(عام انتخابات 2019ء) میڈیا کوآرڈینیشن و مانیٹرنگ کمیٹی

رکن مسٹر ٹی وی کے ریڈی آئی آئی ایس سے بات چیت

باقر مرزا آئی آئی ایس (ریٹائرڈ)
موسم کی گرمی کے ساتھ ساتھ لوک سبھا چناؤ 2019ء کی گرمی بھی زوروں پر ہے۔ کئی ریاستوں میں نامزدگیوں کا ادخال آخری تاریخوں میں تو کہیں اس کا ابھی ابھی آغاز ہوا ہے۔ ہندوستان چونکہ ایک وسیع و عریض ملک ہے اور جہاں کی بڑھتی آبادی کے پیش نظر الیکشن کمیشن آف انڈیا مرحلہ واری اساس پر پولنگ کا انتظام کرتی ہے۔ دو تین مرحلوں سے شروع ہوکر اب رائے دہی سات مرحلوں میں ہونے والی ہے۔ اس مضمون میں انتخابی عمل پر روشنی ڈالنا ہی ہمارا مقصد ہے۔ یہاں پر ہم انتخابات میں میڈیا کے رول اور میڈیا کوریج پر نظر رکھنے کی ذمہ دار میڈیا سرٹیفکیشن اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی (ایم سی ایم سی) کے بارے میں کچھ جانکاری دیں گے۔ جمہوری انتخابات کے آزادانہ و منصفانہ انعقاد کے لئے ماس میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ آزادانہ و منصفانہ چناؤ کا مطلب صرف ووٹ ڈالنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور انتخابی عمل کی مکمل جانکاری بھی رائے دہندوں کے لئے ضروری ہے۔ انتخابی عمل کے دوران رائے دہندہ کو پارٹی امیدوار کے پس منظر، سیاسی جماعت جس کے بیانر پر وہ انتخاب لڑ رہا ہے ، اس کی پالیسی کے بارے میں بھی ضروری معلومات بہم پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔ یہیں ہر میڈیا کا رول اہم ہوجاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار، رائے دہندوں تک پہنچنے کے لئے میڈیا کے استعمال کا حق رکھتے ہیں اور میڈیا انتخابات میں عوام کی شراکت کو یقینی بنانے کا ضامن ہوتا ہے۔ میڈیا کی ذمہ داری صرف حکومت کی کارکردگی سے متعلق معلومات بہم پہنچانے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ انتخابی مہم کی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ، مباحثوں و مذاکروں کے ذریعہ سیاسی جماعتوں کے لئے ایک پلیٹ فارم کا کام بھی سر انجام دیتا ہے۔ رائے دہی اور رائے شماری کے عمل پر نظررکھنا ہی میڈیا کے فرائض میں شامل ہے تاکہ حقیقی معنوں میں آزادانہ و منصفانہ چناؤ کے بعد ایک نمائندہ حکومت تشکیل پاسکے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابلاغ عامہ (ماس میڈیا) کے اس دور میں میڈیا سیاسی ایجنڈہ طئے کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ میڈیا بعض صورتوں میں انتخابی عمل کے دوران منفی کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ جانبدار میڈیا کارپوریٹ شعبوں کی شاید اور حکومت کے بے وجہ پروپگنڈہ کے ذریعہ اور بنیادی جمہوری اصولوں مثلاً آزادی تقریر و تحریر کا غلط استعمال کرتے ہوئے انتخابی عمل کو منفی سمت بھی دے سکتا ہے۔ آزادانہ و منصفانہ انتخابی عمل کے مغائر ہوتا ہے۔ موجودہ چناؤ کے دوران میڈیا کے تعلق سے نت نئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں لیکن ان کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق کے لئے کوئی پیمانے نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن جہاں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی مہم پر کڑی نگرانی رکھی ہے۔ وہیں میڈیا کوریج کو انتخابی قواعد کا پابند بنائے رکھنے کے بھی اقدامات سر انجام دیتا ہے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کی نگرانی کے لئے جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے کمیشن کی اعانت کرتے ہیں، وہیں میڈیا کی کارکردگی پر نظر رکھنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ اسے میڈیا سرٹیفکیشن و مانیٹرنگ کمیٹی کہا جاتا ہے۔
سردست اس طرح کی تین کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ ایک ریاستی سطح کی کمیٹی جو ایڈیشنل چیف الیکٹورل آفیسر کی سرکردگی میں قائم ہے جو پیڈ نیوز سے متعلق امور کا جائزہ لیتی ہے اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا پر سیاسی نوعیت کے اشتہارات کا سرٹیفکیشن کرتی ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے مطابق کسی بھی میڈیا میں ایسی کوئی بھی خبر یا تجزیہ جو رقمی معاملت کے ساتھ یا تحفہ تحائف کی غرض سے شائع یا نشر کیا جائے پیڈ نیوز کے دائرہ میں آتا ہے۔ مذکورہ میڈیا مانیٹرنگ کمیٹی مشتبہ پیڈ نیوز کو امیدوار کے اخراجات میں شامل کرے گی جس کی ایک نقل انتخابی مبصر برائے تصرف کو روانہ کی جائے گی۔ اس کے لئے اخراجات کا تعین ریاستی محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ یا مرکزی ادارہ ڈی اے ڈی ہی کے شرح کے مطابق ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی کمیٹی الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا پر جاری اشتہارات کا جائزہ لے گی کہ آیا یہ ایم سی ایم سی کے سرٹیفکیس کے بعد جاری کئے گئے ہیں۔ اس میں ایسی تشہیر یا اپیل کے اخراجات بھی شامل ہوں گے جو امیدوار کی جانب سے یا امیدوار یا سیاسی پارٹی کیلئے کسی بھی فرد یا ادارہ کی جانب سے جاری کئے گئے ہوں۔ مسٹر ٹی وی کے ریڈی نے مزید بتایا کہ کمیٹی اس بات کی بھی طمانیت حاصل کرے گی کہ کوئی بھی تشہیری مواد، رنگ و نسل، ذات پات، مذہب کے اساس پر نہ ہو اور دستور ہند میں درج نکات کے مغائر نہ ہو۔ کمیٹی کیلئے ضروری ہے، وہ اپنے کسی بھی فیصلے سے امیدوار کو درخواست داخل کرنے کے اندرون 24 گھنٹے مطلع کرے۔ اس طرح ضلع واری سطح پر بھی اس طرح کی کمیٹیاں قائم ہیں۔ ریاستی سطح کی کمیٹی سیاسی جماعتوں سے متعلق امور پر نظر رکھتی ہے۔ جبکہ ضلع واری سطح کی کمیٹیاں امیدواروں سے متعلق مندرجہ بالا اُمور کا جائزہ لیتی ہیں۔ ان دو کمیٹیوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل سیاسی سطح کی ایپلیٹ کمیٹی میں پیش کی جاسکتی ہے۔ یہ اپیلیٹ (Appellate) کمیٹی چیف الیکٹورل آفیسر کی سرکردگی میں کام کرتی ہے۔ ان کمیٹیوں میں مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کا ایک عہدیدار کوئی سینئر جرنلسٹ یا پریس کونسل آف انڈیا کا رکن بھی شامل ہوتا ہے۔ مسٹر ٹی وی کے ریڈی سرکاری میڈیا کے ایک اعلیٰ عہدیدار ہونے کے ساتھ ساتھ مسٹر ٹی وی کے ریڈی تلنگانہ اسمبلی انتخابات 2018ء اور 2014 کے اسمبلی و پارلیمانی چناؤ کے دوران بھی ان کمیٹیوں کے رکن رہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مسٹر ریڈی کو پچھلے انتخابات میں بیرون ریاست میں اپنا انتخابی مبصر مقرر کیا تھا۔ وہ چھتیس گڑھ کے بستر، ہریانہ کے روہتک، مہاراشٹرا کے رائے گڑھ، شرڈی اور ہزاری باغ حلقہ جات میں انتخابی مبصر تعینات کئے گئے تھے۔ مسٹر ریڈی اس وقت وزارت اطلاعات و نشریات تلنگانہ و آندھرا پردیش کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے کارگذار ہیں۔ دونوں ریاستوں کے میڈیا ادارے سنگما پریس انفارمیشن بیورو، ڈی اے وی پی، ڈائریکٹوریٹ آف فلڈ بلیٹن رجسٹرار نیوز پیپر آف انڈیا سانگ اینڈ ڈرامہ ڈیویژن ان کے تحت ہیں۔ وہ مرکزی حکومت کے جوائنٹ سیکریٹری پیانل میں بھی شامل ہیں۔
وزارت اطلاعات و نشریات کے ایک سینئر عہدیدار اور میڈیا امور کا وسیع تجربہ کے ساتھ وہ ایم سی ایم سی میں ایک منصفانہ اور ذمہ