عام انتخابات کا پوسٹ مارٹم ‘ کئی حلقوں میں پولنگ سے زیادہ ووٹوں کی گنتی

الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلسل خاموشی ۔ کمیشن کو جواب دینا چاہئے ۔ کئی سابق کمشنران کا تاثر
حیدرآباد۔28مئی (سیا ست نیوز ) ملک میں عام انتخابات کے نتائج کا مختلف میڈیا ادارو ںکی جانب سے پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے اور نتائج کا جائزہ لینے کے بعد تحقیقی رپورٹس بھی شائع کی جانے لگی ہیں اس کے باوجود اب تک کوئی بھی الیکشن کمیشن کے ذمہ داری کی جانب سے ان امور پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی ۔ گذشتہ یوم انگریزی کے ایک مؤخر روزنامہ کی ویب سائٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق جو منظر عام پر آئی ہے اس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ملک کی کئی سرکردہ اور اہم لوک سبھا نشستوں پر جتنے ووٹ استعمال کئے گئے اس سے کہیں زیادہ ووٹوں کو شمار کیا گیا ہے۔ انتخابی نتائج اور رائے شماری سے قبل الکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی منتقلی اور مشتبہ حرکتوں کے ویڈیوز منظر عام پر آنے لگے تھے لیکن رائے شماری کے فوری بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ رائے دہی سے زیادہ ووٹوں کی گنتی عمل میں لائی گئی ہے اور کئی مقامات پر اضافی ووٹوں کے معاملہ پر الیکشن کمیشن خاموش ہے ۔ تین سابقہ چیف الیکشن کمشنران نے رائے شماری میں ووٹنگ سے زیادہ ووٹ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر الیکشن کمیشن کو جواب دینا چاہئے ۔ بیگو سرائے ‘ جہاں آباداور پٹنہ صاحب جیسی اہم لوک سبھا نشستوں پر بھی اضافی ووٹ گنے گئے ہیں اور اس کی تحقیقات ضروری ہیں کیونکہ یہ شکایات صرف ان لوک سبھا نشستوں پر نہیں ہیں بلکہ ہریانہ ‘ اتر پردیش ‘ بہار کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستو ں سے بھی وصول ہورہی ہیں۔ سابق چیف الیکشن کمشنر مسٹر ایس وائی قریشی نے کہا کہ اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن کو وضاحت پیش کرنی چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو کوئی بھی یہ معاملہ کے ساتھ عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے تاکہ اس مسئلہ کے متعلق عوام کو حقائق کا علم ہوسکے۔ انہوں نے بتایاکہ رائے دہی کے نمبر اور نتائج کے وقت جاری کئے جانے والے اعداد و شمار میں فرق ممکن ہیں لیکن اب جو فرق دکھا یا جا رہاہے وہ کافی زیادہ ہے ۔ سابق چیف الیکشن کمیشن گوپال سوامی نے بتایا کہ ایک حلقہ میں 1000تا2000 ووٹ کا فرق قابل قبول ہے کیونکہ پوسٹل بیالٹ ہوا کرتے ہیں لیکن جو فرق اس مرتبہ دکھایا جا رہاہے وہ امیدواروں کی شکست اور کامیابی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔انہو ںنے بتایا کہ فارم 17-A میں درج اعداد و شمار میں تبدیلی کی جاتی ہے تو یہ قابل سزاء جرم ہے اور اگر اس فارم کے اعتبار سے رائے شماری کے ووٹ نہیں ہوتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو جوابدہ بنانا ناگزیر ہے۔مسٹر ایچ ایس برہما جو کہ 2015 میں الیکشن کمیشن کے اعلی عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں نے کہا کہ رائے شماری کے دوران ریکارڈ کئے گئے اضافہ کی تحقیقات کی جانی چاہئے اور الیکشن کمیشن کو اس کا جواب دینا چاہئے کہ رائے دہی کے بعد کس طرح سے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔مذکورہ خبر میں بہار کے علاوہ ملک کی کئی ریاستوں کے مختلف حلقہ جات کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جہاں رائے دہی کے اعداد و شمار کے علاوہ رائے شماری کے اعداد و شمار میں کافی فرق ریکارڈ کیا گیا ہے۔