عابی مکھنوی خودی کا راز…!

خودی کے راز کو میں نے بروزِ عید پایا جی
کہ جب میں نے کلیجی کو کلیجے سے لگایا جی
جوحصہ گائے سے آیا اُسے تقسیم کر ڈالا
جو بکرا میرے گھر میں تھا اُسے میں نے چُھپایا جی
فریج میں برف کا خانہ نہ ہوتا گر تو کیا ہوتا
دعائیں اُس کو دیتا ہوں کہ جس نے یہ بنایا جی
میں دستر خوان پر بیٹھا تو اُٹھنا ہو گیا مُشکل
کہ ہر بوٹی کو نگلا تھا بہت کم کو چبایا جی
بطور ِلُقمہ بوٹی سے میں روٹی کھا گیا درجن
کہ بانٹا میں نے کم کم تھا زیادہ کو پکایا جی
مرے معدے کے میداں میں عجب سی خون ریزی ہے
کہیں تکے اچھلتے ہیں کسی کونے میں پایا جی
خُدا کے فضل سے جاری ہے اب بھی گوشت کا سائیکل
کہ دو دن عید سے پہلے گذشتہ کا مُکایا جی
چلو عابیؔ کہو پھر سے قصائی کو خُدا حافظ
کہ پورے سال کا کوٹہ تمھارے پاس آیا جی
………………………
کدھر جائیں گے !
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں بیوی نے ستایا تو کدھر جائیں گے
عید کے دن نیا بکرا ہی سمجھ لیں گے اُنہیں
کھال قربانی کی لے کر وہ جدھر جائیں گے
’’رُخِ روشن سے نقاب اپنے اُلٹ دیکھو تم‘‘
جس قدر بکرے ہیں، نظروں سے اتر جائیں گے
گوشت کتنا ہے فریزر میں، دکھا تو دوں میں
’’پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے‘‘
لائے جو یار ہیں اِس بار بہت سے بکرے
اور اگر کچھ نہیں ’’اِک ران‘‘ تو دھر جائیں گے
………………………
کاش اس عید پر …!
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
اور کسی نے نہ سہی تُو نے تو مجھے پکڑا ہوتا
تو حنا لگے ہاتھوں سے مجھے گھانس کھلاتی
تھوڑی تھوڑی نہیں ساری اکٹھے کھلاتی
تو مجھے ’میں‘ ’میں‘ کر کے بلاتی
اور شام کو ساتھ گلی میں گھماتی
میرے پاس گاڑی نہ سہی چھکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
تو میری صحبت پر ناز کرتی
بلا ججھک مجھے آشنائے راز کرتی
اگر میرا رقیب تجھے چھیڑا کرتا
سینگ مارتا فوراً اُسے ٹکر کرتا
رات کو باہر سردی میں اکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
پھر عید پر ذبح ہو جاتا میں
تیری خاطر کٹ مر جاتا میں
تیری محبت نے کچھ اس طرح جکڑا ہوتا
کاش اس عید پر میں تیرا بکرا ہوتا
………………………
پاگل پن کی وجہ …!
٭  ڈاکٹر پاگل سے: تم پاگل کیوں ہوئے
پاگل: میں نے ایک بیوہ سے شادی کی… اس کی ایک جوان بیٹی سے میرے باپ نے شادی کی جس کے سبب
میرا باپ میرا داماد بن گیا
یوںمیری وہ بیٹی میری ماں بن گئی
ان کے گھر بیٹی ہوئی تو
وہ میری بہن ہوئی
مگر…میں اس کی نانی کا شوہر تھا
اس لیئے…وہ میر ی نواسی بھی ہوئی
اس طرح
میرا بیٹا اپنی دادی کا بھائی بن گیا
اور میں اپنے بیٹے کا بھانجا…!
اتنا سننا ہی تھا کہ ڈاکٹر نے اپنے بال نوچ لئے اور کہا… :
’’اُٹھ کمینے تو مجھے بھی پاگل کر دے گا‘‘
محمد رشید۔ بابانگر
………………………
دو دروازے…!
٭  ایک آدمی اپنے کسی دوست کی شادی پر گیا۔شادی والے گھر کے دو دروازے تھے ایک دروازے پر لکھا تھا کہ ’’رشتے دار‘‘اور دوسرے پر ’’دوست ‘‘ لکھا ہوا تھا۔وہ دوستوں والے دروازے میں داخل ہوا۔ آگے پھر دو دروازے تھے۔ایک پر ’’لیڈیز‘‘اور دوسرے پر ’’جینٹس ‘‘ لکھا تھا۔ وہ جینٹس والے دروازے میں داخل ہوا۔ وہ کیا دیکھتا ہے کہ آگے دو اور دروازے تھے۔ ایک پر ’’گفٹ والے ‘‘اور دوسرے پر ’’بغیر گفٹ والے ‘‘لکھا تھا۔ وہ بغیر گفٹ والے میں داخل ہو گیا۔ اُس نے دیکھا کہ وہ باہر گلی میں کھڑا تھا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………