علامہ اقبال اور ٹیپو سلطان

سید یعقوب شمیم
علامہ اقبال ساری دنیا میں ایک عظیم شاعر اور فلسفی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں وہ اپنی فکر کے اعتبار سے ایک عہد ساز شاعر اور مفکر تھے جن کی شاعری اور شخصیت کو جغرافیائی حدود میں محدود نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ تمام عالم انسانیت کے شاعر ، ہمدرد اور بہی خواہ تھے ، لیکن یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ آج سے تقریباً ساٹھ ستر سال پہلے بعض سیاسی اغراض و مقاصد کے تحت جہاں ہمارے ایک پڑوسی ملک نے اقبال کو اپنے ایک قومی ہیرو کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ،وہیں اس کے ردعمل کے طور پر ہمارے ملک میں بھی اقبال کے ساتھ ایک طرح کی بے اعتنائی برتی جانے لگی ،جس کا اصل سبب وہ غلط فہمیاں تھیں جو اقبال کے بارے میں پیدا کی گئیں، لیکن اگر چشم حقیقت نگاہ سے ان کی شخصیت اور شاعری کو ان نظموں اور نثر کے پس منظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جو غیر صحت مند نظریات ان سے وابستہ کردیئے گئے وہ محض غلط فہمیوں پر مبنی تھے اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک ایسے عظیم شاعر اور عہد آفریں مفکر تھے جن کی عزت و عظمت اور شہرت نہ صرف برصغیر ہند و پاک تک محدود ہے بلکہ وہ تمام نوع انسانی کے شاعر کی حیثیت سے جانے گئے اور ان کی شاعری سارے عالم انسانی کی میراث ہے ۔ کیوں کہ اقبال نے اپنی شاعری سے ہر دور میں انسانی اخوت پر مبنی جو پیام دیا ہے اس کی عظمت اور اہمیت ہر دور میں باقی اور برقرار رہے گی ۔
اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ اس ذیلی براعظم ہند میں بسنے والے مختلف طبقات کے درمیان یکجہتی ، اتحاد اور اخوت انسانی کے جذبات پیدا کرنے کی جو مثبت کوشش کی ہے اس سلسلہ میں والی میسور ٹیپو سلطان کی شخصیت کی باز آفرینی بطور خاص قابل ذکر ہے ۔ جنوبی ہند کے اس عظیم سپاہی اور فرمانروا نے ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو انگریزی سامراج سے نجات دلانے کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی تھی ۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اس ملک کی چھوٹی موٹی ریاستوں کے حکمران اور مملکت ہند کے بعض پراگندہ عناصر انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو دیکھ کر ان سے ساز باز کرنے کی سازشوں میں لگے تھے ، ایسے میں ٹیپو سلطان نے اپنی پوری قوت و طاقت سے انگریزوں کا مقابلہ کیا ۔ طویل سیاسی اور فوجی کشمکش کے بعد بالآخر جب فیصلہ کن لمحات سر پر آن پہونچے اور ٹیپو سلطان کے محل کا محاصرہ کرلیا گیا تو اس وقت بھی ہندوستان کے اس حریت پسند فرمانروا ٹیپو سلطان نے انگریزی سامراج سے کسی وقتی مصالحت کو گوارا نہیں کیا اور غلامی کی زندگی کے مقابلے میں ایک آزاد سپاہی کی حیثیت سے لڑتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے حوالے کردی ۔
اگرچہ ہندوستان کی تاریخ میں خواہ وہ انگریزوں کی لکھی ہوئی ہو یا ہندوستانی مورخین کی اس واقعہ کا صحیح ریکارڈ موجود ہے ، لیکن اس کے باوجود ٹیپو سلطان اس کارنامے کو آزادی ہند کی تاریخ میں جو مقام حاصل ہونا چاہئے تھا ، اس کا تعین نہیں کیا جاسکا ۔ اقبال نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ٹیپو سلطان کی سرفروشانہ جد وجہد کو اپنے فلسفیانہ افکار کے پس منظر میں نکھار کر پیش کیا ہے ۔ وہ ٹیپو سلطان کی زبان کھلواتے ہیں ۔ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے ۔ اپنے کلام جاوید نامہ میں اقبال نے ٹیپو سلطان کو بحیثیت ایک جانباز سپاہی یاد کرتے ہوئے ان کا شمار تاریخ عالم کی عظیم ہستیوں میں کیا ہے ان کے یہ اشعار اقبال اور ٹیپو سلطان کے مطالمہ کی صورت میں پیش کئے گئے ہیں ۔
جب ٹیپو سلطان اقبال سے ہندوستان کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اس ملک ہندوستان کا کیا حال ہے جس کے غم میں ہمارا دل خون کے آنسو رلارہا ہے اور جس کی یاد وںکو ہم اپنے سینے سے لگا بیٹھے ہیں جو خاک وطن کے ذرہ ذرہ سے ہماری محبت کو ظاہر کرتا ہے تو اس کے جواب میں اقبال کہتے ہیں کہ ہندوستانی اب انگریزی سامراج سے بیزار ہوچکے ہیں اور فرنگیوں کی حکمت عملی کا فسوں ٹوٹ چکا ہے ۔ پھر ٹیپو سلطان بڑے ہی دردمند دل کے ساتھ اپنے وطن عزیز کی غلامی پر غم اور غصہ کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس غلامی کا اصل سبب یہ ہے کہ اس سرزمین کے سپوت جوہر اصلی سے عاری ہوئے جارہے ہیں اور ان میں کچھ ایسے کپوت پیدا ہوگئے ہیں جو وطن سے غداری کرکے دنیاوی مراتب میں اضافہ کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن خطہ دکن کے بارے میں کچھ اس طرح سوال کرتے ہیں ۔
زائر شہر و دیارم بودہ
چشم خود را بر مزارم سودہ
اے شناسائے حدود کائنات
در دکن دیدی ز آثار حیات
ترجمہ : میرے شہر اور وطن کی تو نے زیارت کی اور میرے مزار کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اسی لئے ان کی شناسائے حدود کائنات (یعنی اقبال) مجھ کو بتا کہ تو نے سرزمین دکن میں زندگی کے کوئی آثار بھی دیکھے ہیں ، یعنی وہاں کے لوگ اب بھی ایک زندہ قوم کی طرح رہتے ہیں یا نہیں تو اس کے جواب میں اقبال کہتے ہیں۔
تخم اشک ریختم اندر دکن
لالہ ہا روید ز خاک آں چمن
رودِ کاویری مدام اندر سفر
دیدہ ام در جان او شورِ دگر
ترجمہ : میں نے دکن کی سرزمین میں اپنے اشکوں کے بیج بوئے ہیں جس کے نتیجہ میں وہاں سامراج کے خلاف غم و غصہ کی آگ لالہ کی طرح اگ آئی ہے ۔ میں نے دریائے کاویری کو بھی مدام مصروف سفر دیکھا ہے اور اس مسلسل بہنے والے دریا کا جو شور سنا ہے اس میں اس کے تیور بدلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں پھر قوم کی غلامی کے خلاف کاویری بھی اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہی ہے ۔ پھر ٹیپو سلطان ، اقبال سے یہ خواہش کرتے ہیں کہ وہ ان کا چھوٹا سا پیام دریائے کاویری تک پہنچادیں ، اس لئے کہ ان کے نزدیک ایک ایسا شاعر ہے جس کا کلام سوز و گداز سے پُر ہے ۔ کاویری کی طرح ایک زندہ رود کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اگر وہ یہ پیام کاویری تک پہنچادے گا تو نغمہ ، نغمہ میں شامل ہوجائے گا ۔ سلطان کاویری کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
اے مرا خوشتر ز جیحون و فرات
اے دکن را آب تو آب حیات
ترجمہ : اے کاویری تجھ پر جیحون و فرات جیسے بڑے بڑے دریا بھی قربان ، کیوں کہ دکن والوں کے لئے تیرا پانی آب حیات کے مماثل ہے کیونکہ وہ اپنی غلامی میں بھی پامردی اور حوصلہ کے ساتھ جینے کا پیام دیتا ہے ۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ مکالمات کی شکل میں اپنے اسی مختصر سے پیام میں اقبال نے حیات و موت اور شہادت جیسے موضوعات کو پیش کرکے گویا دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے ۔ اس طرح انھوں نے اپنے کلام کے ذریعہ ٹیپو سلطان کی عظیم المرتبت سیرت و شخصیت کی گویا بار آفرینی کی ہے اور آزادی ہند کی جد و جہد کے سلسلے میں ذیلی براعظم ہند کے اس سرفروش سپاہی کو ایک مثالی فرزند کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے انھیں اپنا خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔
آزاد ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل اور جنوبی ہند کے ایک روشن خیال مدبر کی حیثیت سے ڈاکٹر راج گوپال چاری نے ٹیپو سلطان کو اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’افسوس اہل ہند نے آزادی ہند کے اس جانباز سپاہی کو فراموش کرکے اس کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے‘‘ ۔ عدم رواداری مذہبی منافرت اور سیاسی گٹھ جوڑ کے جس ماحول سے آج ہندوستان گزر رہا ہے اس کے پس منظر میں ٹیپو سلطان کے توسط سے برسوں پہلے دیا گیا اقبال کا یہ پیام آج بھی ہمارے نزدیک پیام درس عبرت و بصیرت کی حیثیت رکھتا ہے۔
تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را