عوام کو تابناک مستقبل کا انتظار

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے عوام نے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو ووٹ اور اقتدار دے کر اپنے لئے آیا مصائب اور ابتلاء سے بھرپور راستے کا انتخاب کیا ہے، آیا تلنگانہ عوام کے لئے بُرے دن آگئے ہیں؟۔ مرکز میں ’’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘‘ کے نعرے کے ساتھ اقتدار پر پہونچنے والی بی جے پی حکومت تلنگانہ کے ساتھ سوتیلا سلوک کرکے یہاں کے عوام کو بُرے دن دکھانے والی ہے؟۔ یہ سوالات اس وقت شدت اختیار کرلیں گے جب آندھرا پردیش کی چندرا بابو نائیڈو حکومت تلنگانہ کے ساتھ سابق کے تمام برقی معاہدے ختم کرنے اپنے فیصلہ پر عمل کرے گی۔ برقی بحران سے گذرنے والی ریاست تلنگانہ کے لئے ایک اور بُری خبر یہ ہے کہ اس کی پڑوسی ریاست آندھرا پردیش نے برقی خریداری معاہدوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں حیدرآباد میں مقیم آندھرائی لیڈروں کے گھروں کی روشنی بھی غائب کردینے کی تلنگانہ وزیر نے دھمکی دی ہے۔

تنازعہ اور جھگڑے کی کیفیت کو ہوا دینے والے فیصلے اور واقعات ہر دو ریاستوں کے عوام کے لئے ٹھیک نہیں ہیں۔ حیدرآباد میں آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کو 10سال تک قیام کرنا ہے۔ اس ریاست کے تمام وزراء اور عملے کے ارکان کو حیدرآباد سے ہی اپنی ریاست کا نظم و نسق چلانا ہے تو تلنگانہ سے تصادم کا راستہ اختیار کرکے کوئی مناسب فیصلہ نہیں کیا گیا۔ برقی معاہدوں کو منسوخ کرنے سے آندھرا پردیش کو دیگر شعبوں میں تلنگانہ سے تعاون نہیں ملے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ آندھرا پردیش حکومت اپنے علاقہ میں پیدا ہونے والی برقی اپنے ہی عوام کے استعمال کیلئے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ اس اقدام سے برقی بحران کا شکار تلنگانہ کو مزید بحران سے دوچار ہونا پڑے گا۔ تلنگانہ میں رہ کر فتنے پیدا کرنے کی کوشش سے آندھرائی قائدین کو گریز کرنا چاہیئے۔ تلنگانہ اور اس کے عوام نے اپنی آزادی کیلئے دی گئی قربانیوں کے لہو کا خراج بھی نہیں لیا ہے تو اس کو تاریکی میں غرق کرنے کا منصوبہ تلنگانہ تحریک کی طویل جدوجہد کی سزا تو نہیں ہوسکتی۔

چیف منسٹر تلنگانہ چندر شیکھر راؤ کو آنے والے دنوں میں پڑوسی ریاست آندھرا کی حکومت اور اس کے سربراہ کی پالیسیوں کے بارے میں چوکس ہونا چاہیئے۔ چندرا بابو نائیڈو نے حلف لینے کے بعد جس تیزی سے حکمرانی کا عمل شروع کیا ہے، اتنی ہی سُست رفتاری کے ساتھ تلنگانہ کی حکومت کام کررہی ہے تو پھر مسائل پیدا ہوں گے ہی۔ تلنگانہ حکومت میں ابھی حکمرانی کی کوئی کھچڑی بھی نہیں پک سکی تو آندھرا حکومت نے اپنے اڈلی سامبر کی بِساط سے بڑھ کر کارکردگی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ دو حکومتوں کی رسہ کشی اور دھمکیوں و طعنوں کے درمیان ٹی آر ایس حکومت نے رمضان المبارک سے قبل ریاست کی تمام مساجد کے انتظامات، ائمہ کرام اور مؤذنین کی تنخواہوں کی جانب توجہ دی ہے۔ شہر کی تاریخی مکہ مسجد کے مسائل دیرینہ ہیں، لیکن اب تک کسی بھی حکومت نے ان مسائل کا حتمی حل نہیں نکالا۔ وضو کے لئے حوض میں پانی نہیں ہے، سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں کررہے ہیں، صفائی کے ناقص انتظامات، خطیب اور امام کے باقاعدہ تقرر کا مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔ تلنگانہ کی حکومت نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ خوشی اور خوشحالی کو فروغ دے گی۔ اس حکومت کی کہانی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ صرف اعلانات تک ہی خود کو مصروف رکھے ہوئے ہیں جبکہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر نے دیر سے حلف لے کر بھی اپنی حکومت کے فیصلوں اور فائیلوں پر دستخط کرکے کارکردگی کا آغاز کردیا۔

تنازعات سے بھرے علاقہ تلنگانہ میں ’’ عوام کے لئے اُمید کے جزیرے ‘‘ کا قیام کیسے ممکن ہوگا، یہ فی الحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تلنگانہ عوام کے بُرے دن شروع ہوگئے ہیں۔ ہر نئے کام اور ہر نئی صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے تو کچھ مصائب پیدا ہوتے ہیں، مگر حکومت نے مصائب کو روکنے کے بجائے اس میں اضافہ کو ہوا دینے والے کام شروع کردیئے ہیں تو پھر خوشی اور خوشحالی دور دور تک نظر نہیں آئے گی۔

کمسن تلنگانہ کے باشعور عوام کیلئے ایک بُری خبر یہ بھی ہے کہ مہنگائی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گی، کیونکہ ان کے اپنے وسائل اور زرعی شعبے اب بھی آندھرائی قائدین کے تصرف میں ہیں۔ یہ سرزمین بھی ایک وقت مقررہ تک آندھرائی ایجنڈہ کی تعمیل میں استعمال ہوگی۔ تلنگانہ والوں کی ان مہربانیوں کے عوض انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا تو پھر نئی ریاست قائم ہونے کے بعد بھی حصول انصاف سے محروم تلنگانہ عوام کدھر جائیں گے؟۔ برقی نہیں ہوگی تو ترقی ٹھپ ہوگی، حیدرآباد کو آئی ٹی شعبہ کاشاندار مرکز بنانے کی تیاریاں، میٹرو ریل، فارما سیوٹیکل صنعتیں اور دیگر تجارتی سرگرمیاں برقی کے بغیر کس طرح جاری رہیں گی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ مرکزی حکومت کو بھی ریاست کی تقسیم کے وقت بنائے گئے اصولوں پر عمل آوری کو یقینی بنانا ہوگا۔ آندھرا پردیش کی بالادستی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا حکومت ذیابیطس کی مریض تو ہے نہیں جو کہ کچھ کھانے کے بعد دورے پڑسکیں، اسے تلنگانہ کا حق کھانے کی عادت ورثہ میں ملی ہے تو وہ اپنی عادت کے برخلاف کام نہیں کرے گی۔

لہذا تلنگانہ والوں کو ہی اپنی مخلصانہ یا مفلسانہ عادت ترک کرکے مرکز سے اپنے حق کے حصول کیلئے تحریری احکام حاصل کرنے تک آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیئے۔ حکومتوں کا کیا ہے یہ تو آتی اور جاتی رہیں گی۔ 6ماہ کے اندر تلنگانہ کی حکومت باقی رہ سکے گی بھی یا نہیں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ جس حکومت کے آنے سے قبل جو حالات تھے وہ تلنگانہ حکومت آنے کے بعد بھی برقرار رہیں تو اچھے دن کہاں آتے ہیں۔ اچھے دن تو آندھرا والوں کے تھے اور اب بھی انہی کے دن دکھائی دے رہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو نے اقتدار سنبھالتے ہی آندھرا کے لئے سرمایہ کاری کا باب الداخلہ کھول دیا ہے۔17سال قبل چندرا بابو نائیڈو نے حیدرآباد میں بل گیٹس کو ایک مائیکرو سافٹ کا سب سے بڑا سافٹ ویر بنانے والا مرکز قائم کرنے کی نمائندگی کی تھی۔ اب وہ آندھرا پردیش کے ضلع اننت پور میں جو مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیہ ناڈیلا کا آبائی ضلع ہے کو بڑا ٹکنالوجی مرکز بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ستیہ ناڈیلا سے بات کرکے آندھرا پردیش میں مائیکرو سافٹ کا مرکز قائم کرنے کی نمائندگی کی ہے اور اس کے لئے تمام تر مدد کرنے کا تیقن دیا ہے۔
آندھرا پردیش کے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی پی رگھوناتھ ریڈی نے مائیکرو سافٹ کی طرح دیگر عالمی سافٹ ویر کمپنیوں کو بھی دعوت دی ہے۔

1994ء سے 2004ء تک غیر منقسم ریاست آندھرا پردیش کے سی ای او کے طرز پر حکومت کرنے والے چندرا بابو نائیڈو کی مدد کرنے تمام سرمایہ داروں نے حامی بھرلی ہے۔ ستیہ ناڈیلا کو قریب کرنے کا مقصد آئندہ چند ماہ میں چندرابابو نائیڈو بل گیٹس تک پہنچ کر پھر تاریخ دہرائیں گے۔ مائیکرو سافٹ انڈیا کے چیرمین بھاسکر پرمانک نے بھی چندرا بابو نائیڈو کو انتخابی کامیابی پر مبارکباد دی ہے، اور آندھرا پردیش کے لئے نئے منصوبے بنانے کا تیقن دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں چندرا بابو نائیڈو اپنی ریاست کے لئے بہت کچھ کام کرتے دکھائی دیں گے۔ 25جون کو دہلی میں وزیر اعظم سے ملاقات اور بی جے پی سے انتخابی اتحاد کے عوض اپنی ریاست کے لئے مراعات کا حصول ان کا اصل ایجنڈہ ہوگا۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل اس علاقہ میں خاطر خواہ بجٹ ہونے کے دعویٰ کئے جارہے تھے اور کہا جارہا تھا کہ نئی ریاست کو اپنے کام انجام دینے کے لئے بجٹ کا مسئلہ نہیں ہوگا بلکہ آندھرا کی نئی حکومت کو بجٹ خسارہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ لیکن اب حقیقت سامنے آچکی ہے کہ عہدیداروں نے جو بجٹ بتایا تھا وہ صرف کاغذ کی زینت تھا، اس لئے تلنگانہ حکومت اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے، کسانوں کے قرض بھی معاف نہیں کئے جاسکیں گے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے ابھی تک کسی بڑی فائیل پر دستخط نہیں کئے ہیں جبکہ چندرا بابو نائیڈو نے حلف لینے کے فوری بعد سرکاری ملازمین کی حد عمر کو 58سے بڑھاکر 60 سال کردیا اور دیگر کئی اہم فائیلوں پر دستخط بھی کردیئے۔ ایک ہی خطہ کی دو ہمسایہ ریاستوں کے عوام کو ’’ تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں ‘‘ میں فرق محسوس ہوگا۔
kbaig92gmail.com