عوام کا مال عوام کیلئے خرچ کریں

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
غریبوں کے گھر میں ہانڈی نہیں پکتی، بڑی جیبوں والے دوبئی جاکر کھا آتے ہیں اور خالی ہاتھ عوام اپنی اُنگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ تلنگانہ کے عوام بھی ٹی آر ایس حکومت کے وعدوں کے سہارے تصور میں ہی روزگار، بہتر معیشت، ترقی اور خوشحالی کے لقمے کھارہے ہیں۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد سے کے چندرشیکھر راؤ کے پیر زمین پر ہی نہیں ٹک رہے ہیں بلکہ اپوزیشن نے ان پر الزامات کی بوچھار کردی ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جانے کے لئے راستے کا استعمال کم ہیلی کاپٹر کا استعمال زیادہ کررہے ہیں تو بنیادی مسائل سے آگہی ہرگز نہیں ہوگی۔ نئی ریاست کے عوام کو مقبول عام پروگراموں سے خوش کردیا گیا ہے جبکہ ٹی آر ایس اور اس کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی حکمرانی میں عوام خوش ہیں۔ اپوزیشن نے کے سی آر کی پالیسیوں کو زمینی نہیں فضائی یا خلائی قرار دیا ہے کیوں کہ وہ اپنی تمام پالیسیاں خلاء میں بنارہے ہیں۔ غریبوں کے لئے اعلان کردہ حکومت کے تمام پروگرام صرف آسمان میں ہی خلا بازیاں کھارہے ہیں۔ شہر حیدرآباد جو ایک خوبصورت شہر تھا اس کے چپہ چپہ کو گنجان آبادی، گندگی اور ڈرینج کی اُبلتی ہوئی موریوں سے بدبودار بنادیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس خصوص میں یہ توجہ دلائی ہے کہ چیف منسٹر کو زمینی حقائق وسائل کا ہرگز علم نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ تو جہاں کہیں جانا ہوتا ہے ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں وہ برملا کہتے رہتے ہیں کہ حیدرآباد ان کے لئے نیا نہیں ہے۔

اس شہر کے ہر کونے اور چپہ چپہ سے وہ واقف ہیں اس کے باوجود وہ صرف ہیلی کاپٹر کے ذریعہ حیدرآباد کی خیریت دریافت کرتے ہوں تو پھر اپوزیشن کو اُنگلیاں اٹھانے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ ان کی کابینہ کے وزراء نان ایشو میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان پر دیگر پارٹیوں کے کارکنوں اور قائدین کو ٹی آر ایس میں شامل کرنے کی دھن سوار ہے۔ کے سی آر کو ہمیشہ آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں بنانے کی باتیں کرتے ہوئے سنا جارہا ہے۔ ملٹی اسٹوری بلڈنگس بنانے کی باتیں کرنے والے چیف منسٹر کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ حیدرآباد کی ایک بھی سڑک کھڈوں اور حادثات کا سبب بننے والی ابتر حالت سے پاک نہیں ہے لیکن ان کی بھی ایک مجبوری ہے۔ انھوں نے بلند دعویٰ اور وعدے تو کئے مگر فنڈس کی کمی نے ان کے منصوبوں کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپنے قیمتی پروگراموں جیسے آسمان کو چھوتی عمارتوں کی تعمیر، ہمہ رخی فلائی اوورس اور میٹرو ریل وغیرہ جیسے کاموں کی توسیع کے لئے فنڈس درکار ہیں۔ ایک معمول کے بجٹ کے ذریعہ فنڈس اکٹھا کرنے کی کوشش ممکن نہیں ہے۔ کاموں پر آنے والی لاگت چیف منسٹر کے بلند عزائم کو روک رہی ہے۔ ان کے پاس واحد راستہ ریاست میں موجود سرکاری اراضیات کو فروخت کرنا ہے۔ خاص کر شہر حیدرآباد کے اطراف و اکناف کی اراضیات پر چیف منسٹر کی نظر ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے سرکاری اراضیات کی نشاندہی کا کام شروع کروایا ہے۔ اس کی خاطر ہفتہ میں ایک مرتبہ فضائی سروے بھی کررہے ہیں۔ حیدرآباد و رنگاریڈی کے علاقے میں فضائی سروے کرتے ہوئے انھوں نے زمینات، سڑکوں اور چوراستوں کا جائزہ لیا اور جنگلاتی علاقہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی ترقیاتی اقدام کئے ہیں۔ اپوزیشن یہ مانتی ہے کہ کے سی آر نے اب تک صرف حماقت اور کم عقلی کے مظاہرے کئے ہیں۔ جب حکومت کے ایوانوں میں حماقتوں کے دفتر کھول دیئے جاتے ہیں تو عقل اور منطق کی آوازیں بلند کرنے میں اپوزیشن کو مزہ آتا ہے۔

یہ منظر اس سے پہلے کی حکومتوں میں بھی دیکھا جاچکا ہے۔ مگر سابق چیف منسٹروں کے سخت گیر رویوں کی وجہ سے اپوزیشن کی آواز سنی اَن سنی ہوکر رہ جاتی تھی۔ سابق چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے دور میں کسی بھی اپوزیشن کی ہوا نہیں چلتی تھی، ان کے انتقال کے بعد کئی سیاستدانوں نے سمجھا کہ اب راستے کا کانٹا ہٹ گیا ہے۔ اس لئے عوام کو بے وقوف بنانا آسان ہوگا۔ وائی ایس آر نے جتنا عوام کو بے وقوف بنایا تھا اس سے کہیں زیادہ بے وقوف بنانے کی مشق کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر کو کچھ کام کرتے دیکھ کر کانگریس کے قائدین بول اُٹھے ہیں۔ دونوں شہروں کے علاوہ متصل ضلع رنگاریڈی میں بڑھتی آبادی اور ٹریفک کے اژدہام نے آلودگی کے مسئلہ کو سنگین بنادیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود دونوں شہروں بلکہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے حدود میں عوامی مسائل کی یکسوئی پر دھیان نہیں دیا جارہا ہے۔ حکومت کی پوری توجہ جی ایچ ایم سی کے آئندہ انتخابات پر ہے۔ حال ہی میں کابینہ میں شامل کئے گئے شہر کے سیاستداں سرینواس یادو کو ایک نیا مشن تفویض کیا گیا ہے کہ وہ جی ایچ ایم سی حدود میں آئندہ انتخابات کے بعد تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو کامیاب بنائیں۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ چاہتے ہیں کہ ٹی آر ایس کو جی ایچ ایم سی میں مضبوط بناکر کارپوریٹرس کی کرسیاں بھی اپنی پارٹی کے قبضہ میں کرلیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انھوں نے اپنے وزراء کو سابق کارپوریٹرس کو پارٹی کی طرف راغب کرنے کا کام حوالے کردیا ہے۔ مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے یہ سابق کارپوریٹرس ٹی آر ایس کے لئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر ان سابق کارپوریٹرس نے ٹی آر ایس میں شمولیت کے لئے پارٹی کی پیشکش کو قبول کیا تو دونوں شہروں کی جی ایچ ایم سی نشستوں پر موجودہ جن پارٹیوں کا غلبہ ہے وہ ختم ہوجائے گا۔

یہ سابق کارپوریٹرس بھی اپنی پارٹیوں سے ناراض دکھائی دیتی ہیں۔ اس لئے ریاستی وزراء سے ربط میں ہیں۔ شہر میں تلگودیشم کے کارپوریٹرس کا مضبوط اثر تھا۔ اس پارٹی کے سابق کارپوریٹرس اگر ٹی آر ایس میں شامل ہوجائیں تو انتخابی نتیجہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ تلگودیشم کے جن کارپوریٹرس کے نام ٹی آر ایس کے نزدیک گشت ہورہے ہیں ان میں این نتیش کمار، کے سداشیو یادو، بی راجہ مولی اور نیلم راجندر شامل ہیں۔ کانگریس پارٹی کے اے ستیہ نارائنا، سی سنیتا اور ی راجو یادو سے بھی ٹی آر ایس کے وزراء رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ان سابق کارپوریٹرس ے ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں۔ البتہ سرینواس یادو ان کو ترغیب دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ 2014 ء میں صنعت نگر اسمبلی حلقہ سے تلگودیشم ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ٹی سرینواس یادو اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے کر ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی اور کابینی وزیر بن گئے ہیں۔ اب انھیں آئندہ چند ماہ کے اندر ضمنی انتخابات کا سامنا کرنا ہوگا اس لئے وہ شہر میں ٹی آر ایس کی جڑوں کو مضبوط کرنے دن رات محنت کررہے ہیں۔ اگرچیکہ ٹی آر ایس کے لئے کامیابی کی سحر ہوچکی ہے لیکن عوام کے لئے اُمیدوں کے چراغ گُل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں شہروں میں اپنی طاقت بڑھانے کی فکر رکھنے والی ٹی آر ایس کو شہری مسائل کی یکسوئی پر جنگی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی۔

اس لئے جی ایچ ایم سی کے حدود میں تقریباً 170 ڈیویژنوں کے وجود میں لانے کا منصوبہ رکھنے والی جی ایچ ایم سی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 100 نشستوں پر کامیابی کو یقینی بنانے پر زور دینا شروع کیا ہے۔ اگر ٹی آر ایس کو کامیابی ملتی ہے تو حیدرآباد کی ترقی پر توجہ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ فنڈس کو اکٹھا کرنے میں پریشان ٹی آر ایس یہ ترقی کس طرح دے گی فی الحال غیر واضح ہے۔ ان کے مقابل آندھراپردیش کی حکومت بھی فنڈس کی کمی کے باعث اپنے ترقیاتی منصوبوں کو صرف کاغذی پیراہن دے رکھا ہے۔ نئے سال کے موقع پر چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو نے اپنے اسمارٹ ولیج پلان کا آغاز کیا جس کا مقصد آندھراپردیش کو 2029 ء میں ملک میں سب سے سرفہرست ریاست بنانا ہے۔ عوامی شراکت داری کے ساتھ مواضعات کی جامع ترقی کا منصوبہ نیک ہے مگر اس کے لئے وہ فنڈس کس طرح اکٹھا کریں گے اس پر کوئی اظہار خیال نہیں کیا جاتا۔ عوام کو اُمیدوں کے چراغ جلانے کی ترغیب دینا اچھی بات ہے۔ اسمارٹ ولیج، اسمارٹ وارڈ اور اسمارٹ آندھراپردیش کا نعرہ لگاکر عوام خوش ہورہے ہیں۔ اس منصوبہ کا قطعی مسودہ 18 جنوری کو جاری کیا جائے گا۔ عوام کا مال عوام کے لئے خرچ کرنے عوام کے مسائل عوام کے لئے حل کرنے کا جذبہ ہو تو ترقی کی راہ نکالی جاسکتی ہے۔
kbaig92@gmail.com