کا شکار ہوتی رہے گی؟۔ عورت کی حیثیت کے بارے میں اخبارات اور رسائل میں آئے دن کچھ نہ کچھ شائع ہوتے رہتے ہیں، اُس کے باوجود وہ آج تک خود مختار نہیں بن سکی۔