علی ظـہیر 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
اردو کے جدید لب و لہجہ کے منفرد شاعر اور میرے عزیز ترین دوست علی ظہیر کا اس دنیا سے اُٹھ جانا میرے لئے ایک ایسا شخصی سانحہ ہے جسے آسانی سے نہ تو برداشت کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بھُلایا جاسکتا ہے ۔ اُن سے رسمی جان پہچان یوں تو پچاس برس پرانی تھی ، جب وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے انجنیئرنگ کالج کے نوجوان طالب علم کی حیثیت سے پروفیسر حسن عسکری سے ملنے کی غرض سے کبھی کبھار اورینٹ ہوٹل کی محفلوں میں آیا کرتے تھے ۔ حسن عسکری میرے بے تکلف دوستوں  میں تھے اور علی ظہیر ان کے ایک معتقد تھے ۔ لہذا ان سے بس سرسری سی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان سے میرے گہرے شخصی مراسم اُس وقت استوار ہوئے ، جب 2006 ء میں اپنی خانگی وجوہات کی بناء پر میں نے زیادہ تر حیدرآباد میں وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دہلی میں پینتیس برسوں کا عرصہ گزارنے کے دوران میری دو سرجریاں ہوئیں۔ 2000 ء کے اواخر میں میرے گھٹنے کی سرجری ہوئی جو ناکام رہی ۔ چنانچہ میں اکیسویں صدی  میں لنگڑاتے ہوئے ہی داخل ہوا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ تاہم 2004 ء کے اواخر میں دہلی میں ہی میری بائی پاس سرجری ہوئی جو بے حد کامیاب رہی ۔ بچوں اور دیگر افراد خاندان کا اصرار بڑھنے لگا کہ میں حیدرآباد منتقل ہوجاؤں اور دہلی آتا جاتا رہوں۔ دہلی میں طویل قیام کے دوران نہایت کامیاب ، فعّال اور بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب میں اے سی گارڈس کے ایک اپارٹمنٹ میں رہنے لگا تو احساس ہوا کہ حیدرآباد میں میرے مدّاح اور شناسائی تو بہت سے ہیں، لیکن جگری اور بے تکلف دوست بہت کم ہیں سوائے حمایت اللہ ، محمد تقی، محمد میاں اور محمود الحسن خاں صوفی جیسے احباب کے ۔ تاہم اے سی گارڈس میں قیام کے دوسرے دن ہی مجھے پتہ چلا کہ علی ظہیر میرے پڑوس میں کچھ اس طرح رہتے ہیں کہ اگر میں چاہوں تو اُن کے ڈرائنگ روم کو اپنے گھر کے ڈرائینگ روم کی طرح استعمال کرسکتا ہوں۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا بھی۔ ان کے اور میرے گھر کے درمیان صرف ایک گلی حائل تھی ۔ میں اپنے بیڈروم کی کھڑکی میں سے دیکھ سکتا تھا کہ علی ظہیر کے گھر میں کون آرہا ہے اور کون جارہا ہے ۔ بہرحال دوسرے ہی دن علی ظہیر مجھ سے ملنے کیلئے آگئے ۔ بہت محبت  سے ملے اور مجھے اُسی  وقت اندازہ ہوگیا کہ علی ظہیر مجھ سے نہ صرف قریب بلکہ عنقریب بھی ہونے والے ہیں۔ چنانچہ پچھلے آٹھ برسوں میں ہم دونوں کی دوستی حیدرآباد کی ادبی اور سماجی محفلوں میں لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر گئی ۔ ہمارے ایک مشترک دوست نے اس حیثیت کو شرارتاً ملزم اور الزام کا بلیغ عنوان بھی عطا کر رکھا تھا ۔ ہم دونوں محفلوں میں ہمیشہ ساتھ ساتھ دکھائی دیتے تھے۔ علی ظہیر مجھ سے عمر میں بارہ تیرہ برس چھوٹے تھے ۔ اسی لئے خاصی بے تکلفی کے باوجود وہ میری بزرگی کا ہمیشہ پاس و لحاظ رکھتے تھے ۔ ہر دم ’’مجتبیٰ بھائی ، مجتبیٰ بھائی ‘‘ کی گردان کرتے رہتے تھے۔ وہ بے حد سلیقہ مند ، وضعدار ، شائستہ اور مہذب انسان تھے ۔ خلوص و محبت اور ہمدردی و دلداری کا انوکھا پیکر تھے اور خوش مذاق، ملنسار ، ہنس مکھ اور شگفتہ گو انسان تھے ۔ وہ بے حد موٹے تھے اور موٹے لوگوں کے بارے میں میری شخصی رائے یہ ہے کہ یہ حضرات مجبوری میں شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ بن جاتے ہیں کیونکہ کوئی خلافِ معمول بات کہہ کر یہ بھاگ جانے کے اہل نہیں ہوتے ، اس لئے ہر دم مسکراتے رہتے ہیں۔ علی ظہیر فطرتاً خوش مذاق واقع ہوئے تھے ۔ میری باتوں پر بے ساختہ قہقہے لگاتے تھے اور دیر تک ہنستے رہتے تھے ۔ اُن سے روز ہی ملاقات ہوجاتی تھی۔ ابتدائی ملاقاتوں میں ہی اُن کی شخصیت کے مختلف پہلو مجھ پر واہوتے چلے گئے ۔ وہ بے حد پڑھے لکھے آدمی تھے ۔ وہ اردو کے اُن شاعروں میں سے نہیں تھے جو ہمیشہ مشاعرے ہی پڑھتے رہتے ہیں علی ظہیر کتابیںاور رسالے بھی پڑھتے تھے ۔ ان کا مطالعہ خاصا عمیق اور وسیع تھا ۔ یادداشت غضب کی پائی تھی ۔ دنیا کے بہترین ادب پر گہری نظر رکھتے تھے ۔
خاص طور پر انگریزی کے نئے نئے ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں اور تخلیقات پڑھتے رہتے تھے ۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ سیول انجنیئر اور آرکیٹکٹ تھے ، لیکن ادب سے ان کا سروکار کچھ ایسا گہرا تھا کہ لگتا تھا ادب ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا  ہے ۔ تاریخ ، تمدن ، مذہب اور ثقافت پر اُن کی نظر بہت گہری تھی ۔ وہ سچ مچ جہاندیدہ آدمی تھے  اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایران ، خلیجی ممالک اور یوروپ میں گزارچکے تھے ۔ امریکہ بھی آتے جاتے رہتے تھے ۔ گویا ایک کاسمو پالیٹن شخص تھے ۔ انگریزی زبان پر بھی انہیں خاصا عبور تھا ۔ انگریزی میں شعر تو نہیں کہتے تھے ، البتہ نثر میں مضامین لکھتے تھے ۔ میں اکثر مذاق میں اُن سے کہتا تھا میاں علی ظہیر تم جہاں کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی اردو لکھنے پر قدرت رکھتے ہو، وہیں تم ٹیمز اور مسی سپی میں دُھلی ہوئی انگریزی بھی لکھ لیتے ہو ۔ اردو کے کلاسیکل شعراء کے ہزاروں شعر انہیں یاد تھے ۔ خاص طور پر میر تقی میر کی شاعری کے تو وہ حافظ تھے ، آپ جانتے ہیں کہ میرؔ نے شاعری کے چھ دیوان چھوڑے جب کہ غالب نے صرف ایک چھوٹے سے دیوان پر اکتفا کیا ۔ اسی لئے غالب کے بیشتر اشعار لوگو ںکو یاد ہیں۔ تاہم میرؔ کے سینکڑوں شعر علی ظہیر کو یاد تھے ۔ میر انیس اور دبیر کے بے شمار شعر انہیں ازبر تھے ۔ لفظوں کے وہ پارکھ اور مزاج دان تھے ۔ کسی لفظ کے معنی پوچھے جاتے تو علی ظہیر اس لفظ کے معنی بتانے کے علاوہ اس لفظ سے نکلنے والے ذیلی الفاظ کی نشاندہی نہ صرف کرتے تھے بلکہ اس کے مفہوم کے مختلف رنگوں کو بھی واضح کردیتے تھے ۔ میری ہمیشہ سے عادت رہی کہ لکھتے وقت اگر کوئی مخصوص لفظ آجائے تو اس لفظ کے مختلف مفاہیم کے بارے میں اپنے احباب سے ضرور پوچھ لیا کرتا ہوں۔ دہلی میں اس کام کیلئے میں بسا اوقات نثار احمد فاروقی ، مظہر امام اور عمیق حنفی کو زحمت دیا کرتا تھا ۔ جب سے حیدرآباد میں رہنے لگا ہوں ، اس کام کیلئے سب سے پہلے علی ظہیر کو پھر مضطر مجاز یا ضیاء الدین شکیب کو زحمت دیتا رہا ہوں۔ یہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ جب  سے مجھے علی ظہیر کا پڑوسی بننے کا شرف حاصل ہوا ہے تب سے میں نے کوئی ڈکشنری نہیں کھولی ۔ اس سے آپ علی ظہیر کی علمیت اور میری کم علمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ علی ظہیر کو بچپن ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا ۔ ان کے بزرگوں کے ملنے والوں میں مرزا یاس یگانہ چنگیزی اور نجم آفندی جیسے مشاہیر شامل رہے ہیں ۔ خود علی ظہیر نے اپنے ابتدائی کلام پر حضرت نجم آفندی سے اصلاح لی ۔ اس سے آپ زبان و بیان پر اُن کی گہری قدرت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اردو اور انگریزی پر انہیں گہرا عبور تو تھا ہی ، فارسی زبان میں اُن کی مہارت بھی حیرت انگیز تھی ۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ علی ظہیر  نے اپنی ملازمت کے سلسلہ میں خاصا لمبا عرصہ ایران میں گزارا تھا ۔ چنانچہ ایران میں اُن کا قیام 1974 ء سے 1982 ء تک رہا ۔ انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ اس میں شریک بھی رہے ۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے فوری بعد انہوں نے علی قلی قرائی (وحید اختر مرحوم کے برادر نسبتی) کے ساتھ مل کر ایک انگریزی ماہنامہ (A Message of Peace) کے نام سے نکالا ۔ ایران کے کلاسیکی شعراء کے فارسی کلام کے علاوہ وہ جدید فارسی کے ادب سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے ۔ وہ بڑی روانی کے ساتھ جدید فارسی بولتے تھے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب دو تین برس پہلے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں فارسی زبان و ادب اور تہذیب پر ایک سمینار منعقد ہوا تھا جس میں ایران کے کئی علماء اور اساتذہ نے شرکت کی تھی ۔ سمینار کے بعد چائے نوشی کے دوران جب ایرانی اساتدہ سے علی ظہیر کا آمنا سامنا ہوا تو علی ظہیر نے بڑی روانی کے ساتھ جدید فارسی بولنی شروع کی اور ان کا لب و لہجہ بھی ٹھیٹ ایرانی تھا ۔ ضیاء الدین شکیب جو خود بھی فارسی کے عالم ہیں، اس ملاقات کے وقت موجود تھے ۔ میں جب بڑی حیرت کے ساتھ علی ظہیر کی فارسی سننے لگا اور ان کے ایرانی لب و لہجہ سے مسحور ہونے لگا تو ضیاء الدین شکیب نے ایک نہایت دلچسپ جملہ مجھے مخاطب کر کے کہا ’’میاں مجتبیٰ ! اگر حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں ایران کو فتح نہ کیا ہوتا تو سید علی ظہیر آج حجاز کی گلیوں میں عربی بولتے ہوئے پائے جاسکتے تھے‘‘۔ ضیاء الدین شکیب کے اس بلیغ جملہ پر علی ظہیر نے جیسا زور دار قہقہہ لگایا تھا ، وہ مجھے اب تک یاد ہے ۔ علی ظہیر کی حس مزاح بہت تیز تھی اور پر مزاح جملوں سے وہ دیر تک لطلف اندوز ہوا کرتے تھے۔
علی ظہیر کے والد سید محمد حسین مرحوم ریاضی کے نامور استاد تھے جو اپنے والد سید محمد مہدی کے ساتھ 1925 ء میں لکھنو سے ترک وطن کر کے حیدرآباد آگئے تھے ۔ تاہم علی ظہیر خالصتاً حیدرآبادی تھے کیونکہ ان کی پیدائش ہندوستان کی آزادی سے چھ مہینے پہلے حیدرآباد میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے جاگیر دارانہ نظام کو تو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر وہ حیدرآبادی تہذیب کے دلدادہ اور والہ و شیدا تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک کی آزادی کے وقت ریاست حیدرآباد میں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، یگانگت اور یکجہتی پائی جاتی تھی ، اس کی مثال ہندوستان میں کہیں اور نہیں مل سکتی تھی ۔ وہ نہایت روشن خیال ، سیکولر ، وسیع القلب اور وسیع النظر انسان تھے ۔ وہ اعتدال کے قائل اور شدت پسندی کے سخت مخالف تھے۔ علی ظہیر کے چھ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور بحیثیت شاعر علی ظہیر کا ایک خاص رتبہ تھا ۔ تاہم انہیں شعر سنانے کا ہوکا نہیں تھا ۔ وہ مشاعروں کے شاعر بالکل نہیں تھے ۔ اُن سے میری روز ہی ملاقات ہوجاتی تھی مگر میں نے انہیں خود سے کبھی شعر سناتے نہیں پایا ۔ احباب اصرار کرتے تو تحت میں شعر سنادیا کرتے تھے ۔ علی ظہیر کو موسیقی سے بھی گہرا لگاؤ تھا ۔ وہ سہ پہر میں بڑی پابندی سے ستار بچایا کرتے تھے ۔ وہ جب ریاض کرتے تو میں اپنے بیڈروم میں اس سے لطف اندوز ہوا کرتا تھا ۔ غرض کہ وہ ہر فن مولا قسم کے انسان تھے ۔ آج کی دنیا میں ایسی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے ۔ علی ظہیر کو روزنامہ ’’سیاست‘‘ سے خاص اُنس تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ علی ظہیر مدرسہ عالیہ میں زاہد علی خان ، مدیر سیاست کے ہم جماعت اور ڈاکٹر شاہد علی خان کے ہم مکتب تھے ۔ عابد علی خان مرحوم بھی ایران جاتے تو علی ظہیر اُن کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ اُن کے پہلے شعری مجموعہ کی اشاعت میں محبوب حسین جگر مرحوم کا تعاون شامل رہا ۔ عابد علی خان مرحوم اور محبوب حسین جگر مرحوم کی شفقتوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہوجاتے تھے ۔ علی ظہیر بہترین مترجم بھی تھے ۔ پاکستانی نژاد مشہور امریکی مصنف خالد حسینی کے انگریزی ناول (The Kite Runner) کا اردو ترجمہ انہوں نے ’’پتنگ باز‘‘ کے عنوان سے کیا تھا جو ماہنامہ ’’سب رس‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا ۔ اس اردو ترجمہ کی اشاعت کے کاپی رائٹ کے حصول کیلئے انہوں نے پچھلے مہینہ ہی خالد حسینی سے ربط قائم کیا تھا اور اپریل میں انہوں نے امریکہ جانے کا پروگرام بھی بنایا تھا۔ افسوس کہ علی ظہیر ایک اور کام بھی ادھورا چھوڑ گئے ہیں۔ تین سال پہلے ایک دن علی ظہیر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میر تقی میر کی حیات معاشقہ پرایک ٹیلی ویژن سیریل کی چار قسطیں لکھ رکھی ہیں۔ میں نے علی ظہیر سے فوراً یہ چاروں قسطیں حاصل کرکے دوردرشن کے ارباب مجاز کو روانہ کیں۔ کچھ عرصہ پہلے دوردرشن سے اطلاع آئی کہ یہ سیریل منظور ہوچکا ہے اور علی ظہیر سے خواہش کی گئی کہ وہ اگلی قسطیں بھی لکھ دیں۔ علی ظہیر اس اطلاع سے بیحد خوش تھے اور اس سیریل کی تیاری کے سلسلہ میں دہلی جانے کا ارادہ کر رہے تھے۔ افسوس کہ اب یہ کام شاید ادھورا ہی رہ جائے۔ وہ بے حد منظم اور مربوط انسان تھے ۔ ہر کام کو سلیقہ سے انجام دینے کا ہنر انہیں آتا تھا۔
علی ظہیر جیسے یار دلدار اور خوش مزاج انسان کا اچانک اس دنیا سے چلے جانا میرے لئے ایک ناقابل برداشت شخصی سانحہ ہے۔ اس کا ماتم کیسے کروں اور کب تک کروں ۔ پچھلے دس بارہ دنوں سے علی ظہیر شکایت کررہے تھے کہ وہ دن بہ دن کمزوری اور نقاہت محسوس کر رہے ہیں ۔ صحت کے معاملہ میں وہ ڈاکٹر رام پرشاد سے رجوع ہوتے تھے ۔ 13 مارچ کو ڈاکٹر رام پرشاد نے ان کا معائنہ کیا اور مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا ۔ اسی شام علی ظہیر سے میری ملاقات ہوئی ۔ عام کمزوری کی شکایت کر رہے تھے ۔ 14 مارچ کو شام میں ان کے پڑوسی اور میرے پرانے دوست عباس زیدی نے اطلاع دی کہ علی ظہیر کو بخار آگیا ہے اس لئے انہیں بنجارہ ہلز میں ان کی اہلیہ اور بیٹی کے ہاں منتقل کیا گیا ہے۔ 15 مارچ کو صبح میں نے علی ظہیر کو فون کیا تو بتایا کہ کمزوری بدستور برقرار ہے ۔ بس آرام کر رہا ہوں ۔ میں دوپہر میں ڈاکٹر رام پرشاد کے مطب پر گیا اور علی ظہیر کی کیفیت سناکر خود علی ظہیر سے ڈاکٹر رام پرشاد کی بات کروادی ۔ ڈاکٹر رام پرشاد نے ضروری ہدایات دیں تو علی ظہیر نے کہا کہ وہ خود دوسرے دن یعنی 16 مارچ کو ڈاکٹر رام پرشاد سے ملنے آجائیں گے ۔ ڈاکٹر رام پرشاد کو شبہ تھا کہ علی ظہیر کے مرض کی علامات چکن گنیا سے ملتی جلتی ہیں۔ بہرحال 15 مارچ کو شام میں فون کیا تو خود علی ظہیر نے فون ا ٹھایا ۔ کہنے لگے ’’اب ذرا آرام سے ہوں ، ٹھیک ہوجاؤں گا۔ میں کل دوپہر میں آپ کے پاس آجاؤں گا ۔ ہم وہاں سے ڈاکٹر رام پرشاد کے پاس چلیں گے‘‘۔ میں نے بھی کہا کہ میں تمہارا منتظر رہوں گا۔ 16 مارچ کو صبح میں نے علی ظہیر کا حال جاننے کیلئے فون کیا تو فون نہیں اٹھایا۔ پھر سوچا کہ جب علی ظہیر کو دوپہر میں آنا ہی ہے تو فون کر کے کیوں ڈسٹرب کروں ۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ پونے بارہ بجے کے قریب علی ظہیر کے عزیز ترین دوست ڈاکٹر بیگ احساس کا فون آیا اور یہ دلخراش اطلاع ملی کہ علی ظہیر کا حالت نیند میں انتقال ہوگیا ۔ ڈاکٹر بیگ احساس نے بتایا کہ کل شام بھی ان کی علی ظہیر سے بات ہوئی تھی اور اُن کی خواہش تھی کہ آج شام میں ہم لوگ اُن کے ہاں آئیں ۔ ڈاکٹر بیگ احساس کے فون کے بعد دل و دماغ جس طرح ماؤف ہوئے ، اس کیفیت کو میں لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ سچ مچ وہ میری ویران زندگی کو مزید ویران اور سونا بناکرچلا گیا ۔ علی ظہیر جیسا بے لوث ، مخلص اور ہمدرد دوست زندگی کی آخری گھڑیوں تک یاد آتا رہے گا ۔
(18 مارچ 2013 ء)