عفو و درگزر یا انتقام

سوال :   ہمارے نبی کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے جانی دشمنوں کو بھی دل سے معاف کردیا کرتے اور طاقت و قوت کے باوجود انتقامی کارروائی نہیں فرماتے۔ لیکن مسلم معاشرہ میں آج انتقامی جذبات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ براہ کرم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ بیان کیجئے تاکہ مسلم معاشرہ میں اصلاح ہوسکے ؟
محمد ولی الدین، کاچیگوڑہ
جواب :   آپؐ جس طرح اپنوں کیلئے پیکر حلم و برد باری تھے‘ اسی طرح دشمنوں کے لئے سراپا جو دو کرم تھے۔ آپؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں کسی بھی ذاتی دشمن سے انتقام نہیں لیا (الترمذی: شمائل) ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ کا اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو معاف کردینا ‘ اپنے قتل کے لئے آنے والے قاتلوں کو بار بار چھوڑ دینا ‘ اس سلسلے کی روشن مثالیں ہیں ۔
مدینہ منورہ میں کافی تعداد منافقوں کی بھی تھی‘ جن کے رئیس عبداللہ ابن ابی بن ابی سلول نے نہ صرف ہمیشہ در پردہ دشمنوں کی حمایت کا جرم کیا تھا ‘ بلکہ مختلف اوقات میں وہ آپؐ کے خلاف بغاوت ‘ جھوٹی الزام تراشی ‘ پروپگنڈہ اور صحابہ کرامؓ کے مابین منافرت پیدا کرنے وغیرہ کے جرائم میں براہ راست ملوث بھی رہا ‘ مگر آپؐ نے نہ صرف اسے معاف کیا ‘ بلکہ مرنے کے بعدا سے اپنی قمیض پہنائی اور ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے کا وعدہ فرمایا (البخاری ‘ 343:1 ‘ کتاب الجنائز) ۔ متعدد مرتبہ صحابہؓ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی‘ مگر آپؐ نے سختی سے منع کردیا ( الترمذی‘ تفسیر المنافقون ‘ 418-415:5 ۔ حدیث 3312 تا 3315 )
ایک بدوی نے ایک مرتبہ مسجد نبوی میں پیشاب کردیا ۔ صحابہؓ اسے مارنے کے لئے دوڑے ‘ مگر آپؐ نے روکا اور اسے اپنی حاجت سے فارغ ہونے دیا۔ پھر آپؐ نے اس جگہ کو دھونے کا حکم دیا اور اسے نرمی سے سمجھا دیا(ابوداؤد ‘ 263:4 ‘ حدیث 380 ‘ الترمذی ‘ 176:1 ‘ مسلم ‘ 236:4 )۔ آپؐ کے خدام سے اکثر غلطیاں ہوجاتیں مگر آپؐ انہیں معاف فرمادیتے (مسلم ‘ 1804:4 ‘ حدیث 2310 ) ۔ اس سلسلے میں بے شمار واقعات مروی ہیں۔ جو ہمیں رہنمائی کرتے ہیں کہ ہم ہبہ حلم و بردباری‘عفو و درگزر کو اختیار کریں کیونکہ اللہ کی مدد اسی میں ہے۔

چڑھاوے اور جوڑے کی رقم
سوال :   اگر بیوی خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کو قبول کرلے تو بیوی زر مہر کے علاوہ سامان جہیز وغیرہ میں سے کیا پانے کی مستحق ہے ؟ اور اگر شوہر طلاق دے تو سامان جہیز ‘ چڑھاوے اور جوڑے کی رقم سے متعلق شرعاً کیا  حکم ہوگا ؟
محمدعبدالواجد خان، مراد نگر
جواب :  زوجین میں نااتفاقی ہوجائے اور شریعت کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا دشوار ہو تو بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر خلع کی درخواست کرے ۔شوہر خلع قبول کرلے تو بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور معاوضہ کی ادائی بیوی پر لازم ہوگی ۔اگر درخواست خلع میں معاوضہ کا ذکر نہ ہو تو زر مہر شوہر کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا ۔ فتوی عالمگیری جلد اول باب الخلع ص : 488  میں ہے ۔ اذاتشاق الزوجان و خافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا بأس بأن تفتدی نفسھامنہ بمال یخلعھا بہ فاذا افعلا ذلک وقعت تطلیقۃ بائنۃ و لزمھا المال کذا فی الھدایۃ اور شرح وقایہ کتاب الطلاق باب الخلع میں ہے والمھر یسقط من غیر ذکرہ۔
بعد صحبت اگر شوہر طلاق دے تو شوہر پر کامل مہر کی ادائی واجب ہے ۔ والمھر یتاکد بأحد معان ثلاثۃ الدخول والخلوۃ الصحیحۃ و موت أحد الزوجین سواء کان مسمی أو مھر المثل حتی لا یسقط منہ شئی بعد ذلک الا بالابراء من صاحب الحق کذا فی البدائع۔ عالمگیری جلد اول ص : 303 ۔
بیوی کا سامان جہیز‘ بیوی کی ملک ہے اور بوقت عقد لڑکے والے جو کچھ زیورات وغیرہ بطور چڑھاوا اس کو دیئے تھے وہ بھی بیوی کی ملک ہوچکے ۔ اسی طرح لڑکی والوں نے جوڑے کی جو رقم دی تھی وہ لڑکے کی ملک ہوچکی‘ اب ایک دوسرے کو واپس لینے کا حق نہیں۔ و ھذا یوجد کثیراً بین الزوجین یبعث الیھا متاعا و تبعث لہ ایضا و ھو فی الحقیقۃ ھبۃ ۔ فتاوی شامی ‘ اور ہدایہ کے کتاب الہبہ میں ہے ۔ وان وھب لذی  رحم محرم منہ لایرجع فیھا و کذلک ما وھب احد الزوجین للآخر۔

یہودیوں پر ذلت و مسکنت کی پیشن گوئی
سوال :  قرآن مجید میں اللہ تعالیـ نے متعدد مقامات میں صراحت کی ہے کہ اللہ تعالیـ نے ان پر ذلت کو قیامت تک کیلئے طاری کردیا ہے۔ قرآن مجید میں یہودیوں پر جو ذلت کا ذکر کیا گیا ہے ، اس سے کیا مراد ہے۔ وضاحت فرمائیں تو عین نوازش ؟
عبدالقدوس،کریم نگر
جواب :  قرآن کریم میں یہودیوں کو پیغمبروں کی اولاد ‘ انبیاء علیہم السلام کی کتابوں اور ان کی تعلیمات کے حامل اور عربوں میں واحد پڑھی لکھی قوم ہونے کی بناء پر خصوصی ادب و احترام دیا گیا اور انہیں ’’ یا بنی اسرائیل ‘‘ (اے اولاد یعقوب) کہہ کر مخاطب کیا گیا لیکن جب انہوں نے بلا جواز اسلام کی مخالفت شروع کردی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے لائے ہوئے بابرکت دین کو مٹانے کے لئے کمربستہ ہوگئے تو اللہ تعالی نے ان پر ذلت و مسکنت اتارے جانے کی پیشن گوئی کرتے ہوئے فرمایا : ضربت علیھم الذلۃ این ماثقفوا الا بحبل من اللہ و حبل من الناس و باء وا بغضب من اللہ (3 (آل عمران ) : 112 ) ‘ یعنی ’’ یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت (کو دیکھو گے کہ) ان سے چمٹ رہی ہے‘ سوائے اس کے کہ یہ اللہ تعالیـ اور لوگوںکی پناہ میں آجائیں اور یہ لوگ اللہ کے غضب میں گرفتار ہیں ‘‘ ۔ چنانچہ تاریخ کے طویل سفر میں ان پر دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں میں جو حالت گزری وہ قرآن کی صداقت کی روشن دلیل ہے ۔ اس وقت گو ان کے پاس اپنا ایک الگ ملک (اسرائیل) ہے‘ لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ ملک (اسرائیل) مکمل طور پر امریکہ ‘ برطانیہ اور فرانس وغیرہ مسیحی قوتوں کے رحم و کرم پر ہے  جو کہ قرآنی ’’ حبل من الناس‘‘ کا مصداق ہیں۔ ہاں البتہ اگر یہ لوگ اسلام قبو ل کرلیں توان کی عزت و حرمت بحال ہوسکتی ہے۔اوروہ حسب ارشاد الٰہی ضرور ذلت و خواری کا مزہ چکھیںگے۔

دینی معاملات میں میانہ روی
سوال :   شریعت مطھرہ میں عبادات کو کافی اہمیت ہے لیکن کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم کو ساری مصروفیات ترک کر کے صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر ہم ساری زندگی عبادت الہی میں ‘ سر بسجود رہیں تب بھی ہم اس کی عبادت کا حق ادا نہں کرسکتے۔ شادی بیاہ ‘ کاروبار کیا یہ اعمال دنیوی ہیں۔ سب چیزوں کو چھوڑ کر کیا ہمیں عبادت الہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجانا چاہئے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے رہنمائی فرمائیں ۔
محمد کاظم خان، فرسٹ لانسر
جواب :  نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود آپؐ کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ‘ مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ‘ 411:3 ‘ کتاب النکاح ‘ باب 41 ‘ مطبوعہ لائیڈن) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤد ‘ یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے‘ تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (کتاب مذکور ‘ 1 : 443 ‘ کتاب الصوم ‘ باب 56 ‘ 57 ) ۔ ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے عدم استطاعت نکاح کی وجہ سے اپنے آپ کو جسمانی طور پر ازدوای زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ( کتاب مذکور ‘ 3 : 413 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا‘ بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ‘ دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل : مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پائیدار مذہب(اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رہکر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اگر آپؐ کا کام رہبانیت یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔

دعاء میں صیغہ کی تبدیلی
سوال :   ہمارے محلہ کی مسجد کے امام صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے ہیں۔ رہا سوال یہ کہ قرآن پاک میں لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ لکھا ہے۔ لیکن ہمارے مسجد کے امام صاحب نماز کے بعد دعا کرتے وقت لا الہ الا انت سبحنک انا کنا من الظلمین پڑھتے ہیں۔ ان دونوں دعاؤں میں کونسی دعا پڑھنا درست ہے۔ براہ کرم ہمیں شرعی طور پر اس مسئلہ کا درست حل دیجئے مہربانی ہوگی ؟
نام ندارد
جواب :  ’’ انی کنت من الظلمین ‘‘ میں ’’ انی کنت ‘‘ واحد متکلم کا صیغہ ہے جس کے معنی میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں اور ’’ انا کنا ‘‘ کے ساتھ پڑھیں تو اس وقت معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ امام صاحب دعاء میں ’’ انا کنا ‘‘ پڑھتے ہیں تو مصلیوں کو اس میں شامل کرتے ہوئے جمع کا صیغہ پڑھتے ہیں جو کہ درست ہے اور اگر قرآن میں جو الفاظ واحد متکلم کے ساتھ آئے ہیں اس سے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ جب قرآنی آیت میں واحد متکلم کے صیغہ کو جمع کے ساتھ بطور دعاء پڑھتے ہیں اور مصلیوں کو شک و شبہ پیدا ہورہا ہے تو بہتر یہی ہے کہ قرآنی آیت کو بلفظہ پڑھا جائے۔

کیا بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حق ہے
سوال :   ایک مسئلہ دریافت طلب ہے کہ بیوی کو ان کے ماں باپ کی طرف جو مال و متاع حاصل ہوا۔ کیا اس پر اس کے شوہر کا حق پیدا ہوتا ہے یا نہیں ؟ جواب سے سرفراز فرمائیں تو عین نوازش ہوگی۔
محمداقبال علی، ملے پلی
جواب :   بیوی کو اس کے والدین کی جانب سے دیا گیا مال و متاع نیز موروثی جائیدادمیں بیوی کو ہر قسم کے تصرف کا کامل اختیار ہے کیونکہ وہی اس کی مالک و مختار ہے اس کی زندگی میں اس کے مال و متاع میں اس کے شوہر کا کوئی حق نہیں۔