عشرت جہاں کے خاندان کی حالتِ زار

ظفر آغا

عشرت جہاں ۔ یاد ہے یہ نام آپ کو ! بھلا کوئی بھی ذی شعور انسان اور بالخصوص ہندوستانی عشرت جہاں کو بھول سکتا ہے ۔ جی ہاں وہی نوجوان بیس بائیس برس کی لڑکی جو ممبئی سے گجرات احمدآباد گئی اور مار دی گئی ۔ اس کا گناہ کیا تھا ؟ مودی حکومت کے بقول وہ دہشت گرد تھی اور احمد آباد مودی کو مارنے گئی تھی ۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات کی چھان بین کرنے والی ایجنسی این آئی اے کے مطابق عشرت جہاں کا دہشت گردوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ وہ تو اپنی مجبور ماں اور بھائی بہنوں کی کفالت کے لئے نوکری کرتی تھی اور اس سلسلے میں احمد آباد گئی تھی۔ اس کا گناہ صرف اتنا تھا کہ وہ مسلمان تھی اور مودی کے گجرات میں ہر مسلمان کو دہشت گردی کے الزام کے سائے میں جینا پڑتا ہے ۔ یہ بات دیگر ہے کہ کچھ سماجی تنظیمیں خود مودی حکومت پر دہشت کے ذریعہ حکومت چلانے کا الزام لگاتی ہیں ۔

خیر عشرت جہاں کے واقعے سے شاید اب ہر کس و ناکس واقف ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ آج عشرت جہاں کا ذکر کیسے نکل آیا ۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل میرے پاس عشرت جہاں کی بہن مسرت کا فون آیا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے مجھ سے ایک ذاتی مجبوری کا ذکر کیا تھا اور میری مدد مانگی تھی جس کا مجھے عموماً ذکر نہیں کرنا چاہئے ۔ میں کئی دنوں تک یہ سوچتا رہا کہ اس بات کا ذکر اپنے کالم میں کروں یا نہیں ۔ پہلے سوچا کسی کی مجبوری کا ذکر کیا کرنا ۔ لیکن پھر خیال آیا کہ عشرت جہاں کا واقعہ کوئی ایک ذاتی واقعہ نہیں ہے وہ تو ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ خاص طور سے پوری ہندوستانی مسلم قوم جڑی ہوئی ہے ۔ کیونکہ اس ملک میں کچھ عرصہ سے ایک سازش چل رہی ہے کہ پوری مسلم قوم کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے ۔ عشرت جہاں اسی سازش کی ایک اہم کڑی تھی ۔ اس لئے عشرت جہاں اور اس کی بے رحم موت سے اس کے اہل خانہ پر جو بیت رہی ہے اس کا علم ملک اور ساری مسلم قوم کو ہونا چاہئے ۔ کیونکہ عشرت جہاں کے اہل خانہ پر اب جو کچھ بیت رہا ہے وہ پوری مسلم قوم کا مسئلہ ہے ۔ مسرت جہاں نے مجھ سے فون پر جوکہا پہلے وہ سن لیجئے ۔

مسرت نے مجھ سے فون پر کہا کہ میری چھوٹی بہن کی شادی ہونے والی ہے اور ممکن ہو تو کچھ مدد کردیجئے ۔ میں نے سوال کیا کہ تم تو اب گھر میں سب سے بڑی ہو تمہاری شادی پہلے کیوں نہیں ہورہی ہے ۔ چھوٹی بہن کی شادی پہلے کیوں ہورہی ہے ؟ تو مسرت پہلے خاموش رہی ، پھر بولی آپ تو جانتے ہیں کہ عشرت آپا کے بعد گھر کی ذمہ داری مجھ پر آگئی ہے ۔ اگر میری شادی ہوگئی تو گھر کیسے چلے گا ؟

اللہ کی پناہ ! عشرت کا قتل ہوئے سالوں بیت گئے ۔ ساری دنیا میں اس واقعہ کا شور مچ گیا ۔ پولیس ، عدالت سب کچھ ہوگیا ۔ مسلمانوں نے دنیا بھر میں عشرت جہاں کے نام پر نوحہ و ماتم کرلیا ۔ لیکن 15 ، 20 کروڑ تعداد والی ہندوستانی ملت اسلامیہ کو یہ خیال نہیں آیا کہ آخر عشرت جہاں کا گھر کیسے چلے گا ؟ راقم الحروف اس سے قبل بھی ایک بار عشرت کے گھر کے حالات لکھ چکا ہے ۔ دراصل عشرت سولہ سترہ برس کی ہی تھی کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا ۔ وہ گھر کی سب سے بڑی لڑکی تھی ۔ چنانچہ اس نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی ، وہ پڑھائی میں بہت تیز تھی ، اس لئے اس نے گھر پر بچوں کو ٹیوشن دے کر کچھ کمانا شروع کردیا ۔ پھر جس سال وہ ماری گئی اس سال اس نے بہت اچھے نمبروں سے بارہویں کلاس پاس کی اور خود کالج میں داخلے کے لئے فارم بھرا ۔ اس کا داخلہ ممبئی کے ایک کالج میں ہو بھی گیا ۔ لیکن عشرت کے پاس اپنی فیس بھرنے کیلئے رقم نہیں تھی اس لئے اس نے ایک سیلس گرل کا کام شروع کیا ۔ اس سلسلہ میں اس کی کمپنی اس کو ممبئی سے باہر اپنا پراڈکٹ پروموٹ کرنے کے لئے بھیجتی تھی ۔ احمدآباد میں جب عشرت کو دہشت گرد کہہ کر انکاؤنٹر کیا گیا تو اس وقت وہ اسی سلسلہ میں احمدآباد گئی ہوئی تھی ۔ خیر عشرت ماری گئی ۔ تمام سیکولر پارٹیوں اور مسلمانوں اور تمام سماجی تنظیموں نے عشرت کے مارے جانے کے خلاف شور مچایا ۔ اس سلسلے میں آج بھی چھان بین چل رہی ہے ۔ آئے دن آج بھی عشرت کے سلسلہ میں اخباروں میں خبریں چھپتی ہیں ۔ لیکن اس تمام شور کے درمیان پوری ’ملت اسلامیہ‘ یہ بھول گئی کہ یتیم عشرت جہاں کا ایک خاندان بھی ہے ۔ اس میں اس کی ماں ہے ، دو بہنیں اور ایک بھائی ہے ۔ عشرت کم عمری کے باوجود ان کا بار اٹھائے ہوئے تھی ۔ جب عشرت نہیں رہی تو اسکے اہل خانہ کی گذر بسر کیسے ہوگی۔ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو سنگھ پریوار کے خلاف شور مچانے کی تو عادت ہے لیکن ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر یہ نہیں دیکھتے کہ ہم خود اپنوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ۔ کیا 15 ، 20 کروڑ ہندوستانی مسلمان ایک عشرت جہاں کے خاندان کی کفالت نہیں کرسکتے ۔ کر تو خوب سکتے ہیں لیکن یہ خیال زندہ قوموں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے ، جب کسی قوم کی حس ہی مرجائے تو وہ قوم مصیبت کے وقت چیخ چلا تو لیتی ہے لیکن پھر سب کچھ بھول کر اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ عشرت کی موت کے برسوں بعد بھی اس کے اہل خانہ کا یہ حال ہے کہ اس کی بہن مسرت کو گھر میں شادی کے خرچ کے لئے مجھ کو فون کرنا پڑا۔

بیچاری مسرت ایک چھوٹی موٹی نوکری کرکے کسی طرح اپنے ماں ایک چھوٹی بہن اور بھائی کا خرچ تو چلا رہی ہے ۔ اب یہ کم عمر یتیم و غیر شادی شدہ بچی اپنی بہن کی شادی کا خرچ کہاں سے اور کیسے پورا کرے گی؟۔ ظاہر ہے کہ وہ پریشان ہے تب ہی تو اس نے مجھے فون کیا ۔ مجھ سے جو ممکن ہوگا کردوں گا لیکن ایک چھوٹا سا صحافی کیا کچھ کرپائے گا ۔ عشرت جہاں کے گھر کی پریشانی ایک مجھ جیسے سے تو دور ہوگی نہیں ۔ اس لئے اگر آپ کا ضمیر کچھ کہے تو اس سلسلے میں راقم کو zafaragha70@gmail.com پر رابطہ کیجئے تاکہ میں مسرت جہاں تک آپ کی پہونچ کروادوں ۔ شاید اس طرح عشرت جہاں کی روح کو کچھ تسکین ہو اور وہ سوچے کہ میری قوم زندہ ہے اور میری موت رائیگاں نہیں گئی ۔