علامہ اسرار جامعیؔ

ماں…!
ماں کے قدموں میں ہوا کرتی ہے جنت جامعیؔ
بعد شادی کیوں تری بیوی ہی تجھ کو بھاگئی
سُن کے میں نے یہ کہا کہ بعد شادی کے مرے
اب میری بیگم کے قدموں میں وہ جنت آگئی
……………………………
فرید سحرؔ
زلزلوں کو کیوں بلاتے ہو میاں؟
خون ناحق کیوں بہاتے ہو میاں
کیوں یہاں مقتل سجاتے ہو میاں
فعلِ بد تو کرتے ہیں نادان کچھ
تم سزا ہم کو سناتے ہو میاں
ہم ہیں اس دھرتی کے ماتھے کا تلک
تم تِلک کو کیوں مٹاتے ہو میاں
شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں ہم
فاصلے تم کیوں بڑھاتے ہو میاں
قتل معصوموں کا کرکے اب یہاں
زلزلوں کو کیوں بلاتے ہو میاں
ہم اگر خوش ہیں چمن میں ہے خوشی
پھر بھی تم ہم کو رلاتے ہو میاں
پہلے سترہ پر کرو تم کیس بک
قاتلوں کو کیوں بچاتے ہو میاں
بعد مدت کے کہیں بنتا ہے گھر
اس کو تم منٹوں میں ڈھاتے ہو میاں
ہم محبت کے دِوانے ہیں سحرؔ
تم ہمیں نفرت سکھاتے ہو میاں
………………………
دور اندیشی
٭ بوڑھے اندھے فقیر کی لاٹھی ٹوٹ گئی نوجوان بیٹا فوری دوڑتا ہوا جاکر دوسری لاٹھی خرید لایا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے باپ کی یک دن کی بھی آمدنی متاثر ہو ۔
٭ سردی کے موقع پر آدھی رات کو اُٹھ کر بیوی نے شوہر کو پانی گرم کرکے دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ٹھنڈے پانی سے برتن دھوکر شوہر بیمار پڑجائے اور اُسے برتن دھونا پڑے …!
٭ شادی کے منڈپ میں دُلھا اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ ایک بڑی لاری چلاتے ہوئے پہنچا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے سسرال والوں کو جہیز چڑھانے اور بھجوانے میں تکلیف ہو ۔
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
کیا ہوا ؟
٭ ایک ڈاکٹر صاحب کی شادی ایک نرس سے ہوئی تھی ۔ ایک دن اُن کے ایک قریبی دوست نے پوچھا : ’’کیسے ہو ڈاکٹر صاحب ! تمہاری شادی شدہ زندگی تو مزے سے گذر رہی ہے نا ؟ ‘‘
ڈاکٹر صاحب ناراض ہوکر بولے ’’کیا خاک مزے سے گذر رہی ہے !‘‘
دوست حیران ہوکر : ’’کیوں ، کیا ہوا ؟ ‘‘
ڈاکٹر صاحب بولے : جب تک میں سسٹر ، سسٹر کہہ کر نہ پکاروں کچھ سنتی ہے نہ کچھ کام کرتی ہے …!!
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
………………………
بقیہ باتیں…!
٭ دو خواتین کسی جرم کے تحت عمر قید میں ایک ہی کوٹھری میں بند تھیں۔ 14 سال کے بعد ایک ساتھ رہا ہوئیں …
جیل کے باہر ایک نے دوسرے سے کہا :
اچھا بہن بقیہ باتیں فون پہ کرلیں گے…!
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
وہ دن چلے گئے …!
٭ دو دوست کسی تقریب میں کھانے کے ٹیبل پر ملے ۔ ایک نے خاطرداری کرتے ہوئے چکن کا لیگ پیس دوست کی پلیٹ میں ڈالا …!
دوسرے نے سخت لہجے میں کہا یہ کیا کررہے ہو یار …؟
پہلے والے نے جواب دیا کھاؤ میاں کھاؤ بلاوجہ پوزاں مت مارو !
دوسرے نے جواب دیا : ’’میں پوزاں نہیں مار رہا ہوں پر تم مجھے مارنے پے تُلے ہو ایسا لگ رہا ہے ۔
پہلے والے نے کہا: چکن کھا کھا کر تو اب تک زندہ ہے اور باتاں کررہے ہو ؟
دوسرے نے جواب دیا ’’اخبار پڑھنا ، نیوز دیکھنا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے کیا آج کل ؟ بابا ! وہ دن چلے گئے جب اپن چکن کھاتے تھے ، اب چکن اپنے کو کھاجارا …!!
دستگیر نواز ۔ حیدرآباد
………………………