عدم رواداری

تعصب آگ ایسی ہے جو ہر اک کو جلاتی ہے
یہی بہتر ہے ہم سب متحد ہوکر صف آرا ہوں
عدم رواداری
انسانی تاریخ میں جب بھی قوموں کو بڑے بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا ہوا، حالات سے نمٹنے کے لئے سیاسی قیادت سامنے آتی ہے۔ ہندوستان میں بھی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں ہندوستان کی سیاسی قیادت میں فرقہ پرستی کا عنصر شدت سے پایا جانے لگا تو ساری فضاء فرقہ پرستانہ طور پر آلودہ بنانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ ملک میں عدم رواداری کی بڑھتی ہوئی کیفیت اور اظہار خیال کی آزادی کو مفقود کردینے والے واقعات نے ملک کے ادیبوں، مصنفین اور دانشور طبقہ کو مضطرب کردیا ہے۔ عدم رواداری اور فرقہ وارانہ ماحول کے خلاف احتجاج میں شدت پیدا کرتے ہوئے مصنفین نے ان کے اعزاز میں تفویض کئے گئے ایوارڈس کو واپس کرنا شروع کردیا ہے۔ سیاسی قوتیں اگرچیکہ فرقہ وارانہ ماحول کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں، مگر حکمراں پارٹی کی پالیسیوں نے سیکولر فضاء کو فرقہ پرستانہ بنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ عوام کا اجتماعی شعور حالات کو بہتر طور پر سمجھتا ہے لیکن حکمراں قیادت کی خاموشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کے درست ہونے کی امید موہوم ہوجاتی ہے تو احتجاج کا ایک منفرد راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ نین تارا سہگل اور اشوک واجپائی کے بعد کئی مصنفین نے ساہتیہ اکیڈیمی کی جانب سے دیئے گئے ایوارڈس کو بطور احتجاج واپس کیا ہے۔ گجرات کے شہر ودودھرا کے ادیب گنیش دیوے نے بھی مصنفین کے ساتھ اظہار یگانگت کرتے ہوئے ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ واپس کردیا۔ اس ملک کی قدیم روایات، اقدار اور رواداری کے ساتھ کثیرالوجود معاشرہ کا باہمی احترام ضروری ہے۔ ہندوستان کے سیکولر مزاج میں یہ عظیم نظریہ پایا جاتا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھے اور ہر مذہب کا احترام کرے۔ یوپی کے ایک موضع دادری میں پیش آئے واقعہ کے بعد صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے بھی ہندوستانی رواداری اور کثرت میں وحدت کی پاسداری کی جانب ہندوستانیوں کی توجہ مبذول کروائی تھی۔ جواہر لال نہرو کی بھانجی 88 سالہ نین تارا نے سیاسی طاقتوں کے خلاف اپنے کھلے مکتوب میں دادری قتل واقعہ کا حوالہ دے کر ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دادری میں 50 سالہ مسلم شخص محمد اخلاق کو محض گوشت کھانے کی جھوٹی اطلاع پر ہجوم نے زدوکوب کرکے ہلاک کردیا تھا۔ انسانی زندگیوں کے ساتھ مذہب کی آڑ میں کھلواڑ کرنے والی طاقتوں کے خلاف ایک مضبوط مورچہ بنانے کی شروعات کرتے ہوئے ادیبوں، مصنفوں نے پہل کی ہے تو ملک کے ہر شہری کو بھی اظہار یگانگت کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ انسانی زندگی اور اظہار خیال دونوں کی آزادی کے حق کو سلب کرنے کا اختیار کسی بھی طاقت کو حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ گجرات مسلم کش فسادات کے بعد آج اگر کوئی سیاسی طاقت بدقسمتی سے ہندوستان پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اسے دستور ہند کے مطابق لئے گئے حلف کی لاج بھی رکھنی ہوتی ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ سیاسی اور جمہوری طور پر منتخب حکومت بہتر طرز حکمرانی نہیں دے سکی جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ پرست ٹولے سرگرم ہوگئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کا کوئی بھی ذمہ دار اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ ملک میں جب خوف اور غیریقینی حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں تو حساس مزاج کے شہری اپنے دکھ، غم و غصہ کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔ دستور نے ہندوستانی شہریوں کو جو حقوق دیئے ہیں، ان کا تحفظ کرنا ہر ایک شہری کی ذمہ داری ہے، لہٰذا مصنفین کے احتجاج کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ حکومت اور سیاسی طاقتوں کو ہندوستانی تہذیب اور کثرت میں وحدت کو پہونچائے جانے والے نقصان کو روکنا ہوگا۔ جن قوموں کو اپنا وقار عزیز ہوتا ہے، وہ نفع نقصان سے بالاتر ہوکر فیصلے کیا کرتی ہیں۔ دادری قتل واقعہ کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ فرقہ واریت کی آگ پورے ملک میں پھیلائی جائے۔ دادری کے بعد مین پوری میں بھی گائے کے گوشت کے مسئلہ پر تشدد برپا کیا گیا۔ فرقہ واریت کے خلاف آج مصنفین نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے تو ہم سب سیکولر عوام کو متحد ہوکر فرقہ واریت کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔