عثمانیہ یونیورسٹی کی صد سالہ تقاریب

’’مادر جامعہ ترے ہر سنگ میں دل دھڑکتا رہے گا سدا‘‘

غضنفر علی خاں
جامعہ عثمانیہ کی صد سالہ تقاریب کے انعقاد کے موقع پر اس کے ایک فرزند کی حیثیت سے کچھ اظہار خیال کرنا مجھ جیسے کم مایہ طالب علم کے بس کی بات نہیں ہے ۔ 1917 ء میں قائم کی گئی اس یونیورسٹی نے اپنی پہلی صدی پوری کرلی ہے ۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ ایسی کئی اور ان گنت صدیاں گزرے اور یونیورسٹی یونہی قائم و دائم رہے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی ایک درسگاہ ہی نہیں بلکہ ذہنوں کی تربیت طلبہ میں حسین اخلاق ، اعلیٰ علمی اور تحقیقی شعور پیدا کرنے والا ایک ایسا ادارہ ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یونیورسٹی کا قیام بھی ایک علم پرور آصفیہ خاندان کے چشم و چراغ نواب میر عثمان علی خان مرحوم کی فکر و نظر اور کد و کاوش کا نتیجہ ہے جنہیں ازراہِ عقیدت ’’سلطان العلوم ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنے 100 سال کے طویل عرصہ میں جامعہ عثمانیہ نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ زمانے کے بدلتے ہوئے تیور بھی ملاحظہ کئے ۔ اقتدار زمانے کے وار بھی سہے لیکن درسگاہ کی حیثیت سے کبھی اس نے اپنے وجود کے مقصد کو فراموش نہیں کیا ۔ اہلِ علم کیلئے علم دفن کے خزانے لٹاتی رہی اور اہل علم اس لاثانی مملکت لوح و قلم کی میراث سنبھالتے رہے۔ یوں تو دنیا بھر میں اور جامعات ہیں جو اپنی قدامت کی وجہ سے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان درسگاہوں کے درمیان اپنا وجود برقرار رکھے اور اپنا علمی موقف قائم رکھنے کیلئے عثمانیہ یونیورسٹی نے کبھی رکاوٹ محسوس نہیں کی ۔ آج سے 100 سال پہلے سابق حیدرآباد دکن میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی ۔ تعلیم مخصوص طبقات ہی کا حصہ بنی ہوئی تھی۔ بانی جامعہ کی دور رس نگاہوں نے اس کمی کو محسوس کیا اور ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا ۔ اس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ جامعہ میں  ذریعہ تعلیم اردو رکھا گیا تھا ۔ ارود زبان میں اعلیٰ سائنسی تعلیم کو فروغ دینا ایک چیلنج تھا ۔ یونیورسٹی نے اردو زبان کو سقر و ریختی کی زبان سے ایک عصری زبان بنادیا۔

اب عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا نظام اردو میں عصری تعلیم نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ اردو میں عصری علوم کی تعلیم کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ جامعہ عثمانیہ نے ایسے نازک حالات میں اردو ذریعہ تعلیم کی دنیا بھر میں پہلی یونیورسٹی قائم کی ۔ جدید علوم ، سائنس ، ٹکنالوجی ، انجنیئرنگ ، میڈیسن ، علم ریاضی ، طبعات ، کیما سارے، ساز علوم اردو میں اعلیٰ ترین سطح پر پڑھائے جانے لگے ۔ یونیورسٹی میں اس سلسلہ میں کئی کارہائے نمایاں انجام دینے مختلف اصطلاحات کے تراجم کیلئے علحدہ شعبے قائم کئے گئے تاکہ اصطلاحات کا ترجمہ کیا جاسکے۔ دارالترجمہ ترقی یافتہ زبانوں کی کتابوں کے کے ترجمے اسی عثمانیہ یونیورسٹی میں کئے جاتے رہے ۔ ان مساعی جمیلہ سے اردو کے دامن میں نئے جواہرات پیدا ہوئے ۔ راقم الحروف نے خود فزکس ، کمیسٹری ، الجبرا، علم حیاتیات سبھی کچھ اردو میں پڑھا ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے اردو زبان کو علمی اور سائنسی زبان بنادیا ۔ ابھی سارے ملک میں اردو کا کل و گیسو کی شاعری کر رہی تھی کہ عثمانیہ یونیورسٹی نے ارود زبان کو عصری اور ترقی یافتہ زبان بنادیا ۔ اردو کے لئے ایسی گراں قدر خدمات کسی اور نے انجام نہیں دیں۔ یونیورسٹی کے تراجم خاص طور پر اصطلاحات کے ترجمے اردو دنیا میں عام ہوتے گئے ۔ پڑوسی ملک پاکستان میں آج اردو زبان کی ترقی کے جو دعوے کئے جاتے ہیں ، ان کی بنیاد بھی جامعہ عثمانیہ ہی کے تراجم نے رکھی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اسی بنیاد پر خود ہمارے ملک میں دوسری زبانوں کے تراجم کو اہمیت دی جانے لگی۔ اس طرح سے عثمانیہ یونیورسٹی ایک رجحان ساز یا Trend Setter درسگاہ بن گئی ۔ کوئی زبان محض شعری یا ادبی زبان بن کر آج کے مسابقتی دور میں زندہ نہیں رہ سکتی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے کارناموں نے ثابت کردیا کہ ادارے اپنے وجود کو اپنی محنت اور کد و کاوش سے کس طرح زندہ رکھ سکتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عثمانیہ یونیور سٹی صرف ایک درسگاہ  ہی نہیں ہے اور نہ کبھی تھی بلکہ اس کو ذہن سازی کا مرکز بنادیا ۔ اردو میڈیم میں تعلیم کا بیڑا اٹھانا جوئے شیر لانے کے برابر تھا ۔ نہایت نامساعد حالات میں یہ کام ماور جامعہ نے انجام دیا ۔ اہل اردو کبھی یہ فراموش نہیں کرسکیں گے کہ انہوں نے کبھی اپنی مادری زبان میں مختلف علوم و فنون سیکھے ، اگر آج اردو کی زبوں حالی کا افسوس کیا جاتا ہے تو خود ہم اردو والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس بیچارگی کی کیفیت اپنی زبان سے ہماری پیدا کردہ دوری کا لازمی نتیجہ ہے ۔ ہم ان لوگوں میں شمار کئے جاسکتے ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان کو ہی فراموش کردیا ۔ زبانیں محض حکومتوں کی سرپرستی ہی سے زندہ و پائندہ نہیں رہتیں اس کے لئے زبان بولنے وا لوں کے بھی فرائض ہوتے ہیں۔ اپنی زبان کو زندہ رکھنے کیلئے ہمیں اپنے عزم کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا ۔ آج مادر جامعہ عثمانیہ کی صد سالہ تقاریب کے موقع پر اگر وہ تمام لوگ جس کی مادری زبان اردو ہے ، یہ مصمم ارادہ کرلیں کہ ہم اردو سیکھیں گے ، پڑھیں گے

اور پڑھائیں گے تو یہی عثمانیہ یونیورسٹی کے لئے سب سے بہتر خراج ہوگا ۔ زبانیں صرف مدارس ، کالجوں میں ہی نہیں سیکھی جاتیں ان کی درس و تدریس گھروں پر بھی ہوسکتی ہے۔ آج کے تعلیمی ادارے اگر اردو نہیں پڑھاتے ہیں تو کیا ہوا ہم اپنی نئی نسل کو اپنے گھروں میں تو اردو سکھاسکتے ہیں۔ نئی نسل تو اس بات سے بھی واقف نہیں ہے کہ آج جس عثمانیہ یونیورسٹی کی ڈگریاں حاصل کی جاتی ہیں ، وہ بنیادی طور پر اردو ذریعہ تعلیم والی یونیورسٹی تھی ۔ اس نے دنیا کو بتادیا تھا کہ ہماری زبان کسی چیز کی محتاج نہیں ہے  ۔ اس میں وہ لچک پذیری اور وہ وسعت بلکہ اس میں عصر حا ضر کے تمام علوم پڑھائے جاسکتے ہیں۔ یہ بات ثابت کرنے کیلئے یہ کہنا کافی ہوگا جب 100 سال پہلے ہم کامیاب تجربہ کرچکے ہیں تو آج کیوںنہیں کرسکتے ۔ جامعہ عثمانیہ سے فارغ ہونے والے لاکھوں فرزندان آج اقطائے عالم میں پائے جاتے ہیں۔ دنیا ان کی صلاحیتوں کی معترف ہے ۔ انہوں نے ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑی ہے ۔ یہ سلسلہ 10 سال سے جاری ہے ۔ زمانہ قدیم میں جامعہ عثمانیہ کے طلبہ نے اپنا لوہا منوایا تھا، آج بھی اس کے سپوت دنیا کے گوشے گوشے میں پائے جاتے ہیں۔ عزت اور توقیر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنی ساکھ اپنا دبدبہ ہمیشہ قائم رکھا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیاد اخلاص نیت پر رکھی گئی تھی۔ یونیورسٹی کا ایک برا کارنامہ یہ ہے کہ اس کی بدولت تعلیم ہر خاص و عام کیلئے ہوگئی ۔ عام آدمی یونیورسٹی کی سطح تک آسانی سے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ اس لئے ممکن ہوسکا کہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد سب کے لئے تعلیم کا حصول عام ہوگیا ۔ ہر کوئی علم کی دولت حاصل کرسکا۔ عثمانیہ یونیورسٹی نے تعلیم کو عام کرنے میں عظیم الشان رول ادا کیا ہے ۔ تعلیم کو فیض عام بنانے کا سہرا اسی یونیورسٹی کے سر جاتا ہے ۔ ہم نے ایک اختراع کی تھی۔ اردو میں تعلیم دینے کا  آغاز ہماری یونیورسٹی ہی نے کیا تھا ۔ ہم ہر زمانہ میں رول ماڈل بنے رہے اور آئندہ بھی بنے رہیں گے ۔ علم و تاریخ و تہذیب کی مشعلیں اسی طرح سے اپنے لہو سے جلاتے رہیں گے تاکہ ہماری آ:ندہ کی نسلیں عثمانیہ یونیورسٹی کی اگلی صدیاں اسی جوش و خروش کے ساتھ مناتی رہی ۔ یہ کارواں علم و فن اس طرح سے چلتا رہے اور اس سے فارغ ہونے والوں کے مقدر سنورتے رہے۔