علاتی بہن کی لڑکی سے نکاح

سوال : زید کی دو بیویاں ہیں، ایک رشیدہ ، دوسری فریدہ۔ زید کو رشیدہ کے بطن سے ایک لڑکی مسماۃ خالدہ ہے اور دوسری بیوی فریدہ کے بطن سے ایک لڑکا خسرو ہے ۔ اب خالدہ کی لڑکی نفیسہ کے ساتھ خسرو کا نکاح کرنے کا ارادہ ہے۔ شرعی لحاظ سے خسرو کا نکاح نفیسہ سے جائز ہے یا نہیں ؟
نام …
جواب : خالدہ ، خسرو کی علاتی بہن ہے اور علاتی بہن کی لڑکی بھی شرعاً حرام ہے ، وہ درحقیقت بھانجی ہی ہے اور حقیقی علاتی اور اخیافی بھانجی سے نکاح شرعاً جائز نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 273 باب المحرمات میں ہے : و کذا بنات الاخ والاخت وان سفلن ۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ رد المحتار جلد دوم باب المحرمات میں ہے : حرام اصلہ و فرعہ، و بنت أخیہ و اختہ و بنتھا ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں خسرو کا نکاح اپنی علاتی بہن خالدہ کی دختر نفیسہ کے ساتھ شرعاً جائز نہیں۔

قربانی کی قضاء
سوال : گزشتہ سال عیدالاضحی سے دو دن قبل ہمارے والد کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی اور آٹھ دن دواخانہ میں شریک رہے، پریشانی کی وجہ سے گزشتہ سال ہم قربانی نہیں دے سکے۔ اب عیدالاضحی آرہی ہے ، ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ گزشتہ سال کی جو قربانی نہیں دی گئی اس کے لئے کیا احکام ہیں ؟ کیا اس سال بقرعید میں دو قربانیاں کرنا ہوگا ؟
محمد عبدالرب، مصری گنج
جواب : قربانی کیلئے ماہ ذوالحجہ کے تین دن (10 ، 11 ، 12 ) تاریخیں مخصوص ہیں۔ یعنی قربانی کا وقت دسویں ذی الحجۃ (نماز و خطبہ عید کے بعد سے) بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب سے کچھ پہلے تک ہے۔ اگر ان تاریخوں میں کسی وجہ سے قربانی نہ کی جاسکے تو قربانی کا جانور خیرات کردیں اور اگر جانور نہ خریدا ہو تو اس کی قیمت خیرات کردیں۔ فتح القدیر جلد 8 ص : 436 میں ہے : و قضاء ھا بعد مضی و قتھا بالتصدق بعینھا أو بقیمتھا۔
پس چونکہ آپ نے قربانی کا جانور نہیں خریدا تھا تو جن جن پر قربانی کا وجوب تھا وہ اپنی طرف سے قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ و خیرات کردیں۔ جانور دینا یا اس کی قیمت دینا درحقیقت صدقہ واجبہ ہے اور صدقہ واجبہ کے مستحق زکوٰۃ کے مستحق کی طرح فقراء و مساکین ہیں۔ قضاء قربانی کے جانور کا گوشت خود استعمال نہیں کرسکتے اور غیر مستحق زکوٰۃ کو بھی نہیں دے سکتے۔

وداعی سے قبل عاقدہ کا فوت ہوجانا
سوال : لڑکی امریکہ میں مقیم تھی اور لڑکا ہندوستان میں ، دونوں کا نکاح وکالت کے ذریعہ ہندوستان میں ہوا، ایجاب و قبول قاضی صاحب کے توسط سے انجام پائے۔ سیاہیہ جات جاری ہوگئے اور اس کے مطابق لڑکے کو امریکہ بھجانے کی کارروائی شروع ہوگئی ۔ اس اثناء میں لڑکی کو جان لیوا بیماری کی شکایت ہوئی اور ایک ماہ کے اندر ہی فوت ہوگئی ۔ بوقت نکاح مہر دو لاکھ ہندوستانی روپئے مقرر کیا گیا تھا ۔ اب چونکہ لڑکی فوت ہوچکی ہے تو کیا لڑکے پر مہر کا وجوب رہے گا یا نہیں ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چونکہ وداعی نہیں ہوئی تھی اس لئے مہر لازم نہیں آئے گا۔ شرعاً اس بارے میں کیا احکام ہیں۔ مخفی مبادکہ مرحومہ لڑکی کو والدین کے علاوہ ایک بھائی دو بہنیں ہیں۔ لڑکی کی ملکیت میں زیورات و ملبوسات کے علاوہ کچھ رقم ہے ۔ ایسی صورت میں مرحومہ کے مہر اور متروکہ کا کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب : دریافت شدہ مسئلہ میں عاقدہ اگرچہ وداعی سے قبل فوت ہوئی ہے مگر لڑکی کا کامل مہر (دو لاکھ ہندوستانی روپئے) شوہر کے ذمہ واجب الادا ہے کیونکہ شریعت مطھرہ میں نکاح منعقد ہوجانے کے بعد میاں بیوی میں سے کسی ایک کے فوت ہوجانے سے مہر کا مل واجب ہوجاتا ہے ۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد 2 ص : 339 ہے : باب المھر میں ہے : ویتأکد (عند وطئی و خلوۃ صحت) من الزوج (او موت أحد)
شوہر کے ذمہ واجب الادا مہر مرحومہ کے متروکہ میں شامل ہوگا ۔ نیز مرحومہ کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں رہا بشمول زر مہر مرحومہ کا متروکہ ہے۔
پس تمام متروکۂ مرحومہ سے بعد ادائی قرض و اجرائی وصیت برائے غیر وارث درثلث مابقی جملہ چھ حصے کر کے مرحومہ کے شوہر کو تین والد کو دو ، والدہ کو ایک حصہ دیا جائے۔ مرحومہ کے بھائی اور بہنوں کو متروکۂ مرحومہ سے وراثتاً کچھ نہیں ملتا۔ مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے مصارف شوہر کے ذمہ ہیں۔

کاروبار کو وسعت دینے کیلئے سودی قرض لینا
سوال : ایک شخص کپڑوں کی تجارت کرتا ہے اور اس کو آمدنی اس قدر ہورہی ہے کہ اس کے ضروریات کی تکمیل بمشکل صحیح ہوجارہی ہے ، وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کیلئے کوشاں ہے۔ سرمایہ کی ضرورت ہے اور کوئی شخص قرضہ حسنہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ سودی قرض لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔
کیا شریعت مطھرہ میں ایسے شخص کو سودی قرض لینے کی شرعاً اجازت ہے یا نہیں ؟
ای میل
جواب : سود حرام ہے ، سودی قرض دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں۔ حدیث شریف میں سود کھانے والے ، کھلانے والے ، اس معاملہ کو لکھنے والے ، اور اسپر گواہی دینے والے اشخاص پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ عینی شرح بخاری جلد 5 ص : 436 کتاب ا لبیوع فصل موکل الربا میں ہے :
ان مؤکل الربا و آکلہ آثمان، فتاوی کمالیہ مصری صفحہ 282 کتاب الحظر و الاباحتہ میں ہے ۔ وقد ورد فی ذم آکل الربا من الاحادیث مالا یحصی فمنھا : لعن اللہ آکل الربا و مؤکلہ و کاتبہ و شاھدہ کلھم فی اللعنۃ سواء ۔
کاروبار کو وسعت دینے میں سرمایہ کی کمی سود کے لین دین کو اصلاً جائز نہیں کرتی ۔ البتہ جب کسی انسان پر فاقہ کشی سے ’’مخمصۃ‘‘ یعنی جان جانے کی حالت آجائے تب اس کے لئے جان بچنے کے موافق حرام چیز کا کھانا پینا شرعاً جائز ہے۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 5 ص 222 کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے : (الأکل) للغذاء والشرب للعطش ولو بحکم الحدیث و لکن (مقدار ، یدفع)الانسان (الھلاک عن نفسہ وما جور علیہ 1 ۔ جلد 5 ص : 337 کتاب الکراھیۃ الباب الحادی عشر میں ہے : اکل المیتۃ حالۃ المخمصۃ قدر ما یدفع الھلاک لابأس کذا فی السراجیۃ ص : 338 میں ہے : خاف الھلاک عطشا و عندہ خمر لہ شربہ قدرما یدفع العطش ان علم انہ یدفعہ کذا فی الوجیز للکردی

مسجد کے چندہ کیلئے جھوٹ کہنا
سوال : ایک گاؤں میں ایک مسلمان عورت اپنا (خریدا ہوا) مکان فروخت کرنا چاہتی ہے ۔ اس گاؤں کی مسجد کے ذمہ دار لوگ جیسے صدر ، معتمد وغیرہ سراسر جھوٹ بولتے ہوئے اور دیگر مسلمانوں کو غلط باور کراتے ہوئے اس معصوم مسلمان عورت سے مسجد / عیدگاہ کیلئے ہزاروں / لاکھوں روپیوں کے چندہ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انکار کرنے پر اس عورت کے مکان کو مسجد کی ملکیت کہتے ہوئے گرام پنچایت آفس میں درخواست بھی پیش کردیئے ہیں۔ چندہ دینے کیلئے مسجد کے ذمہ داروں کا اور کچھ مسلمانوں کا ایک معصوم مسلمان ضعیف عورت کو مجبور کرنا کیسا عمل ہے ۔ ان لوگوں کے عمل میں الف سے والسلام تک جھوٹ ، دروغ گوئی ، مفاد پرستی ، بے ایمانی اور بدنیتی کے سوائے کچھ نہیں ہے (اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) ۔ اس طرح مسجد / عیدگاہ کیلئے چندہ جمع کرنا یا زبردستی مطالبہ کرنا کیا جائز ہے ؟ شرعی احکام سے نوازیں۔
نام مخفی
جواب : مالکۂ مکان کو اپنی ملکیت میں ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار ہے ۔ ہدایہ جلد 3 ص : 36 کے حاشیہ میں ہے : لان المالک یتصرف فی ملکہ کیف شاء۔
بشرط صحت سوال ضعیف خاتون اگر واقعی مذکور السئوال مکان کی مالکہ ہیں تو اس مسجد کے ذمہ داروں کا محض چندہ کی وصولی کیلئے مکان فروخت کرنے میں رکاوٹ پیدا کرنا اور خطیر رقم مسجد کیلئے بطور چندہ دینے کا مطالبہ کرنا شرعاً ناجائز ظلم اور گناہ ہے ان کو آخرت میں گرفت سے خوف کرنا چاہئے اور اگر ملکیت میں اختلاف ہو اور مسجد کمیٹی کے پاس مسجد کی ملکیت کا ثبوت موجود ہو تو اس کے تصفیہ کی کوشش کرنا درست ہے ۔

بیوی کا نان نفقہ ادا نہ کرنا
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس شخص کے بارے میں جو کئی سالوں سے ا پنی بیوی کو میکہ بھجواکر نان نفقہ اور حق زوجیت سے محروم رکھا ہے ؟
اس شخص پر کیا خدا تعالیٰ کی وعید نہیں اور اس شخص کے تئیں معاشرے والوں کا سلوک کیسا ہونا چاہئے ؟
اسریٰ بیگم ، نامپلی
جواب : شرعاً شوہر پر اپنی بیوی کا نان نفقہ یعنی کھانے پینے کا انتظام ، رہائش کی فراہمی ، کپڑے کا فراہم کرنا اور دیگر حوائج کی تکمیل کرنا شرعاً لازم ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی کے نان نفقہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا غفلت برتے تو وہ شرعاً گنہگار ہے اور شوہر نے اپنی مرضی سے بیوی کو اس کے میکہ روانہ کیا ہے تو بھی اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر رہے گی اور اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کا گھر چھوڑ کر چلی جائے اور میکہ میں رہائش پذیر ہوجائے تو تاوقتیکہ وہ شوہر کے گھر واپس لوٹ نہ جائے اس کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں۔
اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوجائے اور سالہا سال سے کوئی موافقت نہ ہو تو دونوں خاندانوں کے ذمہ داروں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے پیشرفت کریں۔ تاکہ کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہوسکے اور اگر شوہر قصوروار ہو اور بیوی پر ظلم کرنے کیلئے نان نفقہ سے محروم رکھا ہے تو ایسی صورت میں قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔

تایا زاد بھائی کی لڑکی سے نکاح
سوال : کیا زید اپنی بیٹی کا نکاح اپنے چچیرے بھائی سے کرسکتا ہے ؟
نام ندارد
جواب : شریعت اسلامیہ میں حرمت والے رشتے یعنی جن سے نکاح درست نہیں ہے۔ تفصیل سے بتادئے گئے ہیں، قرآن پاک کے چوتھے پارے کی آخری آیت کریمہ اور پانچویں پارے کی پہلی آیت میں اللہ رب العزت نے تمام ابدی محرمات نکاح کا ذکر فرمایا اور اس کے بعد واحل لکم ماراٰء ذالکم کا عمومی حکم فرمایا کہ ان مذکورہ رشتوں کے علاوہ تمام عورتوں سے اللہ رب العزت نے بشرط ایمان نکاح کو جائز قرار دیا ہے اور چچا زاد بھائی بھی ماوراٰء ذلکم ہی میں ہے یعنی ان سے نکا ح درست ہے۔