عام انتخابات سے قبل کے سی آر کا قومی ایجنڈہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
جنوبی ہند میں داخل ہونے کے لئے کرناٹک کو گیٹ وے آف ساؤتھ بنانے کی فراق میں مصروف بی جے پی کے تلنگانہ قائدین کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ کو پڑوسی ریاست کی سیاسی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کا مطالعہ اور اس کے سنگین نتائج سے واقفیت اور انجام کار پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تو تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کے خواب کے ساتھ بس یاترا نکالنے والی کانگریس کو کرناٹک انتخابی نتائج نے شدید دھکہ پہنچایا ہے۔ تلنگانہ بی جے پی صدر کے لکشمن نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ اب ان کی پارٹی تلنگانہ میں کامیابی حاصل کرے گی۔ کرناٹک کے عوام نے بی جے پی کی ترقیاتی پالیسیوں سے متاثر ہوکر ہی ووٹ دیا ہے تو تلنگانہ کے عوام بھی ٹی آر ایس کی ناکام حکمرانی سے بیزار ہوچکے ہیں اس لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کا انتظار کررہے ہیں۔ تلنگانہ بی جے پی قائدین کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ تلنگانہ کے عوام بھی پڑوسی ریاست کرناٹک کے رائے دہندوں کے نقش قدم پر چل کر نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کریں گے۔ ایسے میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا وفاقی محاذ کا منصوبہ اپنی آب و تاب کے ساتھ کچھ رنگ لاتا ہے تو پھر بی جے پی کے قدم ڈگمگائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کانگریس کے بغیر کوئی بھی سیکولر محاذ کامیاب ہوپائے گا جبکہ کے سی آر نے تو غیر بی جے پی اور غیر کانگریس پارٹیوں کا محاذ بنانے کی مہم شروع کی ہے۔ ان کی یہ کوشش اگر واقعی دیگر ہم خیال پارٹیوں کی ایک بڑی سیاسی طاقت بن جائے تو وہ ازخود قومی پارٹیوں کی مضبوط قلعہ کو مسمار کرنے میں کامیاب ہوں گی لیکن سال 2019 ء تک کے سی آر اپنے ایجنڈہ کو بروئے کار لاسکیں گے۔ یہ رونما ہونے والے سیاسی حالات پر منحصر ہے کیوں کہ اب تک کسی بھی علاقائی پارٹی نے کے سی آر کے عزم کو تقویت دینے والا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ کرناٹک میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد بھی کے سی آر کا موقف تبدیل نہیں ہوا۔ کرناٹک کی منقسم رائے دہی نے علاقائی پارٹی جنتادل (ایس) کی طاقت کو بڑھادیا ہے۔ اس سے آج بڑی قومی پارٹیاں ایک علاقائی پارٹی کی منت سماجت کرتے ہوئے حکومت سازی کی جدوجہد کررہی ہیں یا سودے بازی پر اتر آئی ہیں۔ کرناٹک کے نتائج نے دیگر علاقائی سیاسی پارٹیوں کو خاص کر ٹی آر ایس سربراہ کو ایک سمت دکھائی ہے کہ اگر بی جے پی کو شکست دینا ہے تو عام انتخابات سے قبل ہی سیکولر پارٹیوں کا اتحاد بنانا چاہئے۔ جیسا کہ ترنمول کانگریس صدر چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے سابق صدر کانگریس سونیا گاندھی سے کہاکہ وہ مجوزہ فرنٹ میں کانگریس کو شامل کرنے کو یقینی بنائیں۔ اگر مجوزہ محاذ میں کانگریس کو شامل کیا جاتا ہے تو اس کے لئے کے سی آر تیار ہوں گے یا نہیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ آنے والے دنوں میں قومی سطح پر جو صورتحال پیدا ہوگی اس کا سامنا کرنے کے لئے علاقائی پارٹیوں کو ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا یہ اتحاد صرف ایک اتحاد نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس اتحاد کا ایک مقصد اور سیاسی عزم بھی ہونا چاہئے جس کے تحت فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنا اور ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے والی پالیسیاں بنانا۔ کے سی آر کو اپنی ریاست اور اپنی حکومت کی پالیسیوں پر ناز ہے اور وہ سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ تلنگانہ کی ترقی کو دیگر ریاستوں میں بھی ایک مثالی ترقی کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ان کی پالیسیوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر چیف منسٹر اپنی پالیسیوں اور اپنے سیاسی و قومی منصوبوں پر اتنے مضبوط پُرعزم ہیں تو انھیں غیر بی جے پی اور غیر کانگریس محاذ کو قائم کرنے سے پہلے یہ جائزہ لینا اور غور کرنا ہوگا کہ آیا وہ دو قومی پارٹیوں میں سے کسی ایک خاصکر کانگریس کے بغیر آگے بڑھ سکیں گے۔ اس مسئلہ پر غور کرنے تیار نظر نہیں آتے بلکہ انھیں محاذ تشکیل دینے کی بھی عجلت دکھائی نہیں دیتی لیکن تمام نظریں ان کے قومی سیاسی عزائم پر مرکوز ہیں اور یہ انتظار کیا جارہا ہے کہ آیا کے سی آر اپنے محاذ کو طاقتور بنانے کے لئے کانگریس کی جانب مائل ہوں گے۔ تلنگانہ کے کسانوں کے مسیحا ثابت ہونے کی کوشش کرنے والے کے سی آر نے ریاست بھر میں 800 کروڑ روپئے کے آبی بلوں کو منسوخ کردیا۔ کسانوں کے لئے اپنی حکومت کی فراخدلی کے مظاہرے کئے ہیں۔ ان اسکیمات سے تلنگانہ سے باہر کے عوام کو واقف کروانے کے لئے انھوں نے ملک کے ہر علاقہ کے اخبارات میں کروڑہا روپئے کے اشتہارات شائع کروائے۔ رعیتو بندھو اسکیم کی قومی سطح پر تشہیر کا مقصد یہی تھا کہ وہ ملک کے عوام کو بتاسکیں کہ قومی سیاست میں قدم رکھنے کا ذہن بناچکے ہیں۔ ریاست کے 58 لاکھ کسانوں کو فی ایکڑ 8000 روپئے کی سبسیڈی فراہم کرتے ہوئے 12000 کروڑ روپئے خرچ کررہے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کے سی آر قومی منظر نامہ پر اپنا نام تحریر کرانا چاہتے ہیں۔ رعیتو بندھو کو ایک انقلابی قومی اسکیم میں تبدیل کرکے کے سی آر ملک بھر کے کسانوں کے لیڈر بن کر مرکز میں وزارت عظمیٰ تک پہونچنا چاہتے ہیں۔ ان کا وفاقی محاذ کا جذبہ کوئی بچکانہ سوچ کا حصہ نہیں ہے بلکہ انھیں ملک کی پسماندگی کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ ملک میں کئی شعبے انحطاط کا شکار ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ ہی قومی سطح پر پائی جانے والی خرابیوں کو دور کرسکتے ہیں اور قومی حکمرانی میں انقلابی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ یہ کوئی سیاسی کھیل نہیں ہے جس میں 3 یا چار پارٹیوں کو لے کر اسٹیج کیا جائے بلکہ وہ اس اتحاد کے ذریعہ ہندوستانی سیاست میں معیاری تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ اور ایک خاص مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا قومی سیاسی ایجنڈہ بہت جلد سامنے آئے گا۔ ان کا یہ ایجنڈہ شیر مارکٹ کے حصص کی طرح نہیں ہے کہ ہر صبح شیرز مارکٹ کا اپ ڈیٹس دیکھا جائے۔ صبح، دوپہر اور شام کے کاروبار میں اچھال اور گراوٹ کو درج کیا جائے بلکہ آنے والے چند دنوں میں اپنے وسیع تر قومی ایجنڈہ کو عوام کے سامنے لائیں گے۔ اس کے بعد قومی سطح پر بحث شروع ہوجائے گی کہ تلنگانہ کا لیڈر قومی سیاست میں تہلکہ مچانا چاہتا ہے۔ کے سی آر یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کا یہ ایجنڈہ تنہا طور پر ان کا نہیں ہے اس میں سیاسی پارٹیوں کے بشمول مختلف گوشوں سے ملنے والے مشورے اور تجاویز بھی شامل ہوں گے۔ مگر چیف منسٹر واقعی قومی سیاست کے دلدادہ ہیں اور اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ قومی سطح کے سیاستداں کو کس طرح ہونا چاہئے۔ قومی سیاست کی دکان میں بھانت بھانت کے لیڈرس موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو چیف منسٹر کو قومی سطح پر جن جن معتبرین پر اعتماد ہے انھیں پرکھنا ہوگا۔ آپ کے علاقہ کی سیاست اور قومی سیاست میں فرق ہے۔ قومی سیاست کے کھیل میں شریک ہونے والے سیاسی لیڈر کو کوئی ایسی سنگین حرکت نہیں کرنی چاہئے جس کے سبب تماشہ بن جائیں۔ دور حاضر کی سیاست میں ڈرامے اور تماشے کرنے والے قومی قائدین بہت ہیں۔ ان کے سامنے کے سی آر قدم جمانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ یہ ان کی صلاحیتوں پر منحصر ہوگا۔ چیف منسٹر نے علاقائی سیاست سے نکل کر قومی سیاست کا مہنگا شوق پال لیا ہے تو پھر انھیں اس شوق کے ساتھ لگی ذمہ داریاں اور اس کے تقاضے بھی معلوم ہونے چاہئے۔ علاقائی لوگوں کو وعدہ کرکے دھوکہ دینا آسان سمجھنے والے لیڈر کو قومی سطح کے عوام کو سمجھنا مشکل ہوگا جو لوگ علاقائی سطح کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں انھیں قومی سطح کے لوگ سبق بھی سکھاتے ہیں۔