عثمانیہ یونیورسٹی صدی تقاریب اور حکمراں کا رویہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
حیدرآباد کا تاریخی اور قدیم تعلیمی مرکز جامعہ عثمانیہ جس نے بڑے مایہ ناز اور لائق طلبہ پیدا کئے۔ آج ان کا مادر علمی 100 سال کی صدی پوری کرتے ہوئے اپنے طلباء سے اپنا حق مانگ رہی ہے۔ ایسے کتنے قدیم طلبہ ہیں جو آج اپنی مادرِ علمی کا یہ حق ادا کررہے ہیں ۔ صدی تقاریب منانے والے عثمانیہ یونیورسٹی کے ذمہ داروں نے اپنے حصہ کے طور پر اس عظیم تعلیمی مرکز کی تعلیمی سرگرمیوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی ہے لیکن جو خامیاں رہ گئیں ہیں اس کی نشاندہی خود صدی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے کی ہیں یعنی جامعات میں بنیادی ریسرچ تحقیق اور اختراعی اقدامات پر توجہ نہیں دی جارہی ہے، تعلیم اور سائینس میں شاندار مظاہرہ کو یقینی بنانے کا فقدان پایا جاتا ہے، ان کی بات درست ہے۔کیونکہ اس قدیم تاریخی جامعہ کو آج کے عصری تعلیمی تقاضوں سے آراستہ کرنے میں ہونے والی کوتاہیوں کے پیچھے  آندھرائی حکمرانوں کی تعصب پسندی اور نااہلی کار فرما تھی۔ متحدہ آندھرا پردیش میں کانگریس اور تلگودیشم حکومتوں نے بھی اس یونیورسٹی کی افادیت کو نظر انداز کردیا تھا۔ حالانکہ اس یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے عثمانین چیف منسٹرس میں پی وی نرسمہا راؤ، چنار یڈی اور دیگرشامل رہے ہیں۔ تلگودیشم دور حکومت میں چیف منسٹر کی حیثیت سے این ٹی راما راؤ اور چندرا بابو نائیڈو نے عثمانیہ یونیورسٹی کیلئے کچھ نہیں کیا تو اب تلنگانہ بننے کے بعد علحدہ ریاست تحریک کیلئے اس یونیورسٹی سے استفادہ کرنے والے چیف منسٹر نے بھی اسے بری طرح نظرانداز کردیا۔ حالیہ برسوں میں اس جامعہ کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے اور اسے عصری تعلیمی تحقیقی، اختراعی و سائینسی اعلیٰ مرکز بنانے کی فکر صحیح کے ساتھ جامع پالیسی سازی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ صدر جمہوریہ نے نہ صرف جامعہ عثمانیہ کا ذکر کیا بلکہ ہندوستان میں تقریباً 1600 سال سے جاری تعلیمی کاوشوں کا بھی تذکرہ کیا کیونکہ ہندوستان نے عثمانیہ یونیورسٹی کی توسط سے عالمی برادری میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔ اب ملک بھر میں وجود میں آنے والی 757 یونیورسٹیوں میں 16 آئی آئی ٹیز، 30 این آئی ٹیز، آئی آئی ٹی ٹی ایس ای آر ایز قائم ہیں مگر ان میں صرف چند ہی تعلیمی میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کرچکے ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کو حالیہ برسوں میں تعلیم سے زائد تحریکوں کا مرکز بنادیا گیا۔
آپ سب ہی جانتے ہیں کہ 1969ء سے عثمانیہ یونیورسٹی تلنگانہ تحریک کا مرکز بنی رہی، بعد کے برسوں میں اگرچیکہ یہاں تحریکوں نے خاموشی اختیار کی تھی اس دوران یونیورسٹی کو تعلیمی شعبوں میں خاص کر عصری، سائینسی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں حکمرانوں نے دیانتدارانہ مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن2009 کے بعد سے یہ یونیورسٹی پھر ایک بار تلنگانہ تحریک کا مرکز بن گئی اور بالآخر جون 2014 میں تحریک کا خواب پورا ہوا۔ جامعہ عثمانیہ کی صدی تقاریب کے ساتھ مرکز کا رویہ افسوسناک دکھائی دیا ہے۔ اس یادگار صدی تقاریب کے انعقاد میں بعض کوتاہیوں کی نشاندہی کی جائے تو ایک کوتاہی کو ہر کسی نے نوٹ کیا ہوگا کہ اس موقع پر صدی یادگاری اسٹامپ جاری نہیں کیا گیا۔ ماضی میں دیگر کئی یونیورسٹیوں کی صدی تقاریب کو شاندار طریقہ سے مناتے ہوئے یادگاری اسٹامپس بھی جاری کئے جاچکے ہیں۔ جب بامبے یونیورسٹی، مدراس یونیورسٹی اور کلکتہ یونیورسٹی اپنی صدی کو پہنچیں تو یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔ ایسا بھی نہیں کہ جامعہ عثمانیہ صدی تقریب کے آرگنائزرس نے اس سلسلہ میں کوشش نہیں کی ہو۔ یونیورسٹی کے اتھاریٹیز نے جب محکمہ ڈاک سے اس مسئلہ کو رجوع کیا تو اس درخواست کو مرکزی حکومت کے پاس روانہ کردیا گیا، لیکن دہلی میں مودی حکومت اور ان کے حواریوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کی صدی تقریب کو نظرانداز کردیا۔ جب بنارس یونیورسٹی 100 برس کی ہوئی تو وائس چانسلر کی درخواست پر وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف وزارت فینانس کو تمام انتظامات کرنے کی ہدایت دی بلکہ محکمہ ڈاک کو بھی حکم دیا کہ وہ اس موقع پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کرے۔ ملک کی قدیم جامعات میں سب سے بڑی عظمت رکھنے والی اس یونیورسٹی کو سرکاری سطح پر نظرانداز کردینا افسوسناک ہے۔ جس یونیورسٹی کو صرف اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے والی حکومت نے ہی نظرانداز کردیا ہو اور وہ اپنی 16ویں یوم تاسیس کو دھوم دھام سے منارہی ہے تو اس حکمراں کی آخر بات کہاں ختم ہوگی۔ ایک انقلاب آفریں تعلیمی مرکز کی اہمیت سے انکار کرنے والوں نے اس کے حق میں کچھ حرکت نہیں کی تو اس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تیرتی موجوں میں اضطراب پیدا ہونا ضروری تھا۔
ماضی میں اس جامعہ کو اپنی صلاحیتوں اور کوششوں سے جن شخصیتوں نے عظمت بخشی تھی ان میں وائس چانسلر کا رول اہم رہا ہے۔ جن وائس چانسلرس نے یونیورسٹی کی تاریخ کے مشکل دور میں کام کیا ان میں نواب علی یاور جنگ بہادر کا نام بھی قابل ذکر ہے جنہوں نے1948ء تا 1958 خدمات انجام دیں۔ یہ وہ دور تھا جب حیدرآباد اسٹیٹ انڈین یونین میں ضم ہوا تھا۔ سوری بھگونتم نے سال 1952 تا 1957 تک خدمات انجام دیں اور بحیثیت وائس چانسلر یونیورسٹی کو ایک نیا ویژن عطا کیا۔ سائینسی تعلیم اور ریسرچ میں یونیورسٹی کو فروغ دے کر ہمہ جہتی ترقی دی۔ ڈی ایس ریڈی، آر ستیہ نارائنا، پی جگن موہن ریڈی، جی رام ریڈی کی بھی بحیثیت وائس چانسلر خدمات قابل ذکر رہی ہیں۔ جناب سید ہاشم علی نے سال 1982 تا 1985 وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ آئی اے ایس آفیسر کی خوبیوں نے یونیورسٹی کی کارکردگی کو موثر بنانے کا کام کیا۔ ان کے دور میں یونیورسٹی کیمپس کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کو معیاری بنایا گیا۔ ان کے بعد ٹی نونیت راؤ، ایم ملا ریڈی، وی رما کشٹیا اور ڈی سی ریڈی کے دور میں پی جی کورسیس میں سیمسٹر سسٹم کو متعارف کروایا گیا۔ محمد سلیمان صدیقی کے دور میں یونیورسٹی کے اندر پہلی مرتبہ صنعتی مرکز قائم کیا گیا جس میں منفرد کورسیس بھی شروع کئے گئے تھے۔ ان کے دور میں صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے یونیورسٹی کے 77 ویں کانوکیشن میں شرکت کی تھی، اب صدی تقاریب کے انعقاد کے دوران صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے جن ضرورتوں اور تعلیمی فروغ کی جانب توجہ دلائی ہے اس پر عمل کرنا تلنگانہ حکومت اور یونیورسٹی کے تعلیمی ذمہ داروں کا کام ہے۔
اس تقریب سے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی بے اعتنائی واضح دکھائی دی۔ طلباء کے خوف سے انہوں نے تلنگانہ تحریک کے اس اہم مرکز سے طلباء کا سامنا کرنے سے راہ فرار اختیار کی۔ طلباء کی ناراضگی کو دور کرنے کیلئے چیف منسٹر کو یہ بہترین موقع نصیب ہوا تھا اور اگر وہ طلباء سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے دوران طلباء کی قربانیوں کو خراج پیش کرکے روزگار اور مراعات کا اعلان کرتے تو شاید طلباء برادری کی ناراضگی دور ہوتی۔ چیف منسٹر نے تقریر نہیں کی تو گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے بھی تقریب سے فوری رخصتی کو ترجیح دی۔ یہ صد سالہ تقریب افسوسناک طور پر صرف 40 منٹ میں ہی ختم کردی گئی۔ جس یونیورسٹی کا قیام اردو زبان کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا آج اردو دشمن عناصر نے اس زبان کو یکسر نظر انداز کردیا۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو کا ناطہ توڑنے کا عمل تو سقوط حیدرآباد کے بعد سے ہی ہوا تھا۔ اب صدی تقریب کے منتظمین نے بھی اردو سے اپنی دشمنی کا واضح مظاہرہ کیا۔جامعہ عثمانیہ کی متمول میراث کا جنازہ اٹھانے والوں نے اس عدم رواداری کے دور کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ شہر حیدرآباد اور ہندوستان، بیرون ہند مقیم لاکھوں عثمانین کے دل پر یہ گراں گزرنی چاہیئے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش میں مصروف ٹولوں نے اپنے نشانہ پر رکھا ہے۔ اس یونیورسٹی کی عظمت رفتہ سے وابستہ طلباء کی بڑی تعداد آج بھی موجود ہے ان میں انقلابی شاعر غدر، وراورا راؤ، سیتا رام یچوری قابل ذکر ہیں۔ قدیم عثمانین راج بہادر گوڑ، عالم خوندمیری اور مخدوم محی الدین کا دور کامریڈوں کا دور تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا احاطہ تحریکوں اور انقلابی سرگرمیوں کی شہادت دیتا ہے، آج یہ تمام جذبہ مفقود دکھائی دے رہا ہے۔
kbaig92@gmail.com