علامہ اقبال کے شاعرانہ اجتہادات

ڈاکٹر محمد فیض احمد
علامہ اقبال کے فلسفیانہ خیالات و افکار میں اتنی یکجہتی ‘ شوکت اور گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے کہ بسا اوقات ان کے شاعرانہ کمالات پر آپ کے فلسفیانہ افکار اثر انداز ہونے لگتے ہیں ، دراصل وہ تمام ان کی شاعری کے حوالے سے ہی ہم تک پہنچتے ہیں ۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ، فارسی اور اردو کلام سے ان کے افکار واضح ہوتے ہیں ، ہندوستانی بچوں کے قومی گیت میں کہتے ہیں۔
چشتی نے جس زمیں پر پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے

مندرجہ بالا اشعار دراصل ہندوستان کی تاریخی ، ثقافتی اور تہذیبی حقائق کا سرچشمہ ہے ۔ اس مختصر سے مضمون میں علامہ اقبال کی اردو شاعری کا تفصیلی ، تنقیدی و تحقیقی جائزہ لینا ممکن نہیں ہے ۔ بات ان کے چند بنیادی امور کے مطالعہ کی حد تک ہے ۔ جو ہمارے ادبی ارتقاء کے لئے سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں ۔
انیسویں صدی کے اواخر میں شعرائے کرام نے شاعری کو شخصی اور صنعتی اثرات سے نکال کر زندگی کے تمام تر محوروں سے منسوب کیا اور اسے حقائق زندگی سے قریب تر کرنے کی کوششیں کیں ۔فن کی پختگی کے بجائے زندگی کی بہتری اور صحت مندی کے اجتہادات کی ابتداء کرتے نظر آتے ہیں ۔ پیشروؤں کے غیر واضح تصورات کو علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں واضح اور متعین کیا ۔ انہوں نے اپنی شاعری کے توسط سے وطن اور قوم کے تصور کو واضح کیا ، وطنیت ، ہمہ وطنیت ، عالم انسانیت اور تصور معاشرت کو بھی واضح کیا ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمایئے۔
آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
یہ تمام تصورات دراصل علامہ اقبال کو غیر شعوری طور پر ان کی تلاش تھی جس کے زیر اثر ان کا دل بے چین تھا دراصل آپ کے رگ رگ میں اسلامی خون موجزن تھا ۔ ان کا حساس دل مسلمانوں کے تنزل کا نقشہ دیکھ کر بے چین ہوجاتا اور وہ کہہ اٹھتے :

امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
تعلیم میں امت کے اسباب زوال میں ایک اہم سبب نوجوان طبقہ کی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ روش زندگی کو مرکز مان کر نوجوان نسل کو سوچنے اور عمل کرنے کی تلقین علامہ اقبال کچھ اس طرح کرتے ہیں۔
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
علامہ اقبال نے اپنی قومی و ملی شاعری کے ذریعہ بنی نوع انسان کو ایک روحانی انقلاب کا پیغام دیا جو مسلسل ، مربوط اور مکمل نظام فکر کا حصہ تھا ۔ ان کے افکار کا یہ تسلسل ، ربط و ضبط ان کی شاعری خاص سمت عطا کرتی ہے جوو ایک متعین اور زمینی حقیقتوں سے متصف ہے جو اردو شاعری ان عناصر سے عاری تھی ۔ یہ علامہ اقبال کا اردو شاعری پر احسان ہے ۔ آپ کے غیر فانی کردار کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ذہنی اور تخلیقی دونوں سطح پر یہ ثابت کردیا کہ شاعری اور زندگی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ جو ادب زندگی کی کروٹ کا ساتھ نہیں دیتا وہ فنا ہوتا ہے ، ان کی شاعری جو آج زندہ ہے وہ کل بھی رہے گی ، جس کا احساس انہیں خود بھی تھا ۔

علامہ اقبال کی شاعری خود زندہ نہیں بلکہ اردو ادب کو بھی ایک نئی زندگی دینے کے اسباب بنائے جو پائیدار اور غیر فانی محسوس ہوتی ہے ۔ آپ نے شاعری کو فقط زندگی سے ہی وابستہ نہیں کیا بلکہ زندگی کے تصور ، فرد کی زندگی اور پیغام حیات سے جوڑا جو فرد اور اقوام کی زندگی کی علامت ہے ۔ انسان کی عظمت اس کی دنیاوی مرتبہ ‘ حیثیت ، قومی وقار ، وطنی نسبت اور رنگ و نسل کے سبب ہی نہیں اس کی فطرت کی بلندی کے سبب بھی ہے ۔ انسان میں عقل اور دل کی کشمکش جاری رہتی ہے ایک طرف ذاتی نفع نقصان تو دوسری طرف کسی بلند مقصدکے حصول کا خیال و جذبہ جو ذوق یقین سے مضبوط ہوتا ہے ۔ اور وہ کردکھاتا ہے جو دنیاوی وسائل و اسباب سے ممکن نہیں یہی بلند مقصد اور نصب العین انسانی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے جو خودی ہے ۔ علامہ کہتے ہیں :
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے دراندہ کارواں کو
شررافساں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

دراصل علامہ اقبال نے انسانی زندگی کے اس بلند تصور سے اردو ادب کے شعری اور فنی محرکات کا مقام اونچا کیا ۔ جو کام فارسی شاعری میں تصوف نے کیا تھا ، وہی کام اقبال اردو زبان میں کرگئے ۔ جو ہماری معاشرتی ، سیاسی ، اخلاقی اقدار کی سربلندی کی بابت اہمیت کے حامل ہیں ۔ جس کے پیش نظر ادبی نظریات اور ان کا نصب العین میں بدلا ۔ آپ بھی چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
نالہ ہے بلبل شوریدہ ، ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
گیسوئے تابدار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر قطب و نظر شکار کر
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوۂ ساقی
یہاں مومن ، نالہ ، کلیمی ، اثر ، نشیمن ، گیسو ، اور یدبیضا نئی نئی معنویت لئے اجاگر ہوئے ہیں ۔ جو عہد حاضر کے کردار بھی لگتے ہیں جن کی شاعرانہ تصور اور جذباتی کیفیات بالکل انوکھی اور جدا ہیں ۔ اقبال نے ابتداء میں گل رنگین ، شمع و پروانہ ، ابر کہسار ، ماہ نو وغیرہ نظمیں لکھیں ان میں بھی انہوں نے تمام اشیاء کو ایک نیا رنگ و روپ بخشا اور ان کا لکھا ’’والدہ کا مرثیہ‘‘ ایک بچہ کا ماتم ہی نہیں بلکہ بزرگ مفکر کی خاموش گریہ وزاری ہے ۔ اس کے بعد کی نظموں ’’مسجد قرطبہ‘‘ ’’ساقی نامہ‘‘ میں نئے نئے شعری اشارے جلوہ گر ہیں ۔ علامہ کے یہی فلسفیانہ اور دقیق خیالات اور شعری تاثرات اردو ادب میں آپ کا افسانہ ہے ۔