علی باقر

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
علی باقر کے بارے میں کچھ لکھنے کو دراصل میں اپنے بارے میں کچھ لکھنا تصور کرتا ہوں۔ اس لئے کہ ہم دونوں کی دوستی کی عمر اب پاؤ صدی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ یہ دوستی وہاں سے شروع ہوتی ہے جب ہم دونوں کے ’’آتش‘‘ نہ صرف جوان تھے بلکہ ایک ہی یونیورسٹی کی ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے (یہاں یونیورسٹی سے مراد عثمانیہ یونیورسٹی ہے اور جماعت سے مراد بی اے ہے ) ہم دونوں کے مزاج مشترک تھے ۔ مضامین مشترک تھے ، دوست مشترک تھے اور حد ہوگئی کہ وہ لڑکیاں بھی مشترک تھیں جن کے حُسن پر ہم باری باری فدا ہوتے تھے۔ اس نازک معاملے میں بھی جب ’’خیالِ خاطرِ احباب‘‘ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تو اس دوستی کی پائیداری میں بھلا کیا شک ہوسکتا ہے۔
1953 ء کے جون کی کوئی تاریخ تھی ، جب علی باقر سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی، اس خوش شکل ، خوش مذاق ، خوش خوراک اور خوش اخلاق نوجوان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ ایک پل بھی نچلا نہیں بیٹھ سکتا ، نچلا تو وہ اب بھی نہیں بیٹھتا، مگر ان دنوں اس کی رگوں میں جیسے پارہ دوڑا کرتا تھا ۔ کبھی کسی پر جملہ چست کیا ، کسی پر فقرہ پھینکا، کسی پر پھبتی کسی، کسی پر لطیفہ اچھال دیا ۔ غرض اس کی زندگی ایک لمبی اور کبھی ختم نہ ہونے والی ہنسی تھی ۔ جہاں تک مندرجہ بالا اوصاف حمیدہ کا تعلق ہے بفضل تعالیٰ یہ مجھ میں بھی موجود تھیں بلکہ اس وقت کی عثمانیہ یونیورسٹی کی اردو میں ’’بدرجہ اتم ‘‘ موجود تھیں۔ سوائے خوش شکلی کے میں علی باقر سے کسی میدان میں پیچھے نہ تھا ۔ اس زمانے کی عثمانیہ یونیورسٹی اردو شعر و ادب کے ماحول میں کمر کمر ڈوبی ہوئی تھی ۔ میاں علی باقر کا یہ حال تھا کہ بیت بازی کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے تو شعروں کے کشتوں کے پشتے لگادیتے تھے اور جیسا کہ اس زمانے کے استادوں کا طریقہ تھا وہ بیٹھے بیٹھے عش عش کرتے رہ جاتے تھے ۔ اس ہونہار برواکے پات اتنے چکنے تھے کہ ان پر سے بظاہر ہر سنجیدگی پھسل جایا کرتی تھی لیکن اس ہنسوڑا اور کھلنڈرے نوجوان کی شخصیت کے ایک گوشے میں بڑی سنجیدگی ، وقار ، تنظیم اور رچاو بھی تھا اور یہی گوشہ پھیل کر آج کا علی باقر بن گیا ہے۔

اگرچہ یونیورسٹی میں ہم گھنٹوں ادب پر بحث کیا کرتے تھے لیکن کبھی یہ خوف دامن گیر نہ ہوا کہ میاں علی باقر ایک دن کہانیاں بھی لکھیں گے ۔ میں نے بی اے تک اپنے آپ کو ’’زیور تعلیم ‘‘ سے آراستہ کیا اور یونیورسٹی سے باہر نکل آیا مگر علی باقر نے اتنی تعلیم کوناکافی سجھا اور پڑھتے چلے گئے ۔ ایم اے کیا اور آکسفورڈ میں نہ جانے کیا کیا غیر ضروری تعلیم حاصل کی ۔ کچھ ملازمتیں کیں۔ دہلی میں رہے اور ایک دن چپ چاپ لندن چلے گئے ۔ پھر ایک خوشگوار صبح کو پتہ چلا کہ لندن جاکر وہ افسانہ نگار بن گئے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں جب تک ملک سے برآمد نہ کیا جائے ، تب تک ان میں سے ’’ادب‘‘ بھی برآمد نہیں ہوتا ۔ علی باقر ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ میرے اور علی باقر کے ایک مشترک دوست تھے ، جو انگریز ، انگریزی اور انگلستان سے اتنے متاثر تھے کہ عام بات چیت میں بھی بی بی سی سے خبریں نشر کرتے تھے ۔ جب تک ہندوستان میں رہے انگریزوں کے گن گاتے رہے ۔ انگریزی بولتے تھے ، انگریزی میں چلتے ، بیٹھتے ، کھاتے پیتے اور سوتے بھی تھے ۔ وہ اس صدی کی چھٹی دہائی میں جب ہندوستان سے انگلستان گئے تو ہمیں یوں لگا جیسے ہندوستان پر سے برطانوی اقتدار کا اصل خاتمہ تو ان کے جانے کے بعد ہوا ہے ۔ برطانوی اقتدار کے تابوت میں وہ آخری کیل کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر لندن جاکر وہ ایسے بدلے کہ سنا ہے کہ اب بی بی سی کی خبریں نشر کرنا تو کجا انہیں سنتے تک نہیں ۔ اب ان کا رخ اٹلی کی طرف ہوگیا ہے ۔ علی باقر کا معاملہ جداگانہ تھا ۔ وہ انگریزی تو بولتا تھا مگر انگریزی میں چلتا پھرتا اور سوتا نہیں تھا ۔ اس کی جڑیں ہندوستانی معاشرے میں دور تک پیوست تھیں۔ وہ یوروپ گیا تو اپنے ساتھ بطور سامانِ سفر اپنی مشرقی اقدار اور اطوار کو بھی لے گیا اور چودہ برس کے بن باس کے بعد جب وطن واپس لوٹا تو تب بھی اس کا سامانِ سفر محفوظ تھا۔ علی باقر نے زندگی کا یہ سلیقہ اپنے والد بزرگوار مولوی آفتاب حسین سے سیکھا ہے ۔ خدا جنت نصیب کرے ۔ ایسے رکھ رکھاؤ والے آزاد خیال آدمی تھے کہ ہم لوگ بھی ان سے ملتے تو دل میں حسرت لے کر اٹھتے کہ اے کاش ہمیں بھی جیتے جی ایسا ہی باپ مل جاتا۔

علی باقر نے شروع میں جب ایک افسانہ ’’شراب اور شہد‘‘ لکھا تھا تو بطور خاص خط لکھ کر اس غلطی کی جانب میری توجہ نہ صرف مبذول کرائی تھی بلکہ یہ بھی لکھا تھا کہ میں اپنی رائے سے اسے خبردار کروں ۔ رائے تو خیر میں کیا دیتا مگر اس کہانی کو پڑھ کر یہ یقین نہ آیا کہ یہ وہی علی باقر ہے جسے ہم نے یوروپ جاتے وقت وداع کیا تھا تو تب بھی یہ قہقہے لگا رہا تھا ۔ اس کی کہانی میں کچھ ایسا چھپا سا غم تھا ، ایسی اچھوتی کسک تھی اور ایسا لطیف حُزن تھا کہ میں حیران رہ گیا کہ علی باقر نے آخر یہ دولت اب تک کہاں چھپا رکھی تھی ۔ آدمی کو سمجھنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے ، اس کا اندازہ پہلی بار ہوا ۔
اس کے بعد علی باقر کی پے بہ پے کئی کہانیاں شائع ہوئیں۔ علی باقر کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ پیشہ ور افسانہ نگار نہیں ہے ۔ ادب میں زندہ رہنے کی مصلحتوں اور تقاضوں سے بالکل ناواقف ۔ سوائے اپنے قریبی دوستوں کے اس نے کسی اور سے اپنی کہا نیوں کے بارے میں رائے نہیں پوچھی۔ حا لانکہ مصلحت کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے ناقدوں سے رائے پوچھی جائے اور اس کے بعد ضروری ہوا تو قریبی دوستوں کو زحمت دی جائے ۔ اس لئے کہ ادب میں زندہ رہنے کی یہی باتیں ہوتی ہیں۔ مگر اس کا ایک فائدہ علی باقر کے حق میں یہ ہوا کہ اس نے جب بھی کوئی کہانی لکھی تو سچی اور بے ساختہ کہانی لکھی ۔ ہماری طرح نہیں کہ ایک ایک ناقد کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کئے جارہے ہیں ۔ اس اعتبار سے علی باقر کی کہا نیاں ’’خالص کہانیاں‘‘ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کہانیاں سیدھے دل میں اتر جاتی ہیں اور خوشبو بن کر ساری ذات میں مہکنے لگتی ہیں۔ علی باقر کی بعض کہانیاں پڑھ کر میرا وجود کئی کئی دنوں تک معطر رہا ۔ علی باقر نے احساس کے اس اچھوتے پن کو نہ جانے کس طرح ا تنے دنوں تک چھپائے رکھا تھا ۔ اس کا انداز بیان بھی بے حد انوکھا ، بے ساختہ اور بے تکلف ہے ۔ چھوٹے چھوٹے فقروں اور بے ضرر سے جملوں کو اکٹھا کر کے وہ جذبے اور احساس کی ایک عالیشان عمارت کھڑی کردیتا ہے ۔اس کے پیرایہ بیان کو دیکھ کر بیاکے گھونسلے کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔ ایسا اچھوتا اسلوب مجھے اردو کے بہت کم افسانہ نگاروں کے ہاں دکھائی دیا۔
علی باقر کی اکثر کہانیاں یوروپ کے معاشرے کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ وہ جب یوروپ کی کہر آلود فضاؤں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی باتیں کرتا ہے تو ان کے دکھ درد اور ان کی چھوٹی موٹی خواہشوں میں خود کو شامل کرلیتا ہے ۔ سارا یوروپ جیسے اس کے سینے میں سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ وہ مشرق کے دیگر ادیبوں کی طرح ایک خاص عینک لگا کر یوروپ کے لوگوں کو نہیں دیکھتا ۔ براعظموں میں بٹے ہوئے سارے انسان یکساں ہیں۔ صرف ان کے حالات اور پس منظر الگ الگ ہیں۔ علی باقر کی کہانیوں کا بنیادی مسلک انسانیت اور انسانی رشتوں کو جوڑنے والا وہی جذبہ ہے جسے ہم محبت کہتے ہیں ۔ اس کی ہر کہانی چاہے وہ ’’ہٹ دھرم‘‘ ہو، ’’کسک، ہو یا ’’پہلے عشق کی لذت‘‘۔ انسان کے اسی آفاقی جذبے کی نمائندگی کرتی ہے ۔ اس کی دیس بدیس کی کہانیاں پڑھ کر دل میں کیا کیا ہوتا ہے ، کتنی کلیاں چٹکتی ہیں، کتنے زخم سلگ اٹھتے ہیں، کتنے تاربج اُٹھتے ہیں ، یہ سب میں کیسے بتاؤں ؟ آپ خود پڑھ کر دیکھ لیجئے ۔ اس کی فنکاری اسی میں پوشیدہ ہے کہ وہ چھوٹی سی بات میں بھی جذبے کی عظمت تلاش کرلیتا ہے ۔ اس کی کہانی ’’تو نل بانا‘‘ جب میں نے پڑھی تھی تو کتنی ہی دیر غمگین رہا تھا ۔ اگر میں اس کہانی کو لکھتا تو اسے ایک لطیفے کی شکل میں بیان کردیتا ۔ مگر علی باقر نے اس کہانی میں ایک انجانے غم کی وہ تہہ داریاں تلاش کی ہیں جو ایک سلیقہ منداوربا وقار ادیب ہی سے ممکن ہے۔

علی باقر کی ایک اور پہچان یہ ہے کہ وہ ہم سب کے بنے بھائی یعنی سجاد ظہیر مرحوم اور محترمہ ر ضیہ سجاد ظہیر کا داماد ہے۔ مگر اس نے ادب میں اپنا مقام بنانے کیلئے اس آسان اور مؤثر رشتے سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس نے تو بس کھری کہانیاں لکھی ہیں، ادب میں مقام بنانے سے کیا مطلب ؟ بنے بھائی نے خود میرے سامنے کئی بار اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ علی باقر کو اپنے افسانوں کا مجموعہ شائع کرنا چاہئے ، مگر اس معا ملے میں وہ ایسا لاپرواہ ثابت ہوا کہ بنے بھائی کی زندگی میں ان کی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکا۔ (داماد چیز ہی ایسی ہوتی ہے) عملی زندگی میں وہ اب بھی ہر سنجیدہ بات کو ہنس کر ٹال دیتا ہے ۔ افسانوں کے اس پہلے مجموعے کی اشاعت بھی دراصل میرے پیہم اصرار اور تقاضوں کا نتیجہ ہے ۔ مگر میرے اصرار کا مطلب یہ تو نہ تھا کہ وہ مجھ سے ہی اس کتاب کا پیش لفظ ، لکھواتا جسے میں اکثر ’’پس و پیش منظر ‘‘ کہتا ہوں۔ بھلا میں کس ہنر میں پکتا ہوں ۔ اپنی کم علمی اور لفظ کے ثبوت مثالوں کے ساتھ دے کر اس سے کہا ’’بھئی تم کسی بھاری بھرکم شخصیت سے کیوں نہیں لکھواتے ؟ ‘‘۔
بولا’’میاں مجتبیٰ ! ہم تو محبت کے دیوانے ہیں۔ وہی کریں گے جو محبت ہم سے کروائے گی ‘‘پھر آنکھ مار کر حسب دستور ٹھٹھا مارتے ہوئے بولا ’یوں بھی میں نہیں چاہتا کہ میری کتاب کی وجہ سے تمہارے علاوہ کسی اور کی شہرت میں اضافہ ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ اب ذرا تم بھی مشہور ہو لو۔ اب مان جاؤ ، اچھے بچے ضد نہیں کرتے ‘‘ ۔
شہرت اور محبت یہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کیلئے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ پیش لفظ لکھنا کون سا مشکل کام ہے ۔ سو بحالت مجبوری میں نے علی باقر کے افسانوں کے چلتے جھکڑ کے آگے اپنے اس پیش لفظ کا چھوٹا سا دیا جلانے کی جسارت کی ہے جو یقیناً پہلے ہی افسانے کے جھونکے میں بجھ جائے گا ۔ اس کے بعد میں اندھیرے میں رہ جاؤں گا اور آپ علی باقر کے افسانوں کی روشنی میں بہت دور تک چلے جائیں گے اور میں چاہتا بھی یہی ہوں۔
(اشاعت : 1978 ء)