عرش بریں پہ ہوتا ہے چرچا رسولﷺ کا

سنگاریڈی میں عرس عرفانی کل ہند مشاعرہ کا کامیاب انعقاد، شعراء کوداد و تحسین

سنگاریڈی /31 جنوری (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) نبیرہ خواجہ دکن حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ حضرت سید شاہ عبد الجبار محمد محمد الحسینی بسمت نگر کے خلیفہ حضرت حبیب احمد بن عمر حبیب عرفان علی شاہ بندہ نوازی رحمۃ اللہ علیہ کی دو روزہ عرس تقاریب 29 اور 30 جنوری کو احاطہ درگاہ حضرت ممدوح واقع چاؤش باغ سنگاریڈی حضرت حکیم عمر بن احمد حبیب فیض علی شاہ چشتی بندہ نوازی عرفانی سجادہ نشین بارگاہ عرفانی کی نگرانی میں منعقد ہوا۔ 29 جنوری کو بعد عصر جامع مسجد سنگاریڈی سے جلوس صندل برآمد ہوا، جو سنگاریڈی شہر سے ہوکر درگاہ شریف پہنچا اور بعد نماز مغرب رسم صندل مالی انجام دی گئی۔ اس موقع پر گزشتہ پانچ برسوں سے کل ہند مشاعرہ منعقد کیا جا رہا ہے، جس میں ملک کے نامور شعراء شرکت کرتے ہیں۔ 29 جنوری کی شب صندل مالی اور تبرک طعام کے بعد کل ہند مشاعرہ سجادہ نشین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ مشاعرہ کا آغاز حافظ محمد قاسم علی کی قرائت کلام پاک اور شیخ مجید کی ترجمانی سے ہوا۔ اس مشاعرہ کا پہلا دور نعتیہ اور دوسرا دور سنجیدہ ہوتا ہے۔ نعتیہ دور کا آغاز ناظم مشاعرہ فیروز رشید ناندیڑ نے حمد و نعت پیش کرتے ہوئے کیا۔ بعد ازاں سنگاریڈی کے حافظ محمد احسن منظر قاسمی نے نعت شریف پیش کرنے کی سعادت حاصل کی اور ان کے بعد مہمان شاعر آزاد انور مالیگاؤں نے نعت شریف پیش کی، جن کے اس شعر کو کافی پسند کیا گیا:
صدقہ میں مصطفی کے برابر ملا مجھے
مانگا تھا میں نے قطرہ سمندر ملا مجھے
اسی طرح جلال میکش بھوپالی کے اس شعر کو سراہا گیا
خوشبوؤں کا موسم ہے سبز ڈالی ڈالی ہے
گلشن مدینہ کی شان ہی نرالی ہے
ان کے بعد سید علی میثم گوپال پوری نے مائک سنبھالا اور اپنے نعتیہ کلام سے مشاعرہ کو عروج پر پہنچایا۔ ان کے اشعار پر مشاعرہ گاہ نعروں سے گونج رہا تھا۔ انھوں نے اپنے اشعار میں حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی غلامی اور وابستگی کا اظہار یوں کیا:
چومے ملک نہ کیسے کف پا رسول کا
عرش بریں پہ ہوتا ہے چرچا رسول کا
دوسرے دور میں سنجیدہ مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں مقامی اور ضلع میدک سے تعلق رکھنے والے شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ سب سے پہلے شکیل ظہیرآبادی نے اپنا کلام سنایا اور ان کے اس شعر کو پسند کیا گیا:
خانقاہی سلسلہ ہے سنگاریڈی شہر میں
فیض عرفانی ملا ہے سنگاریڈی شہر میں
ان کے بعد سنگاریڈی کے شاعر فیاض علی سکندر نے یوں کہا:
کام مشکل ہے بہت ہم کو مگر آتا ہے
موم، پتھر کو بنانے کا ہنر آتا ہے
اس کے بعد آزاد انور مالیگاؤں نے کہا:
ہم نے نہ کی تمیز حلال و حرام میں
بس اس لئے ہماری دعاء میں اثر نہیں
ولی محمد زاہر ہریانوی کے بعد شہزادہ کلیم پرتاب گڑی کو بھی ان کے اشعار پر زبردست داد ملی اور اس کے بعد میثم گوپال پوری نے ایک مرتبہ مائک سنبھالا۔ ان کے اس شعر کو بہت زیادہ داد و تحسین ملی:
جن کو ماں باپ کی ہوتی ہیں دعائیں حاصل
وہ چمکتا ہے بلندی سے ستاروں کی طرح
رات کے پچھلے پہر تین بجے کنوینر عبد الرزاق قریشی کے شکریہ پر مشاعرہ اختتام کو پہنچا۔