علامہ اقبال کی مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ (’’زندہ دور‘‘ کے حوالے سے)

سید نصیرالدین احمد
اقبال نے فارسی میں ایک مثنوی لکھنے کا ارادہ کیا تھا جس کے متعلق وہ کہتے ہیں ’’میرے والد نے کہا ہے کہ میں بوعلی قلندر کی پیروی میں ایک فارسی مثنوی لکھوں ۔ اگرچہ یہ کام مشکل تھا لیکن میں نے وعدہ کرلیا ہے ۔ ’’اقبال کے ایک بیان کے مطابق مثنوی‘‘ اسرار خودی تحریر کرنے کا آغاز تو 1910 ء سے ہوگیا تھا مگر ابتداء میں مثنوی یعنی حقائق فردیہ انہوں نے اردو میں لکھنا شروع کی ۔ اس کے بارے میں فرماتے ہیں’’میں نے‘‘ اسرار خودی، پہلے اردو میں لکھنی شروع کی تھی مگر مطالب ادا کرنے سے قاصر رہا جو حصہ لکھا گیا تھا اس کو تلف کردیا گیا ۔ کئی سال بعد پھر یہی کوشش میں نے کی ۔ قریباً دیڑھ سو اشعار لکھے مگر میں خود ان سے مطمئن نہیں ہوں۔ یہ مثنوی فارسی میں کیوں تحریر کی گئی ؟ اس سلسلے میں اقبال خود بیان کرتے ہیں :
’’1905 ء میں جب میں انگلستان آیا تھا تو میں محسوس کرچکا تھا کہ مشرقی ادبیات اپنی ظاہری دلفریبیوں اور دلکشیوں کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسان کے لئے امید ، ہمت اور جرات عمل کا پیغام ہوتی ہے جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہئے ۔ یہاں پہنچ کر یوروپی ادبیات پر نظر ڈالی تو وہ اگرچہ ہمت افروز نظر آئیں لیکن ان کے مقابلے کے لئے سائنس کھڑی تھی جو ان کو افسردہ بنارہی تھی ۔ 1908 ء میں جب میں انگلستان سے واپس آیا تو میرے نزدیک یوروپی ادبیات کی حیثیت بھی تقریباً وہی تھی جو مشرقی ادبیات کی تھی ۔ ان حالات سے میرے دل میں کشمکش پیدا ہوئی کہ ان ادبیات سے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنی چاہئے اور ان میں روح پیدا کرنے کیلئے کوئی نیا سرمایہ حیات فراہم کرنا چاہئے ۔ میں اپنے وطن گیا تو یہ کشمکش میرے دل میں جاری تھی اور میں اس درجہ منہمک تھا کہ وہ تین سال تک میرے عزیز دوستوں کو بھی علم نہ تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ 1910 ء میں میری اندرونی کشمکش کا ایک حد تک خاتمہ ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خیالات ظاہر کردینے چاہئیں لیکن اندیشہ تھا کہ ان سے غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔ بہرحال میں نے 1910 ء میں اپنے خیالات کو مدنظر رکھ کر ا پنی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ لکھنی شروع کی۔ اردو کو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے شروع کرنے کے متعلق اب تک مختلف لوگوں نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آج میں یہ راز بھی بتادوں کہ میں نے فارسی میں شعر کیوں کہنے شروع کئے ۔ بعض اصحاب خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں نے اس لئے اختیار کی کہ میرے خیالات زیادہ وسیع حلقے میں پہنچ جائیں۔ حالانکہ میرا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا ۔ میں نے اپنی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ ابتداء میں صرف ہندوستان کیلئے لکھی تھی اور ہندوستان میں فارسی سمجھنے والے بہت کم تھے ۔ میری غرض یہ تھی کہ جو خیالات میں باہمہ پہنچانا چاہتا ہوں وہ کم از کم اس حلقے تک پہنچیں ۔ اس وقت مجھے یہ خیال تک بھی نہ تھا کہ یہ مثنوی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر جائے گی ۔ سمندر کا سینہ چیر کر یوروپ پہنچ جائے گی ۔ بلا شبہ یہ صحیح ہے کہ اس کے بعد فارسی کی دلکشی نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور میں اسی زباں میں شعر کہتا رہا‘‘۔
’’اسرار خودی‘‘ لکھتے وقت رفتہ رفتہ اقبال کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ مثنوی وہ از خود نہیں لکھ رہے بلکہ انہیں اس کو لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے ۔ مہاراجہ کشن پرشاد کے نام اپنے ایک خط 14 اپریل 1916 ء میں تحریر کرتے ہیں۔
’’یہ مثنوی جس کا نام ’’اسرار خودی‘‘ ہے، ایک مقصد سامنے رکھ کرلکھی گئی ہے ۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میلان سکر و مستی و بیخودی کی طرف ہے۔ مگر قسم ہے اس خدا نے واحد کی جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو ہے، میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا مضمون لکھنے کیلئے کیوں انتخاب کیا گیا ۔ جب تک اس کا دوسرا حصہ ختم نہ ہوجائے گا میری روح کو چین نہ آئے گا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا بھی ایک فرض ہے اور شاید میری زندگی کا اصل مقصد بھی یہی ہے ۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی ، کیونکہ ہم سب انحطاط کے زمانے کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزاء و اسباب کو اپنے شکار ( خواہ وہ شکار کوئی قوم ہو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب بنادیتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بدنصیب شکار اپنے تباہ و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا ہے‘‘۔
اقبال کی خواہش تھی کہ مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کی اشاعت سے پیشتر کسی ماہر فارسی ادب کو سنائیں۔ اس سلسلہ میں وہ اپنے استاد مولانا سید میرحسن اور شیخ غلام قادر گرامی سے مشورہ لیتے رہے ۔ خواجہ عزیز الدین لکھنوی سے بھی جو ایک بلند پایہ فارسی شاعر و ادیب تھے ، صلاح لینے کا مقصد کیا لیکن خواجہ عزیز بہت ضعیف ہوچکے تھے تاآنکہ 1915 ء میں ان کا انتقال ہوگیا ۔

جب مثنوی ختم ہوگئی تو اس کے نام کے انتخاب کا مسئلہ باقی تھا ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اقبال نے خواجہ حسن نظامی کو تحریر کیا ۔’’وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت و استحکام پر بحث کی ہے اب قریباً تیار ہے اور پریس جانے کو ہے ۔ اس کیلئے کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمائیے۔ شیخ عبدالقادر نے اس کا نام ’’اسرار حیات’‘ ، ’’پیام سروش‘‘ ، ’’پیام نو‘‘ اور ’’آئین نو‘‘ تجویز کئے ہیں۔ آپ بھی طبیع آزمائی فرمایئے اور نتائج سے مجھے مطلع فرمایئے تاکہ میں انتخاب کرسکوں۔ بہرحال مثنوی کا نام اقبال نے خود ہی ’’اسرار خودی ‘‘ منتخب کیا ۔
وسط 1915 ء میں ’’اسرار خودی‘‘ پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوئی۔کتاب کی اولین اشاعت میں دو تین باتیں قابل ذکر تھیں۔ اول یہ کہ سرسید علی امام سے معنون کی گئی تھی ۔ دوم یہ کہ دیپاچے میں اس دقیق مسئلہ پر اقبال نے اپنی رائے کا اظہار کردیا تھا جو اس نظم کا موضوع تھا اور سوم یہ کہ خواجہ حافظ شیرازی کے انداز فکر کے خلاف اقبال نے چند اشعار میں آواز بلند کی تھی ۔ دیپاچے میں اقبال کے نقطہ نظر اور خواجہ حافظ پر ان کی کڑی نکتہ چینی کے سبب کئی مشائخ ہی نہیں ارباب ذوق بھی اقبال سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے مخالفت کا طوفان کھڑا کردیا ۔ اسی طرح اس بات پر بھی اعتراض کیا گیا کہ جس کتاب میں فلسفہ خودی کی تشریح کی گئی ہو اور قوم کو خودداری کی تعلیم دی گئی ہو اسے ایک خطاب یافتہ اور دنیا دار کے نام کیوں معنون کیا گیا ہے ۔

حافظ شیرازی پر تنقید والے معاملے میں اقبال کے معترضین میں ان کے والد بھی شامل تھے۔ اقبال کے والد (شیخ نور محمد) وحدت الوجود کے قائل تھے بلکہ اقبال کے سلسلہ اجداد میں بھی اکثر بزرگوں کا مسلک وحدت الوجود ہی تھا ۔ اس اعتبار سے وجودی تصوف کے خلاف بغاوت اقبال کے اپنے خاندانی مسلک کے خلاف بھی بغاوت تھی۔ ’’اسرار خودی‘‘ کا ایک نسخہ اقبال نے اپنے والد کی خدمت میں ارسال کیا جسے وہ عموماً صبح کے وقت پڑھتے تھے ۔ حافظ کے انداز فکر پر تنقیدی اشعار کوانہوں نے حافظ کی شان میں گستاخی کے مترادف سمجھا اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اسی اثناء میں ’’اسرار خودی‘‘ کی مخالفت میں اخبارات و رسائل میں مضامین شائع ہونے لگے۔
اتفاق سے انہی دنوں اقبال سیالکوٹ گئے ۔ گرمیوں کے موسم میں رات کو سب کوٹھے پر سوتے تھے ۔ اقبال اور ان کے والد کی چار پائیوں کے درمیان حسب معمول حقہ بھر کر رکھ دیا گیا اور باپ بیٹا دونوں علمی گفتگو میں مشغول ہوگئے ۔ جب گفتگو کے دوران ’’اسرار خودی‘‘ میں حافظ پر نکتہ چینی کے سلسلہ میں حلقہ صوفیہ کی برہمی کا ذکر آیا تو اقبال نے کہا کہ میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پراعتراض نہیں کیا بلکہ میں نے تو صرف ایک اصول کی وضاحت کی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانان ہند پر عجمی تصوف کا اس قدر غلبہ ہے کہ وہ زہر کو آب حیات سمجھنے لگے ہیں۔ اس پر شیخ نور محمد گویا ہوئے کہ حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر بھی تو اس اصول کی تشریح ہوسکتی تھی ۔ اقبال نے جواب دیا کہ یہ حافظ پرستی بھی تو بت پرستی سے کم نہیں۔ شیخ نور محمد نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے تو بتوںکو بھی برا کہنے سے منع کیا ہے ۔ اس لئے مثنوی کے وہ اشعار جن پر عقیدتمندان حافظ کو اعتراض ہے حذف کردئے جائیں۔ اقبال کچھ نہ بولے، بس مسکرا کر رہ گئے ۔ بعد میں مثنوی کی اشاعت دوم میں قابل اعتراض اشعار ، دیباچہ اور سر سید علی امام سے متعلق انتسابی اشعار خارج کر کے اقبال نے بحث کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا ۔
جہاں تک مثنوی کے سر سید علی امام کے نام معنون ہونے کا تعلق ہے اس کی دو وجوہ پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اقبال اپنے اس دوست کے جذبہ اسلامیت سے متاثر تھے اور انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ سر سید علی امام اسلامی اخلاق اور آداب کا بے مثل نمونہ تھے ۔ یوروپ میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود عربی قصائد کے اشعار اور فارسی اساتذہ کا کلام انہیں زبانی یاد تھا ۔ 1931 ء میں اقبال کے ساتھ ایک ہی جہاز میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے انگلستان گئے تھے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ابتدائی ایام میں اقبال کی یہ زبردست خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح حیدر آباد دکن کو اسلام کی دینی ، فکری، علمی اور تمدنی احیاء کا مرکز بنایا جائے ۔ وہ خود بھی وہاں کوئی مناسب ملازمت حاصل کر کے منتقل ہونا چاہتے تھے اور نظام کی سرپرستی میں تصنیف و تالیف کا کام کرنے کے آرزومند تھے ۔ حیدرآباد کی علم ودوست اور با اثر شخصیتوں سے ان کی واقفیت تھی ۔ نواب میر محبوب علی خاں انتقال کرچکے تھے اور نواب میر عثمان خاں نظام تھے ۔ 11 جنوری 1912 ء کو مہاراجہ کشن پرشاد نے مدارالمہام کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا اور یکم ڈسمبر 1914 ء تک نواب میر یوسف علی خاں سالارجنگ مدارالمہام رہے ۔ پھر نظام نے دیوانی اور وزارت کا قلمدان خود سنبھال لیا ۔ جس زمانہ میں مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی اس وقت سر سید علی امام حیدرآباد کے وزیراعظم نہ تھے بلکہ نظام نے خود وزارت عظمی سنبھال رکھی تھی اور مملکت حیدرآباد بڑی تن دہی سے اصلاحات کی جانب گامزن تھی۔ چونکہ نظام کیلئے بیک وقت سربراہی اور وزارت میں دخل رکھنا ممکن نہ تھا ، اس لئے افواہ گرم تھی کہ انگریزی حکومت سے سرسید علی امام کی خدمات مستعار حاصل کی جائیں گی ۔ اقبال کا خیال تھا کہ اس مرحلے پر اگر سر سید علی امام وزیراعظم مقرر ہوگئے تو ممکن ہے کہ ریاست میں اسلام کے تمدنی احیاء کے لئے کوئی مثبت قدم اٹھایا جاسکے ۔اس توقع کے پیش نظر مثنوی کی اشاعت اولین کو سرسید علی امام کے نام معنون کیا گیا ۔ بالآخر 1919 ء میں سرسید علی امام کا تقرر بطور صدرالمہام ہوگیا ۔ انہوں نے ریاست کی ترقی کیلئے کئی منصوبے تیار کئے جن میں عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام بھی تھا ۔ چار سال کی مدت تک صدرالمہام رہ کر 1922 ء میں وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے ۔پھر 1926 ء سے لیکر 1937 ء تک مہاراجہ کشن پرشاد صدرالمہام رہے ۔ ان کے الگ ہونے پر 1937 ء سے سر اکبر حیدری کا دور وزارت شروع ہوا۔
ان سیاسی جھمیلوں سے لاتعلق اقبال ایک گاؤں کی تنہائی میں گرمیوں کے موسم میں مثنوی ’’اسرار خودی ‘‘ کے حصہ دوم یعنی’’رموز بے خودی‘‘ لکھنے میں مصروف رہے ۔ 1917 ء کے اواخر میں ’’رموز بے خودی‘‘ مکمل ہوئی اور اقبال مثنوی کے تیسرے حصے بعنوان ’’حیات مستقبلۂ اسلامیہ‘‘ تحریر کرنے پر غور کرنے لگے۔
غلام رسول مہر کی رائے میں حقیقی اسلامیت کی بیداری کیلئے نظام فکر کی ترتیب نے اقبال کے ذہن میں مختلف شکلیں اختیار کیں۔ شروع میں اس کی حیثیت کچھ تھی ۔ پھر نئے نئے پہلو سامنے آتے رہے حتیٰ کہ دو مثنویوں کا خاکہ ان کے ذہن میں مکمل ہوگیا ۔ ایک کا تعلق حیات فرد سے تھا اور اس کا نام ’’اسرار خودی‘‘ رکھا ۔ دوسری کا تعلق حیات ملت سے تھا ۔ لہذا اسے’’رموز بے خودی‘‘ سے موسوم کیا گیا لیکن تیسری کو جس کا موضوع حیات مستقبلہ اسلامیہ تھا، ضبط تحریر میں نہ آسکی۔