عوامی مسائل اٹھانے میں اپوزیشن ناکام

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ

 

تلنگانہ میں سرکاری عہدیداروں کی چاندی ہی چاندی ہے ۔ راتوں رات امیر بنتے جارہے ہیں ۔ کرپشن کا جن ان عہدیداروں کو امیر ترین بنا رہا ہے ۔ مگر خون بہا کر تلنگانہ حاصل کرنے والا نوجوان ہلاک اور بیروزگاری مر رہا ہے ۔ تلنگانہ اینٹی کرپشن بیورو ( ACB ) نے گذشتہ روز نظام آباد اکسائز سپرنٹنڈنٹ جیوتی کرن کے مکانات پر دھاوے کیے اور کروڑہا روپئے کی جائیدادیں ضبط کی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی قیمت 30 کروڑ روپئے ہے ۔ یہ خبر اندوہناک ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنی ریاست کو کرپشن سے پاک بنانے کی جدوجہد میں اس قدر ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ایک ضلع میں معمولی اکسائز سپرنٹنڈنٹ کروڑہا روپئے کی ملکیت کا مالک ہے ۔ تلنگانہ بلکہ ہر ریاست میں انسداد رشوت ستانی ادارہ ہوتا ہے ۔ جس کا نام سے ظاہر ہے کہ یہ ادارہ بدعنوان اور رشوت خور عہدیداروں کو گرفتار کرنے میں مہارت رکھتا ہے ۔ اس ادارہ کی موجودگی کے باوجود جب کسی ضلع میں ایک عہدیدار رشوت خوری کے ذریعہ ڈھیر ساری دولت جمع کرتا ہے تو یہ حیران کن بات ہے ۔ ہماری ریاست کی پولیس رشوت خوروں اور بدعنوان عہدیدارو ںکو پکڑنے سے قاصر ہے ۔ مگر معمولی موٹر سیکل راں کو ہیلمیٹ نہ پہننے پر پکڑ کر ہراساں کرتی ہے ۔ ایک نوجوان موٹر سیکل پر فرار ہونے کی کوشش کی ۔ پولیس والے نے چوراہے پر اسے روک لیا ، نوجوان نے سوال کیا کیا آپ نے مجھے اراضی اسکام میں پکڑا ہے ۔ اس نے کہا جی نہیں ۔ اس نے پھر سوال کیا اور پوچھا کہ کیا تم نے مجھے بتکماں تہوار کے موقع پر ناقص ساڑیوں کے اسکام کیس میں پکڑا ہے ۔ پولیس والے نے کہا کہ ہرگز نہیں ۔ اس پولیس والے کا لہجہ سپاٹ رہا ، پھر نوجوان نے سوال کیا کہ آپ نے مجھے ناجائز اثاثہ کیس میں یا میاں پور اراضی اسکام میں پکڑا ہے ۔ بالکل نہیں پولیس نے نفی میں سر ہلایا ۔ تو پھر مجھے پکڑنے کی وجہ بتاؤ اس نے کہا کہ تم کو ہیلمیٹ نہ پہننے پر پکڑا جاتا ہے ۔ تلنگانہ کا ہر سرکاری کرمچاری مزے میں ہے ۔ بدعنوانیاں ، دھاندلیاں ، رشوت خوری ، کام کی چوری طرح طرح کی برائیاں ہیں ۔ پھر بھی حکومت کہتی ہے کہ نظم و نسق بہترین طریقہ سے چل رہا ہے ۔ انسداد رشوت ستانی بیورو کے عہدیداروں نے جس اکسائز عہدیدار کے گھروں پر دھاوے کر کے دستاویزات ضبط کئے ہیں ان میں ظہیرآباد میں 30 ایکڑ زرعی اراضی ، ضلع رنگاریڈی اور حیدرآباد میں 16 پلاٹس اور 75 تولے سونا ، ایک کیلو گرام چاندی بھی شامل ہے ۔ اتنا ہی نہیں پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں بھی اے سی بی کی سنٹرل انوسٹی گیشن یونٹ نے آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے 23 مقامات پر دھاوے کئے اور 10 کیلو گرام سونا اور ڈائمنڈ جیولری ، 15 ایکڑ اراضی کے دستاویزات ، 26 مکانات کے پلاٹس ، 26 مکانات ، ایک لکثرری لاج اور 16 فلیٹس کے دستاویزات بھی سرکاری عہدیداروں کے مکانات سے ملے ہیں ۔ یعنی کہ دو سرکاری ملازمین کو گرفتار کیا گیا تو ان کے پاس سے غیر محسوب اثاثہ جات کی طویل فہرست دستیاب ہوئی جن کی لاگت 500 کروڑ روپئے بتائی جاتی ہے ۔ یہ ہے حکمرانی اور حکومت کے کارندوں کی کہانی ہے ۔ اس طرح کے کئی عہدیدار ہیں جن تک انسداد رشوت ستانی کا ہاتھ نہیں پہونچ سکا ہے ۔ پولیس اور حکومت کا نشانہ تو صرف غریب عوام ہی ہیں ۔ عوام کو وعدوں کی مٹھی لوری دے کر سلانے والی اس حکومت کی بدعنوانیوں کا جب پٹارہ کھلے گا تو عوام واقعی حیرت زدہ ہوں گے ۔ صدر نشین تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پروفیسر کودنڈا رام صحیح کہتے ہیں کہ یہ ریاست ترقی کی راہ سے ہٹ گئی ہے ۔ حکومت کے خلاف جو بھی الزامات عائد کیے جارہے ہیں وہ بالکل درست ہیں ۔ اپوزیشن پارٹی کانگریس کے قائدین چیف منسٹر کے سی آر کے اب تک کے کیے گئے وعدوں کی فہرست تیار کر کے اسے عوام کے سامنے لے جانے کی سوچ رہے ہیں ۔ مگر اس میں انہیں ہرگز کامیابی نہیں مل سکتی کیوں کہ اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس اپنی ساکھ کھوچکی ہے ۔ گذشتہ 3 سال کے دوران اس نے حکومت کا کان پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ اقلیتوں کی ہمدرد ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود کانگریس نے تلنگانہ کے مسلمانوں کے مسائل حل کرانے میں موثر رول ادا نہیں کیا ۔ گذشتہ 3 سال سے مسلم طلباء اسکالر شپ سے محروم ہیں ۔

محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کی لاپرواہی کی خبریں عام ہونے کے باوجود اس مسئلہ پر توجہ نہ دینا اپوزیشن کے عدم موجودگی کا ثبوت ہے ۔ اقلیتی طلباء کی اسکالر شپ اور فیس باز ادائیگی کے لیے فنڈس جاری کرنے میں حکومت کی کوتاہی یا اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے فنڈس کے حصول میں ناکامی ہر دو صورتوں میں مسلم طلباء کا تعلیمی مستقبل کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ اس مسئلہ کو اٹھانے سے اپوزیشن ناکام ہے ۔ تلنگانہ کے عوام کو مایوسی اور پریشانیوں سے نکالنے کا وعدہ کر کے اقتدار پر آنے والے کے سی آر نے ان میں یہ امید پیدا کردی تھی کہ اس ریاست میں کرپشن کے عنصریت کو روکا جائے گا لیکن صرف اکسائز ڈپارٹمنٹ کے ایک عہدیدار کے پاس رشوت کی بھاری رقم پکڑی گئی تو اندازہ کیجئے کہ ریاست کے دیگر محکموں میں رشوت ستانی کا بازار کس حد تک گرم ہے ۔ اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ اس حکومت کا ہر فرد رشوت اور بدعنوانیوں میں ملوث ہے ۔ یہ الزام بارش کا پہلا قطرہ ہے ۔ یہ تاثر بالکل ہی نہیں ہے کہ بڑے لوگوں پر انسداد رشوت ستانی محکمہ یا دیگر ایجنسیاں ہاتھ نہیں ڈال سکتیں ۔ یہ خراب حکمرانی ہے ۔ سازش ہے یا کسی کی حمایت ، ایک طرف ٹریفک پولیس کو سڑکوں پر کھلا چھوڑ کر موٹر رانوں کو پریشان کرنے کا اختیار دیا گیا ہے تو دوسری طرف بڑے بڑے چوروں ، کالا بازاریوں اور رشوت خوروں کو آزادی دی رکھی گئی ہے ۔ اب حیدرآباد کے شہریوں کو ایک اور خوش خبری دی گئی ہے کہ اس شہر کو ترقی دینے کے لیے چیف منسٹر نے ایک لاکھ کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ مشن حیدرآباد کے تحت حیدرآباد کو ترقی دی جائے گی ۔ ریاست کے دیگر اسکیمات مشن بھاگیرتا اور مشن کاکتیہ کو شروع کرنے والے کے سی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی یہ دو اسکیمات شاندار طریقہ سے کامیاب ہورہی ہیں ۔ ان دو اسکیمات کے ذریعہ ہر گھر کو نل کا کنکشن فراہم کر کے پینے کا صاف پانی سربراہ کیا جارہا ہے ۔ حیدرآباد کی ترقی کی بات کرنے والے چیف منسٹر نے گذشتہ 3 سال کے دوران شہر کی جو درگت بنا رکھی ہے اس سے ہر شہری واقف ہے ۔ شہریوں کو مفت وائی فائی سرویس فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن آج تک یہ سرویس زیر زمین ہی پڑی ہوئی ہے ۔ اس سال نومبر میں میٹرو ریل کا افتتاح کرنے کا اعلان کیا گیا مگر اب تک کئی جگہ پر کام ادھورا ہے ۔ شہر کو کئی فلائی اوورس کی ضرورت ہے ۔ سڑکوں کی تعمیر ، پارکنگ لاٹس ، پبلک ٹائیٹلس ، اسکائی ویز ، روڈوں کو شہروں سے ملانے والے پروگرام پر غور کیا جارہاہے لیکن یہ سب کب اور کس طرح ہوگا اس کو صرف کاغذی پیرہن دیا جارہا ہے ۔
kbaig92@gmail.com