عوام پر اب فکر حال طاری

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
تلنگانہ میں نئی حکومت کی کارکردگی اور مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کے مسئلہ پر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا اب تک کا رویہ غموں کی آنچ میں پیشانی خندہ زن ہی رہی کے مصداق کوئی عملی مظاہرہ سے عاری ہے۔ اقتدار کے نئے موسم نے پہن رکھی ہے پوشاک ہری یا گلابی اس سے عوام کے مسائل تو حل نہیں ہوتے۔ آندھراپردیش کی حکومت نے تلنگانہ کی سرزمین پر رہ کر اپنی کارکردگی کو یوں ظاہر کیا ہے کہ وہ تلنگانہ کی حکومت سے کبھی مقابلہ کرنے یا کبھی دوستی کا مرحلہ شروع کرنے پر آمادہ دکھائی دے۔ چندرابابو نائیڈو نے اپنی ریاست کی نازک معاشی صورتحال پر تلنگانہ کی ملکیت والے علاقوں پر ہر طرف نظر رکھی ہے۔ ان کی کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ تلنگانہ کے ان کے قائدین بھی ٹی آر ایس کا رُخ کررہے ہیں۔ ٹی آر ایس کو سیاسی طاقت ازخود حاصل ہورہی ہے تو یہ چندرشیکھر راؤ کی قسمت کا نتیجہ ہے یا قائدین کے اقتدار کی لالچ اس پر آگے چل کر سیاسی حلقوں میں گرما گرم مباحث ہوں گے۔ تلنگانہ میں سیاسی طاقتوں کی غیرمعمولی شیرازہ بندی خوش آئند ہے یا تباہ کن اس پر غور کرنے کی ضرورت ان کو ہوگی جن کے ارکان نے ان کی پارٹی کو خیرباد کہہ کر ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ٹی آر ایس کی صف میں مضبوطی آگئی ہے۔

ٹی آر ایس پارٹی کے لیجسلیٹرس کی تعداد 80 تک پہونچ گئی (65 ارکان اسمبلی اور 15 ارکان کونسل) یہ ایک تاریخی تبدیلی ہے۔ آندھراپردیش کی قیادت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے جن ارکان نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی ہے ان کے سیاسی وزن اور فیصلہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی کیوں کہ ایسے قائدین وقت آنے پر سیاسی صف بدل سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کی جو درگت بنائی گئی ہے اس پر موجودہ عہدیدار کو متنازعہ بنایا گیا۔ ان کے بارے میں نرم گوشوں سے تعریف ہوئی تو متاثرہ لوگوں نے زبردست تعاقب کرکے ان کو عہدہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔ ہر بورڈ کے ہر اسپیشل آفیسر یا اڈمنسٹریٹر کو کئی مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اوقافی جائیدادوں کا آج جو کچھ حال ہے اس کے لئے حکومت کے ساتھ خود مسلمان بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ وقف کے انتظام کو بہتر بنانے کی جانب کبھی بھی رہنمائی اور دیانتداری کے جذبہ سے کام نہیں کیا گیا۔ جب بھی نیا بورڈ بنایا نیا عہدیدار آیا یک رائے کے ساتھ انتظام چلانے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ کبھی باہر سے پتھر پھینکے گئے تو کبھی بورڈ کے اندر سے ہی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور حریفانہ سرگرمیاں انجام دینے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں کی وقف جائیدادوں کی آمدنی کروڑہا روپئے ہونا تھا مگر اسے چند لاکھ تک ہی محدود کرکے رکھا گیا ہے۔ جن لوگوں نے نئی حکومت سے توقعات وابستہ کی ہیں ان کو بھی مایوسی ہورہی ہے یا آئندہ مایوسی کا شکار ہوں گے۔ کے چندرشیکھر راؤ کو بحیثیت چیف منسٹر ہر محاذ پر اپنے سیاسی دبدبے اور عقلمندی کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ان کے مخالفین نے دیکھ لیا ہے کہ وہ سیاسی اعتبار سے اپنی کرسی کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ مگر کسی پارٹی کے ارکان کو لالچ دے کر اپنی جانب راغب کرانے سے اپوزیشن کی الزام تراشیاں تو ہوں گی ہی جیسا کہ تلنگانہ کانگریس کے صدر پونالا لکشمیا نے کہاکہ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کانگریس سے تعلق رکھنے والے ایم ایل ایز کو پھوٹ سے دوچار کررہے ہیں۔ کسی پارٹی میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرنا ایک دن پانسہ اُلٹا بھی ہوسکتا ہے۔

آج جن لوگوں کو منحرف کرایا گیا ہے کل یہی لوگ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اُکسا کر تیسری جماعت کا سیاسی سہارا بن سکتے ہیں۔ ان کی سیاسی نظریں تمیز اغیار اور یار کی کھوچکی ہیں۔ ان آنکھوں سے نشۂ اقتدار اترے تو بات معلوم ہوگی کہ کون کس کا ہمدرد ہے۔ کے چندرشیکھر راؤ تلنگانہ کو سنہرا علاقہ بنانے کے جذبہ کے ساتھ اپنی سیاسی طاقت بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ مخالف تلنگانہ لیڈروں پر راست تنقیدیں کررہے ہیں۔ خاص کر چیف منسٹر آندھراپردیش اور صدر تلگودیشم چندرابابو نائیڈو پر یہ کہہ کر تنقید کی کہ وہ تلنگانہ عوام کو اشتعال دلانے والے بیانات دے رہے ہیں۔ پولاورم پراجکٹ کو لے کر دونوں چیف منسٹروں کی بحث و رائے اپنے اپنے علاقوں کی بہتری کے تناظر میں ہے۔ چندرابابو نائیڈو کی اس وضاحت کو سیاسی نکتہ نظر سے اہم سمجھا جارہا ہے۔ چندرابابو نائیڈو کو اپنی ریاست آندھراپردیش کو خوشحال ریاست بنانے کی فکر ہے۔ اُنھوں نے اس سلسلہ میں وزیراعظم نریندر مودی سے اب تک دو مرتبہ ملاقات کی۔ بی جے پی سے اتحاد کا فائدہ اُٹھانے کی وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں جبکہ کے سی آر نے اپنے دورہ دہلی کو منسوخ کردیا۔ آندھراپردیش میں ریلوے پراجکٹس کے لئے نائیڈو نے 12000 کروڑ روپئے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ تلنگانہ کے حصہ میں ریلوے پراجکٹس کس حد تک اور کہاں تک حاصل ہوں گے یہ کے سی آر کی کوششوں پر منحصر ہے۔

تلنگانہ میں ساؤتھ کا سب سے بڑا ہیڈکوارٹر ہے۔ ساؤتھ سنٹرل ریلوے کی موجودگی کے باوجود تلنگانہ کو ریلوے پراجکٹس میں اس کا حصہ نہیں ملے گا تو پھر اس کے لئے پرزور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ سکندرآباد کے ایم پی بنڈارو دتاتریہ اپنے علاقہ تلنگانہ کے لئے مرکز سے نمائندگی کرسکتے ہیں۔ وہ سابق مملکتی وزیر ریلوے بھی رہ چکے ہیں۔ جہاں تک حیدرآباد میں میٹرو ریل پراجکٹس کی عاجلانہ تکمیل کا سوال ہے اس میں اب تاخیر ہوگی۔ چیف منسٹر نے پراجکٹ کے موجودہ ڈیزائنس اور نقشہ کے علاوہ زیر زمین میٹرو لائین بچھانے پر زور دیا ہے یہ کام ناممکن تو نہیں لیکن مشکل اور بجٹ مصارف کا موجب بنے گا۔ شہر حیدرآباد کے اپنے کئی مسائل ہیں۔ بلدی مسائل کے بارے میں اب تک کی کسی بھی حکومت نے سنجیدہ توجہ نہیں دی ہے۔ تلنگانہ کی نئی حکومت سے بھی ایسی کوئی خاص توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ راتوں رات بلدی مسائل کو حل کرے گی۔ چیف منسٹر نے اپنے انتخابی وعدہ کے ایک حصہ کے طور پر غیر مجاز تعمیرات کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔ اس پر سیاسی مقصد براری کا الزام لگایا گیا ہے۔ منتخب بلدیہ کے ارکان کی میعاد ختم ہورہی ہے اب تک ان ارکان نے شہریوں کو کس حد تک سہولت پہونچائی ہے یہ سارا شہر جانتا ہے۔ برسات کے موسم میں تاخیر سے پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین ہوگا تو اس کا متبادل انتظام بھی حکومت کے لئے مشکل ہوگا۔ جس شہر کو آئی ٹی اور Wifi فری بنایا جارہا ہے وہاں عوام برقی اور پانی کے لئے پریشان ہوں تو یہ ترقی کس کام کی ہوگی۔ چیف منسٹر کے سی آر برقی خریدنے کے لئے چھتیس گڑھ کے چیف منسٹر سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

پڑوسی ریاستوں ٹاملناڈو، کرناٹک سے بھی برقی خریدی کی تجویز ہے۔ جبکہ ریاست کی تقسیم نے حیدرآباد کی چھوٹی صنعتوں کو بھی بے گھر کردیا ہے۔ حیدرآباد میں قائم تقریباً 700 صنعتیں اب آندھرا کا رُخ کرنے والی ہیں تو تلنگانہ میں روزگار کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ حیدرآباد میں کل تک رائلسیما اور آندھرا کے تاجرین کی سرگرمیاں تھیں اب یہ لوگ اپنی چھوٹی اور متوسط صنعتوں کو اپنے علاقوں میں منتقل کرنے والے ہیں تو بلاشبہ ان کی جگہ تلنگانہ کے صنعتکاروں اور تاجروں کو حاصل ہوگی لیکن اس سے فی الفور روزگار کا مسئلہ کس حد تک حل ہوگا، یہ نئی صنعتوں کے قیام کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کو 10 سال تک اگرچیکہ دونوں ریاستوں کا مشترکہ صدر مقام قرار دیا گیا ہے۔ یہاں درج رجسٹرڈ صنعتوں سے ہی زبردست مالیہ حاصل ہوتا تھا۔ تلنگانہ میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس مالیہ ان ہی تاجروں اور درج رجسٹر دفاتر سے وصول ہوتا تھا اب ٹیکس وصولی کی شرح فیصد میں بھی فرق پیدا ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2 جون کے بعد آندھراپردیش میں زائد از 118 نئی کمپنیوں نے خود کو درج رجسٹر کروایا ہے جبکہ تلنگانہ میں صرف 12 کمپنیوں کے نام درج رجسٹر ہوئے ہیں۔ اس لئے تلنگانہ کی حکومت کو جلد از جلد تجارتی فرق کو دور کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنے چاہئے تاکہ ٹیکس کے ذریعہ حاصل ہونے والے مالیہ میں کوئی فرق پیدا نہ ہو اور عوام کو ایک بہتر حکومت فراہم کرنے کے سی آر کے وعدہ کی تکمیل میں کوئی مالی رکاوٹ نہ بنے۔ تلنگانہ عوام کے لب اس وقت خاموش ہیں، چشم خشک ہونے سے پہلے چیف منسٹر کو کچھ حوصلہ مندی کے کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔ جب تلنگانہ کا داؤ لگایا تھا تو نظر میں فقط جیت تھی دیکھا کئے پانسے کو خسارہ کہاں دیکھا اس لئے عوام پر اب فکرحال طاری ہے۔
kbaig92@gmail.com