عربی کے مشہور ادیب احمد امین کی خود نوشت سوانح ’حیاتی ایک مطالعہ

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
عربی زبان میں خود نوشت سوانح عمریاں بہت سی موجود ہیں ۔ عہد جدید میں احمد امین کی ’حیاتی‘ اور طہ حسین کی ’’الایام‘‘ نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے ۔ راقم السطور نے دونوں کتابوں کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہے ، اور وہ اس نتیجے تک پہنچا کہ صرف گل افشانی گفتار اور ادب و انشاء کے معیار کو سامنے رکھا جائے تو ’’الایام‘‘ زیادہ وزن دار کتاب ہے۔ اسی لئے اس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دئے ہیں ، اس کتاب میں طہ حسین کی تحریر بغیر شراب کا نشہ ہے ، لیکن کسی کتاب کی افادیت اور اہمیت صرف ادب و انشاء کے معیار کو سامنے رکھ کر نہیں طے کی جاسکتی ہے ۔ زندگی کے تجربات اور علمی و فکری خصوصیات اور شخصیت کی تشکیل کے لازمی عناصر اور ان کے فائدے کو معیار بنایا جائے تو ’حیاتی‘ کا درجہ ’’الایام‘‘ سے بہتر اور بلند تر ہے ۔ طہ حسین کی ’’الایام‘‘ تو وہ کتاب ہے جس کو اگر پوری قوت سے نچوڑا جائے تو شگفتہ بیانی اور لن ترانی کے سوائے عالم و تحقیق کا کوئی قطرہ اس سے مشکل سے برآمد ہوگا ۔ جبکہ ’حیاتی‘ میں قدم قدم پر زندگی کے قیمتی اور انمول تجربات سامنے آئیں گے ، جن سے ایک باذوق قاری کا دامن علم و فکر کے بیش بہار موتیوں سے بھر جائے گا ۔ خالص ادبی نقطہ نظر سے بھی یہ کتاب ’’الایام‘‘ کے ہم پلہ نہ سہی لیکن بہت وقیع اور خوبصورت ہے ، بہت سی جگہوں پر احمد امین نے شیریں گفتاری کا جادو جگایا ہے اور یہ اندازہ ہر اس شخص کو ہوگا جس نے عربی زبان میں ’حیاتی‘ کا مطالعہ کیا ہے ۔ مجموعی اعتبار سے ’حیاتی‘ میرے نزدیک ’’الایام‘‘ سے زیادہ پسندیدہ اور مفید کتاب ہے ۔ اردوخواں حضرات کو بات سمجھانے کے لئے مولانا آزاد کی کتابوں کا حوالہ دیا جاسکتاہے ۔ مولانا آزاد کی ایک کتاب ’’غبار خاطر‘‘ ہے یہ خالص ادبی کتاب ہے اور اردو انشاء کے لحاظ سے زرکامل عیار کی حیثیت رکھتی ہے ،مولانا آزاد کی کتابوں میں اسی کتاب کے سب سے زیادہ ایڈیشن نکلے ہیں لیکن علم و آگہی اور فکر و تحقیق کے اعتبار سے مولانا آزاد کی دوسری کتابوں جیسے ’’تذکرہ‘‘ یا ’’ترجمان القرآن‘‘ کا پایہ زیادہ بلند ہے اور اس میں ادب کا جمال بھی موجود ہے اور ان دونوں کتابوں کی افادیت اور اہمیت ’غبار خاطر‘ سے کہیں زیادہ ہے ۔ لیکن مقبولیت زیادہ غبار خاطر کو حاصل ہوئی ۔ ’’حیاتی‘‘ میں بھی ادب کا جمال موجود ہے لیکن جس طرح لیلائے شب کی زلف برہم میں دمکتے ہوئے ستاروں کا حسن دیکھنے کے لئے بینائی کی شرط ہے ، اسی طرح عربی زبان کی کسی کتاب کے ادبی حسن سے آشنا ہونے کے لئے عربی زبان کا جاننا بھی ضروری ہے ۔ ’’حیاتی‘‘ کی ادبی حیثیت بھی مسلم ہے ، کتاب میں جو لطائف اور معانی ہیں اور جو افکار و اقدار پیش کئے گئے ہیں ان کی علاحدہ اہمیت ہے ۔ اور اسی چیز نے کتاب کو زیادہ قیمتی بنادیا ہے ۔

احمد امین عربی کے بہترین نثر نگار ، فنکار ، سوانح نگار ، معلم و مورخ ، یونیورسٹی کے استاذ اور عربی ادب کے نقاد تھے ۔ احمد امین بایں ہمہ قابلیت و عبقریت مجدد اور مصلح نہیں تھے اور نہ انقلابی شخصیت کے حامل تھے ۔ ان کی مثال اس موسیقی کار کی طرح ہے جو کسی کی بستی میں آگ لگنے کے باوجود آگ بجھانے کی فکر نہ کرے اور بستی کی نزدیک درخت کے سایے میں بیٹھ کر بانسری بجاتا رہے ، ان کے والد نے اسی انداز سے ان کی تربیت کی تھی ان کے والد درسی کتابوں کی تدریس و تفہیم کے ماہر تھے لیکن اخبارات کے مطالعے سے اور سیاست سے گریزاں رہتے ،گرد و پیش میں کوئی بیماری پھل جائے یا سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے وہ ان سب سے بے نیاز مطالعہ میں یا اپنے معمولات میں ، یا گھریلو فرائض میں مشغول رہتے ۔ احمد امین نے اسلامی تاریخ کو اس کے مدو جزر کا تفصیلی لیکن معروضی مطالعہ کیا تھا اور ایک نہیں بلکہ متعدد کتابیں اس موضوع پر لکھیں ، ان پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے ’’داستان فصل گل خوش می سرائد عندلیب‘‘ ان کا مزاج خالص عقلی ،علمی اور فکری تھا ۔ وہ سبک ساران ساحل کی طرے دور سے طوفاں کا نظارہ کرتے تھے ۔ وہ جمال الدین افغانی کی طرح انقلاب بردوش شخصیت نہیں رکھتے تھے ۔ اسی لئے مسلمانوں کے زوال اور یوروپ کے عروج و اقبال سے ان کا دل ایاس بے چین نہیں ہوتا تھا جیسا برصغیر میں علامہ اقبال کا یا مولانا مودودی ، مولانا ابوالحسن علی ندوی یا مصر میں سید قطب شہید کا دل بے چین اور مضطرب رہتا تھا ۔ اقبال کا سارا کلام ، مودودی صاحب کی ’’تنقیحات‘‘ وغیرہ مختلف تحریریں اور علی میاں کی کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ اور سید قطب کی ’’جاہلیتہ القرآن العشرین‘‘ یہ کتابیں ان حضرات کے اضطراب کی آئینہ دار ہیں ، یہ اضطراب بڑی نعمت اور اللہ تعالی کا انعام ہے ۔ اور ہر شخص کو میسر نہیں ہوتا ۔ اسی لئے اقبال نے شکوہ کیا تھا ۔

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
احمد امین کے کئی اسفار کا اس خود نوشت میں تذکرہ ہے ، اس میں ترکی کا سفرنامہ بھی ہے ، مصطفی کمال نے جو ترکی کا حلیہ بگاڑا تھا اور اس کا قبلہ یوروپ کی طرف کردیا تھا ، اس کا بس سرسری تذکرہ ہے لیکن مصطفی کمال پر جو تاریخ اسلام کے بڑے مفسدین میں شمار کئے جانے کے لائق ہے ، کوئی نقد اور کوئی تبصرہ نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ بگاڑ احمد امین کے ٹھنڈے مزاج کو برہم نہیں کرسکا ۔ ان کی طیبعت تالاب کے پانی کی ساکن سطح کی طرح ہے کہ جس میں کوئی تموج اور تلاطم نہیں ہے ، ان کا مزاج ملی اور اجتماعی معاملات میں ان کے اپنے چوب قلم کی طرح خشک ہے اور یخ بستہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ احمد امین کی علمی منزلت کی وجہ سے مولانا علی میاں نے اپنی کتاب ’’ماذاخسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ پر مقدمہ کی فرمائش کی تو انہوں نے مقدمہ تو لکھا لیکن کتاب کی حرارت اور مقدمہ کی برودت کے درمیان تضاد پایا گیا اور لوگوں نے محسوس کیا کہ اس مقدمہ نے کتاب کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے ۔ اور جب سید قطب نے کتاب پر اس کی روح کے مطابق طاقتور مقدمہ لکھا تو اس نقصان کی تلافی ہوئی اور پھر آئندہ ایڈیشن سے احمد امین کے مقدمہ کو ہٹادیا گیا ۔ ان سب کے باوجود احمد امین کی علمی و ادبی حیثیت مسلم ہے ۔ اگرچہ طہ حسین کے حلقوں نے ان کی ادبی حیثیت کا اعتراف نہیں کیا ہے اور طہ حسین کے شاگرد رشید شوقی ضیف نے مصر کے ادباء پر اپنی کتاب میں ان کا نام ہی غائب کردیا ۔ یہ حلقہ ان کو مورخ اور محقق تو سمجھتا ہے لیکن ادیب نہیں ۔ اس حلقے کے لوگ ادب کو شعر و افسانہ میں محصور سمجھتے ہیں ۔ طہ حسین کے نزدیک حقیقی ادب بس یہی ہے ، اس طرح کے نثری ادب کے لئے انہوں نے ’’الادب الانشائی‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے ، باقی تاریخ ادب تنقید اور نثر کے دیگر اصناف کو انہوں نے ’’الادب الوصفی‘‘ کہہ کر حقیقی ادب کے دائرے سے خارج کردیا ہے ۔ اردوداں حلقے کے سمجھنے کے لئے اسے اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ طہ حسین کے نزدیک شبلی کی شاعری کو یا شعر العجم کوادب کے دائرے میں رکھا جاسکتا ہے لیکن سیرت النبی ، الفاروق اور سیرۃ النعمان جیسی کتابیں ان کے نزدیک ادب کے دائرے سے باہر ہوں گی ۔
ضروری نہیں کہ طہ حسین کی بات صحیح مانی جائے لیکن جو بات مسلم ہے اور جس کا اعتراف کیا جانا چاہئے وہ یہ کہ ’’الایام‘‘ کی ادبی حیثیت اپنی جگہ پر لیکن احمد امین کی خود نوشت ’’حیاتی‘‘علمی و فکری اعتبار سے زیادہ معتبر ، موقر اور مفید کتاب ہے ۔ اس میں ادب کی چاشنی کے ساتھ فکر و عقل کی غذا کا بھی پورا سامان ہے ۔اس کتاب کی زبان و بیان کے حسن کا اعتراف عباس محمود العقاد جیسی شخصیت نے کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ احمد امین ادیب سے زیادہ محقق اور مورخ تھے ۔ ادیب اور شاعر بننے کے لئے جذباتیت ضروری ہے ، جس کا تعلق دل سے ہے لیکن محقق بننے کے لئے منطقیت اور سرگرم جستجو ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے عقلیت لازمی ہے جو احمد امین کے یہاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے ۔

احمد امین وہ سب کچھ بنے جو قدرت نے انہیں بنانا چاہا ، انسان کی شخصیت کی تشکیل میں غیبی ہاتھ کام کرتے ہیں ، اور انسان کوادھر لے جایا جاتا ہے جدھر قدرت اسے لے جانا چاہتی ہے اور قدرت انسان کو کدھر لے جانا چاہتی ہے کوئی بھی انسان اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا ہے جب تک کہ وہاں پہنچ نہیں جاتا ہے ۔ یوسف علیہ السلام کے لئے تقدیر الہی کا فیصلہ تھا کہ مصر کے تاج وتخت کا ان کو وارث بنایا جائے ، انہیں کنویں میں اسی لئے ڈالا گیا کہ مصر جانے والے مسافر انہیں کنویں سے نکال کر مصر لے جائیں اور پھر مصر کے بازار میں انہیں غلام بنا کر اسی لئے فروخت کیا گیا کہ وہ اس بازار سے عزیز مصر کے گھر پہنچ جائیں ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ ’’بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز ۔ فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ‘‘ ۔ شاطر قدرت نے ان کے لئے جو طے کیا تھا وہ ان کو ملا ، یہ دنیا عالم اسباب ہے ، منزل تک پہنچنے کے لئے انہوں نے طویل سفر کیا ، نہ تھکن کا احساس کیا نہ انہوں نے پاؤں کے چھالے دیکھے ، انہیں معلوم تھا کہ زندگی کی لہو ترنگ ہے جلترنگ نہیں ہے ۔ انہوں نے ہمت اور مسلسل عمل سے ساحل مراد تک پہنچنے کی کوشش کی ،انہوں نے ریگزار کو چمن اور بنجر زمین کو گل و گلزار بنادیا ، کتابیں ان کے لئے دن کی رفیق حیات اور رات کی رانیاںتھیں ، انہوں نے علمی اور ادبی کاموں میں بے انتہا محنت کی ، مسلسل اور بلا انقطاع پڑھنے اور لکھنے کی عادت نے علم و دانش کی دنیا میں ان کی شناخت قائم کردی ، صاحبان نقد و نظر کی نگاہیں ان پر پڑنے لگیں ، پہلے جج بنے ، پھر لکچرر بنے اور پروفیسر اور پھر پرنسپل اور پھر شعبہ تصنیف و تالیف کے ڈائرکٹر بنے ، اعزازات سے نوازے گئے ۔ دوسرے ملکوں کی علمی کانفرنسوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی ، علم و ادب کی دنیا میں انہوں نے اپنے مستقبل کو درخشاں بنایا اور جریدہ عالم پر انہوں نے نام اور دوام دونوں کو ثبت کردیا ۔ عربی زبان و ادب اور اسلامیات سے شغف رکھنے والے صرف ’’حیاتی‘‘ کو نہیں بلکہ ’’زعماء الاصلاح‘‘ ’’فجرالاسلام‘‘ ، ’’ضحیٰ السلام‘‘ اور ’’النقد الادبی‘‘ وغیرہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے اور ان کی کتابیں گردش شام و سحر کے درمیان زندہ اور تابندہ رہیں گی ۔

سوانحی ادب کا مطالعہ دوسروں کے قیمتی تجربات سے مفت فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے اگر مطالعہ کی عادت ہو تو انسان مشاہدے سے زیادہ مطالعے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ، انسانی زندگی پر ایک طرف قانون وراثت اپنا کام کرتا ہے ، دوسری طرف حالات زندگی کا اس پر عکس پڑتا ہے ۔ جب ایک انسان عظیم شخصیتوں کے تجربات اور تاریخ ساز ،بلند قامت انسانوں کے حالات پڑھتا ہے تو یہ مطالعہ گزرگاہ حیات میں اس کے لئے قندیل کا کام کرتاہے اور وہ ان سے اکتساب نور کرتا ہے ۔مثال کے طور پر اس کتاب کے مطالعے سے ایک قاری کو یہ سبق ملے گا کہ بچوں کی تربیت کس درجہ اہتمام کے ساتھ کرنا چاہئے اور ان کے اندر علم و ادب کی تخم ریزی کس طرح کرنی چاہئے اور خود اپنی زندگی کو اولاد کے لئے کس طرح نمونہ بنانا چاہئے ، حیا اور سنجیدگی اور غم کی زیریں لہر شخصیت کی تشکیل میں کس قدر مفید ہوتی ہے ، دینی ماحول اور قرآن کی تلاوت سے گھر کا ماحول کس قدر نورانی بنتا ہے ۔ کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معیار زندگی کے ریس وہ لوگ کرتے ہیں جو ناہنجار اور ساقط الاعتبار ہوتے ہیں ،مسابقت کا جذبہ معیار زندگی کے لئے نہیں معیار بندگی کے لئے ہونا چاہئے ، تعلیم وتدریس کو ایک بوجھ بنانے کے بجائے طلبہ کے لئے مرغوب شربت کا گلاس بناکر پیش کرنا چاہئے ، گندگی اور غلاظت گھر کے اندر ہو یا باہر ہو اس سے وہ ذوق جمال مردہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی نعمت ہے اور اس نعمت کی حفاظت ضروری ہے ورنہ مزاج میں بدسلیقگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ذوق جمال کی تربیت کے لئے پھولوں کے حسن اور مناظر قدرت سے رغبت پیدا کی جانی چاہئے ، صالح انسان کی صحبت انسان کو صالح بناتی ہے ، زندگی اور زبان دونوں میں شگفتگی لانے کے لئے ادبی و شعری ذوق ضروری ہے ، کسی بھی کام میں محنت ،صبر اور تحمل کامیابی کا زینہ ہے ۔ اس طرح کے بے شمار لعل و گہر اور حکمت کے موتی ورق ورق پر چمکتے نظر آئیں گے ۔ مصنف نے یہ کتاب کیا لکھی ہے گویا موتی رولنے اور آب حیات گھولنے کا کام کیاہے ۔ ان کی کتاب اس خوبصورت قبا کے مانند ہے جس پر گل بوٹے سجائے گئے ہوں ۔