عامر خان کے بیان پر تنازعہ

عامر خان کے بیان پر تنازعہ
ملک میں عدم رواداری کے ماحول پر بحث کا جو سلسلہ چل پڑا ہے وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ جہاں ایک گوشے کی جانب سے عدم رواداری کے ماحول پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے وہیں دوسرے گوشہ کی جانب سے اس طرح کی فکر و تشویش کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں فلمی شخصیتوں کی جانب سے بھی عدم رواداری کے ماحول پر تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔ ان میں اب عامر خان بھی شامل ہوگئے ہیں۔ عامر خان نے ملک میں رواداری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان کی اہلیہ کرن راؤ نے تو ملک چھوڑدینے تک کی بات کہی تھی ۔ عامر کے اس بیان پر ان پر جوابی تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ یہ تنقیدیں وہی لوگ کر رہے ہیں جو ملک میں عدم رواداری کا ماحول ہونے کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ عامر خان فلمی دنیا کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی سنجیدگی اور بردباری کا سارا ملک اعتراف کرتا ہے ۔ عامر خان دوسری فلمی شخصیتوں کی طرح کبھی بھی تنازعات وغیرہ کا شکار نہیں رہے ۔ صاف ستھرا امیج رکھتے ہیں۔ ملک اور ملک کے عوام کو درپیش مسائل پر وہ نہ صرف تشویش رکھتے ہیں بلکہ انہیں حل کرنے کیلئے اپنی جانب سے حتی المقدور کوششیں بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹی وی چینل پر ستیہ میو جئیتے جیسا پروگرام پیش کرتے ہوئے ہندوستان اور ہندوستان کے عوام کو درپیش سنگین مسائل کو موثر انداز میں پیش کرنے کی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ انہوں نے ان مسائل کا حل ڈھونڈنے میں حکومت کی مدد کی ہے ۔ انہوں نے ہندوستانی شہریوں اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں اپنے طور پر بھی جو کچھ ممکن ہوسکتا ہے وہ کیا ہے ۔ وہ ہندوستان کے مقبول ترین فنکاروں کی صف اول میں شامل ہیں۔ وہ اپنی اس مقبولیت کو اپنے مفاد کیلئے نہیں بلکہ عوامی بہتری کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ سنجیدہ مزاجی اور برد باری کے ساتھ انہوں نے یہ مسائل اٹھائے تھے جن کے اثرات بھی ملک کے عوام کو دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر عامر خان ملک میں عدم رواداری کے ماحول پر کوئی تبصرہ کرتے ہیں تو اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت تھی ۔ لیکن ایسا کرنے کی بجائے ان پر انتہائی واہیات انداز میں تنقیدوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔
ہندوستانی فلمی صنعت کیلئے عامر خان کا جو رول رہا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ عامر خان نے بالی ووڈ میں اپنے طویل کیرئیر کو جس طرح سے بے داغ رکھا ہے اس کا بھی سب کو اعتراف ہے ۔ ماضی میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے عامر خان کی زبردست ستائش کی تھی ۔ جو کام حکومتوں کے کرنے کے تھے وہ کام عامر خان نے خود کئے ہیں اور ان کے کاموں سے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کے تئیں ان کی فکر و تشویش ظاہر ہوتی ہے اور یہ فکر و تشویش ان کے محب وطن اور سچے ہندوستانی ہونے کا عملی ثبوت ہے ۔ اس کے باوجودا ب ان کو کوئی سانپ کہنے لگا ہے تو کوئی انہیں پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے رہا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ملک کے ماحول کو پرسکون اور پرامن بنانے کا ذمہ رکھنے کے باوجود حکومت ‘ ایسی سنجیدہ تشویش رکھنے والوں سے تجاویز طلب کرنے اور حالات کو بہتر بنانے کی بجائے الٹا ان پر تنقیدیں کرتی اور طنز کرتی نظر آتی ہے ۔ نہ صرف حکومت بلکہ ملک میں منافرت کا ماحول پیدا کرنے کی ذمہ دار تنظیمیں اور شخصیتیں بھی اس ریمارک پر چراغ پا ہوگئی ہیںاور وہ عامر خان کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کر رہی ہیں جو کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ حکومت ایک طرف تو پارلیمنٹ میں عدم رواداری کے مسئلہ پر مباحث کیلئے تیار رہنے کا ادعا کرتی ہے تو پارلیمنٹ کے باہر ظاہر کی جانے والی تشویش کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ یہ حکومت کے موقف کا تضاد ہے جو واضح ہوگیا ہے ۔ حکومت کو اپنے موقف میںاس طرح کا تضاد ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
بعض گوشوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عامر خان کے ریمارکس یا پھر عدم رواداری پر دوسری گوشوں کی جانب سے ہونے والی تنقیدوں سے ملک کی رسوائی ہوگی ۔ یہ تنظیمیں یا افراد یا مفادات حاصلہ یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں جن واقعات پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے ملک کی اصل بدنامی تو ان واقعات کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔ دادری کے واقعہ پر جس طرح سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ہندوستان کے موجودہ ماحول پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اس سے ملک کی کتنی رسوائی ہوئی ہے اور بیرونی ممالک میںکس طرح کا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کوئی بھی ہندوستانی شہری اپنے وطن عزیز کی رسوائی گوارا نہیں کرتا ۔ عامر خان ہوں یا عدم رواداری پر تشویش ظاہر کرنے والی دوسری شخصیتیں ہوں وہ اسی لئے فکرمند ہیں کہ ایسے واقعات کا سلسلہ روکا جائے جن کی وجہ سے دنیا بھر میں ملک کی رسوائی ہورہی ہے ۔