عثمانیہ یونیورسٹی ہندو مسلم اتحاد کا مرکز ، مسائل سے روگردانی افسوسناک

بضمن آرٹس کالج پلاٹنیم جوبلی تقاریب ہمہ لسانی مشاعرہ ، جناب زاہد علی خاں و دیگر کا خطاب
حیدرآباد۔27فبروری(سیاست نیوز) برصغیر کی عظیم عثمانیہ یونیورسٹی نہ صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہے بلکہ ہندومسلم اتحاد کا مرکز بھی ہے باوجود اسکے تاریخی اہمیت کی حامل عثمانیہ یونیورسٹی کے مسائل سے روگردانی قابل افسوس عمل ہے۔ مدیر روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان آرٹس کالج پلاٹنیم جوبلی تقاریب کے ضمن میں منعقدہ ہمہ لسانی مشاعرے سے صدارتی خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ انقلابی گلوکار غدر ‘پرنسپل آرٹس کالج پروفیسر پی شنکر رائو چیرمن تلنگانہ ریسور س سنٹر ایم ویدا کمار‘ سکریٹری ڈائرکٹر اُردو اکیڈیمی پروفیسر ایس اے شکور نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔ شیخ فہیم اللہ نے افتتاحی کلمات ادا کئے تقریب ومشاعرے کی کاروائی فیروز رشید ناندیڑ نے چلائی۔تلنگانہ میناریٹی انٹلکچولس فورم وشعبہ اُردو جامعہ عثمانیہ کے زیر اہتمام منعقدہ ہمہ لسانی مشاعرے سے اپنے صدراتی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے جناب زاہد علی خان نے کہاکہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل اور تلنگانہ تحریک کی علمبردار سیاسی جماعت کا ریاست میں برسراقتدار آنے کے بعدبرصغیر کی عظیم یونیورسٹی کودرپیش مسائل کے حل میں تاخیر تشویش ناک عمل سمجھا جارہا ہے۔ انہوں نے تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ریاست کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے چیف منسٹر تلنگانہ ریاست کی جانب سے کئے گئے بے شمار اعلانات اور فنڈز کی فراخدلانہ اجرائی کے باوجود عثمانیہ یونیورسٹی کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے حکومت کی سرد مہری پر گہرے تاسف کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاکہ عثمانیہ یونیورسٹی تلنگانہ تہذیب کی سفیر درس گاہ ہے جس کا تحفظ اور عظمت رفتہ کی بحالی تلنگانہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہوگی۔ انہوں نے قدیم اور عظیم تاریخی یونیورسٹی میں طلبہ کی گھٹتی تعداد کے اسباب تلاش کرتے ہوئے یونیورسٹی کے قیام کے مقصد پر توجہہ دینے کا حکومت تلنگانہ سے مطالبہ کیا۔جناب زاہد علی خان نے چیف منسٹر تلنگانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ یونیورسٹی کی نگہداشت‘ انتظامیہ او رعظمت رفتہ کی بحالی کے لئے خصوصی توجہہ دے اور حکومت کے فرخدلانہ تعاون کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں تلنگانہ ریاست کی ترجمانی کرنے والے عظیم یونیورسٹی کے قیام کے مقصد کو بحال کرنے کاکام کرے۔جناب زاہد علی خان نے یونیورسٹی کے احاطہ میں ہمہ لسانی مشاعرے کا انعقاد کراتے ہوئے تلنگانہ کی قدیم ومشترکہ تہذیب کی بازیابی پر مشاعرے کے منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔انقلابی گلوکار غدر نے اپنے منفرد انداز میں شعراء کرام‘ سامعین اور منتظمین مشاعرہ کو ہمہ لسانی مشاعروں کے انعقاد کے ذریعہ پسماندگی کاشکار طبقات کو متحدکرنے کے لئے ایک عظیم اتحادی پلیٹ فارم تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔انہوں نے کہاکہ اشعار کے ذریعہ ظالم وجابر حکمرانوں کے دلوں کو بدلا جاسکتا ہے۔ انہو ں نے مزید کہاکہ سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے مشاعروں کا انعقاد ایک کامیاب پہل ہوگی۔غدر نے مزیدکہاکہ سوائے مذہب اسلام کے دنیا کا کوئی بھی مذہب سماجی مساوات کی تعلیم نہیںدیتا۔ انہوں نے اپنے بچپن کے کئی ایک واقعات کو اپنے انقلابی انداز میںبیان کرتے ہوئے کہاکہ ان کاتعلق اچھوت طبقے سے ہے جو منادر کی تعمیر تو کرتے ہیںمگر انہیںاسی مندر میں پوجا کرنے کا موقع نہیں ملتا جبکہ عیسائی برادری بھی طبقات میں بٹی ہوئی ہے مگر میں مسجد میںدیکھتا ہوں تو سب ایک صف میںکھڑے ہوکر اپنے رب کو یاد کرتے ہیں۔ غدر نے اپنی شاعری کے ذریعہ سماجی برائیوںکو ختم کرنے کی تحریک شروع کرنے کا شعراء کو مشور ہ دیا ۔ انہوں نے کہاکہ مظلوم خواتین اور پسماندہ طبقات پر شاعری منحصر ہے کااحاطہ کرتے ہوئے پسماندہ طبقات کے اندر شعور بیدار کیاجاسکتا ہے۔ غدر نے مسلم اقلیت اور پسماندگی کاشکار طبقات کے اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ دشمن بڑا چالاک او ر طاقتور ہے لہذا دشمن سے ملک اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہمارا آپسی اتحاد ایک بڑا ہتھیار بن سکتا ہے۔انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کی حالت زار پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے جن بنیادوں اور مقاصد پر علیحدہ ریاست تلنگانہ تحریک چلائی گئی تھی اُن کو فراموش کردینے کا بھی الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہاکہ پولاورم پراجکٹ‘ تلنگانہ تہذیب کی بازیابی‘ وسائل کا تحفظ‘ پسماندہ طبقات کا تابناک مستقبل جیسے مسائل اور نعرے یکسر نظر انداز کردئے گئے۔انہوں نے کہاکہ آصف جاہ سابع نے چھ لاکھ ایکڑ اراضی انڈین یونین کے حوالے کی تھی جس کا کچھ پتہ نہیںہے اور ایسے کئی ایک واقعات ہیںجن کے حل سے تلنگانہ اور تلنگانہ کی عوام کا مستقبل بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے اسکے لئے ہمہ لسانی شعراء کا ایک پلیٹ فارم تیار کرنے کا مشورہ دیا جس کے ذریعہ تلنگانہ کے گائو ں گائو ں جاکر عوام پسماندگی کاشکار طبقات کے اندر اتحاد کی شمع جلاسکے۔پرنسپل آرٹس کالج پروفیسرپی کرشنا رائو نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہمہ لسانی مشاعرے کی صدارت قبول کرنے پر جناب زاہد علی خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تین ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد ہمہ لسانی مشاعرہ منعقد کرنے میں ہمیںکامیابی ملی ہے انہوں نے ہمہ لسانی مشاعرے کومشترکہ تہذیب کے فروغ میںمعاون قراردیا۔ چیرمن تلنگانہ ریسور س سنٹر مسٹر ایم ویدا کمار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تلنگانہ تہذیب کو زندہ رکھنے کے لئے ہمہ لسانی مشاعروں کے انعقاد کو قابلِ تقلیداقدام قراردیاجس کے ذریعہ تلنگانہ کی تہذیب و تمدن کو مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارت کو ایک ہزارسالہ قدیم تاریخ کاہمراز قراردیا ۔ انہوں نے کہاکہ آصف جاہی دور حکومت میںتعمیر کی گئی اس عمارت کے اندر مغلیہ‘ عثمانیہ اور اس سے قبل کے دور حکمرانی کے اثرات صاف دیکھائی دیتے ہیں۔ ویدا کمار نے کہاکہ عثمانیہ یونیورسٹی لاکھوں لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانیوالا ادارہ ہے بلکہ ایک انقلابی مرکز بھی جہاں سے تلنگانہ تحریک پروان چڑھی۔انہوں نے کہاکہ معاشی طور پر کمزور خاندانوں کے بچے اس یونیورسٹی میںتعلیم حاصل کرتے ہوئے نہ صرف اپنے خاندان کے کفیل بنے بلکہ دنیا بھر میں یونیورسٹی اور ریاست وملک کا نام روشن کرنے والوں میں ان کاشمار ہوا۔پروفیسرایس اے شکور نے بھی مشاعرے کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔انہو ں نے کہاکہ عثمانیہ یونیورسٹی سے جو بھی تحریک شروع کی جاتی ہے وہ انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کی مثال تلنگانہ تحریک ہے جوعلیحدہ ریاست کی صورت میںہمارے سامنے موجود ہے۔ انہوں نے ہمہ لسانی مشاعرے کی بنیاد ڈالنے والے پروفیسر کرشنا رائو کو اس تحریک کا علمبردار قراردیتے ہوئے کہاکہ ہمہ لسانی مشاعرے کی تحریک بھی پوری ریاست میںتیزی کے ساتھ انقلاب کی شکل اختیا ر کریگی۔ مشاعرہ میںاُردو ‘ تلگو اور ہندی کے نامور شاعروں نے اپنا کلام پیش کیاجن میں معید جاوید‘ شیلا مشرا‘ایس وی ستیہ نارائنہ‘ سہیل احمدصدیقی‘ نہپال سنگھ ورما‘ ایم چنا پا‘ دھنراج ‘ سردار سلیم‘ششی نارائن سوداھین‘ ڈاکٹردیا شنکر گوئل‘تاتار خان‘ سلیم ساحل‘ درگا داس پٹوار‘گوئند اکشے‘ بیگ احساس ‘ قاسم ‘ سعداللہ خان سبیل کے علاوہ دیگرقابلِ ذکر ہیں۔