علامہ اقبال کا نظریۂ شعر

ڈاکٹر محی الدین حبیبی
حقیقی شاعری ، وارداتِ قلبی کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ یہ واردارت ، دراصل باطنی تجربہ ہوتی ہے جس کو شاعر ’’ظاہر‘‘ میں ’’تجربہ‘‘ بناکر پیش کرتا ہے ۔ اس ’’تجربہ‘‘ کی ترسیل کے دوران اس پر ایک شخصیت طاری ہوتی ہے جو الفاظ و اصوات کا لبادہ پہن کر معنی آفرینی کا ایک عالم وجود میں لاتی ہے جس سے قاری کو ’’عیر محسوس‘‘ شئے ’’محسوس‘‘ اور ’’محسوس شئے‘‘ منور لگتی ہے اس لئے میں شاعری کو ایک ’’دانش نورانی‘‘ بھی کہنا چاہوں گا ۔ ہر شاعر کا ایک نظریہ شعر ہوتا ہے جو اس کی تمام شاعری پر حاوی ہوتا ہے ۔ حافظ ، جامی اور خسرو کے ہاں ’’عشق‘‘ فوقیت رکھتا ہے۔ میر کے ہاں بھی عشق کی پرچھائیاں ملتی ہیں لیکن غالب کی طرح کا اغراق نہیں پایا جاتا۔ داغ کے ہاں ’’ شوخی ، کا عنصر بالادستی رکھتا ہے۔ علامہ اقبال کے ہاں عشق اپنی انتہا کا طلبگار ہے ۔ وہ تو معشوق کا سامنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک اقبال کے نظریہ شعر کا تعلق ہے وہ خود کہتے ہیں ۔
نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں
کوئی دلکش صدا ہو ، عجمی ہو کہ یا تازی
گویا ’’زبان و بیان ‘‘ جب شعری سانچوں میں ڈھلتے ہیں۔ شاعر خصوصاً عصری حسیت کے حامل شاعر پر ایک کیف و سرور کا عالم حاوی ہوجاتا ہے اور قدر و اقدار سے بے نیاز ہوکر دلکش و دلنواز حروف و اصوات کی ترتیب و تہذیب سے ’’شعری تلفیظ ‘‘ تخلیق کرتا ہے ، یہ اصوات کا مجموعہ ہی بقول غالب ’’گنجینہ معنی کا طلسم ‘‘ ہوتا ہے جس کی سحر آفرینی میں کہاں لسانیاتی سانچے اور کہاں بیانیہ انداز کے خصائص ۔ کیسی صنف شاعری اور ہئیت شعری ، بس ایک معنیات کی کائنات ہوتی ہے جو تخلیق کے مرحلہ طئے کرتی ہے ۔ اس جہاں معنی کیلئے شعری پیمانے اور اوزان اصنافی لگتے ہیں۔ بے خودی ، خود رفتگی ، سحر زدہ کیفیت ، خرد سے بہت آگے وجدان اور ماورئیت سے متعارف ہونا پڑتا ہے جس کے تئیں یہ معلوم کرنا پڑتا ہے کہ یہ کیسی صدائے پرسوز ، نشاط انگیز ہے کہ خودی فنا ہورہی ہے ۔ جان کے ٹکڑے ٹکڑے ہورہے ہیں اور عقل گم ہوئی جاتی ہے اور جنوں سا یہ فگن ہوجاتا ہے ؎
یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز
’’اندیشہ دانا ‘‘ کو کرتا ہے جنوں آمیز
علامہ اقبال کا شعری نظریہ فکری ماورائیت کے پیام کا مظہر ہے ۔ وہ غیر معمولی تنقیدی شعور سے متصف تھے ۔ ان کے ہاں شعر کی مقصدیت کو اولیت حاصل تھی ۔ اقبال کے ہاں شاعری برائے شاعری نہیں تھی بلکہ وہ ’’شاعری برائے زندگی‘‘ کے قائل تھے بلکہ اس کے راز ہائے درون خانہ کے پردے بھی اٹھا دیتے تھے ۔ گویا وہ ’’ادب برائے زندگی ‘‘ کے بڑے موئید اور متحرک ہی نہیں جہد کار تھے ۔ ان کی تمام شاعری کو اجتہادی شاعری کہا جاسکتا ہے ۔ ’’ثبات و سکون ‘‘ ان کے ہاں مفقود تھا ۔ ’’حرکت اور جہد کاری ‘‘ ان کا مقصد اعلیٰ تھا۔ چنانچہ اپنی کتاب ’’تجدید فکریات اسلام‘‘ میں وہ یوں رقم طراز ہیں۔
’’میری حیات باطنی میں سکوت نام کی کوئی چیز نہیں سب کچھ حرکت پیہم ہے۔ حالتوں کا ایک منقطع نہ ہونے والا بہاؤ ایک ایسا دائمی دھارا جس میں قیام و قرار کی نام کی کوئی چیز نہیں۔ تاہم زمان کے بغیر مسلسل کا تصور نہیں۔ ہمارے باطنی تجربے کی ماہیت کے بارے میں گہرے علم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نفس انسانی اپنی حیات باطنی میں مرکز سے خارج کی طرف حرکت زن ہوتا ہے ۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے اس کے دو رخ ہیں جو ’’بصیر‘‘ اور ’’فعال ‘‘ کے طور پر بیان کئے جاسکتے ہیں‘‘۔ اپنے نظریہ شعر کے مطابق وہ فطرت شاعر میں ’’جستجو‘’ اور ’’تلاشِ امکانات‘‘ کو دیکھنا چاہتے ہیں ؎
فطرت شاعر سراپا جستجو است
خالق و پروردگار آرزو است
اور اگر اس طرح کا شاعر ملت کو میسر نہ ہو تو اس کو ایک مٹی کا ڈھیر تصور کرتے ہیں۔
شاید اندر سینۂ ملت چوں دل
ملت بے شاعرے انبار گل
وہ شاعری کیلئے ’’سوز و مستی ‘‘ کو ایک لازمی عنصر مانتے ہیں کہ اس کے بغیر شاعری کا ماتم ہی کرنا پڑتا ہے ۔
سوز و مستی نقش بند عالمے است
شاعری بے سوز و مستی ماتمے است
’’انسانیت‘‘ کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر شعر کا مقصد ادم گری بھی ہو تو وہ شاعری گویا پیغمبری کی وراثت کی حقدار ہوگی ورنہ شاعر کو وارث پیغمبری قرار نہیں دیا جاسکتا ؎
شعر را مقصود اگر ، آدم گری است
شاعری ہم وارث پیغمبری است
اس بات کو دوسری جگہ ’’اصل تہذیب احترام آدم است‘‘ یعنی اصل تہذیب آدمیت کا یا انسانیت کا احترام، کیا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے کلام میں ہمیں کئی جگہ جلال و جمال کی آمیزش نظر آتی ہے جو ایک حرکیاتی پیام کے تحت ہمیشہ نئے امکانات اور اجتہادی تجربات کی دعوت دیتی ہے۔