عشرت جہاں خاندان کیلئے ہزاروں ہاتھ اُٹھ کھڑے ہوئے

ظفر آغا

روزنامہ سیاست کی عالمی مقبولیت کا اثر
کون کہتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بے حس ہوچکے ہیں، کوئی آواز دے کر تو دیکھے، ہر جانب سے لبیک کی صدا آئے گی۔ راقم نے پچھلے ہفتہ سیاست کے کالم میں عشرت جہاں کے اہل خاندان کے مصائب کا ذکر کیا تھا اور اس سلسلے میں یہ لکھا تھا کہ’’ آخر ہم مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہم عشرت جہاں کا رونا تو روتے ہیں، لیکن 15، 20 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے، جو عشرت جہاں کی ہلاکت کے بعد اُس کے اہل خاندان کی امداد کرسکے‘‘۔
مجھے یہ امید قطعی نہیں تھی کہ میرے ایک مضمون پر درجنوں افراد عشرت کے گھر والوں کی امداد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔

یقین کیجئے! ہندوستان اور بیرون ملک سے درجنوں ہندوستانیوں نے عشرت جہاں کے گھر والوں کی مدد کے لئے مجھ کو ای میل روانہ کیا اور ہر ایک نے میرے بینک اکاؤنٹ اور عشرت جہاں کی بہن مسرت جہاں کے بینک اکاؤنٹ کا نمبر دریافت کیا۔ میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ کسی کی مدد کی رقم میں اپنے اکاؤنٹ میں منگواؤں، لہذا میں نے فوراً مسرت جہاں سے فون پر بات چیت کی اور اس کا اکاؤنٹ نمبر دریافت کیا۔ لیکن میں نے جیسے ہی مسرت جہاں سے کہا کہ لوگ تمہارا اکاؤنٹ نمبر دریافت کر رہے ہیں، تاکہ وہ تمہارے کھاتے میں رقم روانہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ میں نے لوگوں کے ای میلس بھی روانہ کئے، لیکن میری اس اطلاع کے بعد مسرت جہاں کچھ پریشان سی ہو گئی۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ اگر لوگ ان حالات میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں تو کوئی بری بات نہیں ہے۔ تم نے خود تو کسی سے کچھ مانگا نہیں، بلکہ میرا مضمون پڑھ کر بہت سے افراد یہ کام کرنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ میرے یہ کہتے ہی مسرت جہاں رو پڑی اور کہنے لگی ’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، لیکن آپ ہماری مجبوری نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ہماری بہن (عشرت جہاں) دہشت گردی کے الزام میں ہلاک کی گئی ہے، لہذا ہم لوگوں کی ہروقت نگرانی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ہم لوگوں پر یہ الزام عائد کردے کہ ان لوگوں کے پاس عرب ممالک سے پیسے آتے ہیں تو اس وقت ہم کیا کریں گے؟‘‘۔

مسرت جہاں کے بتانے پر میں نے اس کی مجبوری سمجھ لی۔ چنانچہ میں نے اس سلسلے میں ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں سے مشورہ کیا۔ زاہد صاحب ہمیشہ ہر اچھے کام کے لئے بے خوف و خطر اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، لہذا اس کام کے لئے بھی انھوں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ پھر یہ طے پایا کہ جو شخص بھی عشرت جہاں کے اہل خاندان کی مدد کرنا چاہتا ہے، وہ ادارہ سیاست کے نام عشرت جہاں کے حوالے سے اپنا چیک بھیج دے، پھر مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد عشرت جہاں کے اہل خاندان کو حیدرآباد مدعو کرکے ایک چھوٹی سی تقریب میں لوگوں کے سامنے یہ ساری رقم ان کے حوالے کردی جائے گی۔ علاوہ ازیں اگر کوئی اپنا نام یا رقم کے بارے میں عشرت جہاں کے گھر والوں کو بتانا چاہتا ہو تو وہ میرے ای میل پر اطلاع دے سکتا ہے، جو عشرت جہاں کے اہل خاندان کو روانہ کردیا جائے گا۔ یہ طریقۂ کار میری نظر میں بہت ہی مناسب ہے، کیونکہ اس طرح سے ایک معروف ادارہ کے ذریعہ عشرت جہاں کے اہل خاندان کی امداد بھی ہو جائے گی اور وہ لوگ ہر قسم کی پریشانی سے بچ بھی جائیں گے۔

راقم نے اخبار سیاست اور جناب زاہد علی خاں کا انتخاب اس لئے کیا کہ میری نظر میں زاہد صاحب سے بہتر کوئی دوسرا شخص اس کام کے لئے موزوں نہیں ہے۔ قوم پر کوئی بھی مصیبت آئے، زاہد صاحب دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ہی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ مظفر نگر فساد کے جو متاثرین کیمپوں میں پڑے ہیں، ان کے بچے سردی سے متاثر ہوکر فوت ہو رہے ہیں، مگر کوئی اُن کا پُرسان حال نہیں ہے۔ اس اطلاع کے ملتے ہی زاہد صاحب نے متاثرین کی امداد کے لئے اخبار سیاست میں فوراً اپیل شائع کی اور ایک ہفتہ کے اندر تقریباً 15 لاکھ 50 ہزار روپئے اور 4 ہزار سے زائد بلانکٹسمظفر نگر فساد متاثرین کے لئے جمع ہو گئے۔ اب یہ رقم زاہد صاحب کسی ذمہ دار شخص کے ذریعہ مظفر نگر روانہ کریں گے۔ اس سے قبل فساد متاثرین کی مدد کے لئے انھوں نے ملت فنڈ سے 10 لاکھ روپئے ندوۃ العلماء کو روانہ کئے تھے۔

یہاں میں نے اس واقعہ کا ذکر اس لئے کیا کہ ہماری قوم کے بہت سے افراد مصیبت کے وقت چندہ جمع کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ راقم کو اس قسم کے دو واقعات اچھی طرح یاد ہیں۔ جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی تو ہندوستان اور بیرون ملک بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کے لئے کافی چندہ اکٹھا ہوا تھا۔ مسلمانوں نے چندہ تو بہت دیا، تاہم وہ رقم کہاں گئی؟ اب تک پتہ نہیں چل سکا۔ اسی طرح بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر متاثرین کی امداد اور ان کے مقدمہ کی پیروی کے نام پر بھی لاکھوں روپئے اکٹھا کئے گئے۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر متاثرین میں سے ایک بچے کے والد نے مجھ کو بتایا کہ وہ کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ یعنی چندہ دینے اور اکٹھا کرنے کے لئے تو ہم فوراً تیار ہو جاتے ہیں، لیکن اس رقم کو حقیقی متاثرین تک پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔

میں یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ادارۂ سیاست اور اخبار سیاست کے ایڈیٹر جناب زاہد علی خاں پر اس قسم کے معاملات میں پورا پورا بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ لہذا جو لوگ عشرت جہاں کے اہل خاندان کی مدد کرنا چاہتے ہوں، اُنھیں چاہئے کہ ادارہ سیاست سے رابطہ قائم کرکے اپنی رقم روانہ کریں اور اگر اس سلسلے میں کوئی دشواری پیش آئے تو راقم کے ای میل پر ربط پیدا کریں۔ مجھے پوری اُمید ہے کہ درجنوں افراد اِس کارِ خیر میں حصہ لے کر بے قصور ہلاک کی جانے والی عشرت جہاں کی روح کی تسکین کا نہ صرف باعث بنیں گے، بلکہ اس طرح سے اس کے اہل خاندان کے زخموں کو کچھ حد تک مندمل بھی کرسکیں گے۔
zafaragha70@gmail.com