عابد حسین

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
میںنے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن مجھ پر ایسا بُرا وقت آئے گا جب مجھے عابد بھائی کی یاد میں تعزیتی کالم لکھنے کے کرب سے گزرنا پڑے گا ۔ مانا کہ موت برحق ہے اور ہر ذی روح کو بالآخر موت کا مزہ چکھنا ہی ہے لیکن ڈاکٹر عابد حسین جیسی فعاّل ، سرگرم ، مصروف ، مستعد، چاق و چوبند، پھرتیلی اور متحرک شخصیت کے بارے میں کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ وہ مجھ سے پہلے اس دنیا سے گزر جائیں گے حالانکہ وہ مجھ سے عمر میں نو دس برس بڑے تھے لیکن بسا اوقات عملاً وہ مجھ سے دس بارہ برس چھوٹے دکھائی دیتے تھے ۔ 86 برس کی عمر میں ان میں جو جوش ، ولولہ، زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرنے کا جو جذبہ اور والہانہ پن تھا اسے دیکھ کر کسی کو یہ گمان بھی نہ ہوسکتا تھا کہ وہ یوں ہمیں اچانک چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔ زندگی کے ہر پل کا رس نچوڑنا اور اس سے بھرپور استفادہ کرنے کا گر انہیں خوب آتا تھا ۔ بہت پہلے میں نے کہیں لکھا تھا کہ زندگی گزارنے کیلئے صرف زندگی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایک زاویہ نگاہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ عابد حسین کے پاس وہ زاویہ نگاہ موجود تھا جس کے بل بوتے پر انہوں نے ایک نہایت کامیاب ، مصروف اور بھرپور زندگی گزاری ۔ ایسی زندگی اور ایسی لمبی عمر بہت کم کے حصہ میں آتی ہے ۔ میں نے انہیں جب بھی دیکھا مصروف اور مستعد ہی دیکھا ۔ جمعرات ، 21 جون کی وہ منحوس شام تھی جب میری نوجوانی کے دنوں کے دوست علی باقر مرحوم کی بہن اور عابد حسین کے چھوٹے بھائی تراب الحسن کی اہلیہ ، نسیمہ تراب الحسن کا فون آیا۔ کہنے لگیں’’مجتبیٰ بھائی ! آپ کو ایک بہت بڑی خبر سنانی ہے ، ابھی ا بھی اطلاع آئی ہے کہ لندن میں عابد بھائی کا انتقال ہوگیا‘‘۔ اس خبر کو سن کر مجھ پر کچھ ایسا سکتہ طاری ہوگیا کہ میں نے اُن کے انتقال کی تفصیلات تک دریافت نہیں کیں اور گم صم خاموش ہوگیا ۔ ایک لمبے عرصہ بعد پتہ چلا کہ اصل سکتہ کس کو کہتے ہیں اور اس کے طاری ہوجانے کے بعد انسان کے دل و دماغ پر کیا کیفیت گزرتی ہے ۔ واقعی میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ عابد بھائی میرے جیتے جی یوں اچانک گزرجائیں گے ۔ بھلا اتنا مصروف ، مستعد اور فعال آدمی بھی کہیں اتنی آسانی سے گزر جاتا ہے ؟

ڈاکٹر عابد حسین کا تعلق حیدرآباد کے ایک ذی علم گھرانہ سے تھا ۔ اُن کے والد غلام پنجتن سابق ریاست حیدرآباد میں سیشن جج تھے ۔ بے حد روشن خیال ، وسیع المشرب ، وسیع النظر ، شائستہ اور مہذب انسان تھے ۔ عابد حسین نے نظام کالج میں تعلیم حاصل کی اور بعد میں انڈین ایڈمنسٹریٹیو سرویس سے وابستہ ہوئے ۔ ریاست حیدرآباد اور آندھراپردیش میں وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ کئی اضلاع پر ڈپٹی کلکٹر اور کلکٹر کے فرائض انجام دینے کے علاوہ وہ انڈسٹریز  ڈپارٹمنٹ کے ڈائرکٹر بھی رہے ۔ بعد میں ان کی خدمات مرکزی حکومت کے حوالہ ہوئیں تو وہ وہاں بھی کئی اہم عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ بالآخر وزارت کامرس کے سکریٹری بھی بنے ۔ وہ منصوبہ بندی کمیشن کے رکن بھی رہے ۔ 90 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں انہیں امریکہ میں ہندوستان کا سفیر بھی بنایا گیا۔ اس زمانہ کے بین ا لاقوامی حالات کے پس منظر میں انہوں نے ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات کو بہتر اور مستحکم بنانے میں بھرپور حصہ ادا کیا اور ایک کامیاب سفیر بھی ثابت ہوئے ۔ عابد بھائی کے چھوٹے بھائیوں تراب الحسن آئی اے ایس (ریٹائرڈ) ، عسکری پنجتن اور مائم (Mime) کے بین الاقوامی آرٹسٹ ارشاد پنجتن سے میرے تعلقات اپنے قیام حیدرآباد کے زمانہ سے رہے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے میں نے ان مشہور و معروف بھائیوں کے درمیان بھائی چارے پن کے عنصر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ ان بھائیوں میں ’’برادرانہ‘‘ سے کہیں زیادہ ’دوستانہ‘ تعلقات پائے جاتے ہیں۔ حیدرآباد میں میرے قیام کے زمانہ میں عابد بھائی سے دو ایک بار سرسری ملاقاتیں ضرور ہوئیں لیکن 1972 ء میں میرے دہلی منتقل ہونے کے بعد ان سے میرے مراسم استوار ہوتے چلے گئے ۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنی شفقتوں اور محبتوں سے نوازا۔ 80 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ، میں دہلی دوردرشن سے ’’قہقہہ ‘‘ کے عنوان سے ایک پندرہ روزہ پروگرام لگاتار دو برسوں تک پیش کیا کرتا تھا ۔ میں نے اس پروگرام میں ملک کی بعض مشہور و معروف ہستیوں کو مدعو کیا تھا اور ان کی زندگی کے خوشگوار لمحوں اور واقعات کو اس پروگرام کا حصہ بنانے کی کوشش کی تھی ۔ چنانچہ اندر کمار گجرال ، خوشونت سنگھ ، ایم ایف حسین ، علی محمد خسرو ، ہاشم علی اختر ، خواجہ عبدالغفور وغیرہ کے علاوہ خود عابد بھائی کو بھی اس سلسلہ میں زحمت دی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے عابد بھائی کو اس پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے ہنس کر کہا تھا ’’بابوؔ ! (وہ مجھے ہمیشہ پیار سے خالص دکنی انداز میں ’بابو‘ کہہ کر بلاتے تھے) تو بڑا شریر ہے ۔ مزاحیہ پروگرام میں بلاکر مجھے بھی ارشاد پنجتن بنانا چاہتا ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’عابد بھائی ! مانا کہ ارشاد پنجتن کے پروگرام میں خموشی ہی اصل گفتگو ہوتی ہے ۔ جبکہ آپ کو اس پروگرام میں ان خوشگوار واقعات اور حالات کے بارے میں کچھ بولنا ہے جو آپ کی ملازمت کے دوران میں آپ کے ساتھ پیش آئے تھے ‘‘ ۔ بہرحال بڑی مشکل سے راضی ہوئے ۔ یوں بھی ان دنوں وہ حکومت ہند کے کامرس سکریٹری تھے اور ان کا شمار ملک کے سینئر ترین عہدیداروں میں ہوتا تھا ۔ غرض انہوں نے جب پروگرام میں شرکت کی تو پتہ چلا کہ زندہ دلی کس کو کہتے ہیں ۔ ایسے دلچسپ ، برجستہ اور بے ساختہ واقعات سنائے کہ محفل زعفران زار بن گئی ۔ بعد میں انہوں نے نہ صرف  اس پروگرام کو بصد اشتیاق دیکھا بلکہ اپنے احباب سے بھی اُس کا ذکر کیا ۔ مجھ سے ملاقات ہوئی تو بولے ’’بابو ! مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تو ہنسی مذاق کے معاملہ میں اتنا سنجیدہ انسان ہے ‘‘۔ وہ گفتگو کرنے کے ماہر تھے اور ایسی دلآویز گفتگو کرتے تھے کہ ، وہ کہے اور سناکرے کوئی ، والی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی ۔

80 اور 90 کے دہائیوں میں دہلی میں حیدرآباد کی تین ممتاز شخصیتوں کا ’’اکابرین ثلاثہ‘‘ کی حیثیت سے بڑا شہرہ تھا اور ان کا بول بالا تھا ۔ ہماری مراد ہے ڈاکٹر عابد حسین ، پروفیسر علی محمد خسرو اور پروفیسر رشیدالدین خان سے ۔ تینوں پکّے حیدرآبادی اور حیدرآبادی تہذیب کے روشن ستارے تھے ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ان تینوں سے ہمارے گہرے مراسم تھے اور تینوں ہمیں بے حد عزیز رکھتے تھے ۔ 1997 ء میں ہمیں حج کے موقع پر حکومت ہند کے سرکاری وفد کے رکن کی حیثیت سے سعودی عرب جانے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ پروفیسر علی محمد خسرو بھی اس وفد میں شامل تھے۔ پروفیسر علی محمد خسرو کو اس بات کا علم تھا کہ پروفیسر رشیدالدین خان کو بھی اس وفد کے رکن کی حیثیت سے نامزد کیا گیا تھا مگر وہ اپنی خرابی صحت کی بنا پر سعودی عرب نہ آسکے تھے ۔ حج کے بعد جب ہم لوگ مدینہ گئے تو یہ معمول سا تھا کہ میں اور پروفیسر علی محمد خسر و عصر کے وقت سے عشاء کے وقت تک مسجد نبوی میں ہی بیٹھا کرتے تھے اور اس عرصہ میں کچھ باتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ باتوں باتوں میں، میں نے پروفیسر رشیدالدین خان کا ذکر چھیڑ دیا تو پروفیسر خسرو نے کہا ’’کاش کہ آج رشید الدین خاں بھی ہمارے ساتھ سعودی عرب میں ہوتے ‘‘۔ اسے سن کر ہمارے برابر بیٹھے ہوئے ایک حیدرآبادی زائر نے ہمیں روک کر کہا ’’خصور ! میں ابھی آل انڈیا ریڈیو سے خبریں سن کر آرہا ہوں ۔ آپ جن رشید الدین خاں کا ذکر کر رہے ہیں، ان کی رحلت عمل میں آچکی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی پروفیسر علی محمد خسرو کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں ہوگئے۔ روتے روتے کہنے لگے ’’رشیدالدین خان کی مغفرت کیلئے یہ بات کافی ہے کہ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے اُن کا ذکر کر رہے ہیں اور انہیں یاد کر رہے ہیں‘‘۔ اتفاق سے ان اکابرین ثلاثہ میں گہرا یارانہ تھا اور وہ ایک دوسرے کو بہت چاہتے بھی تھے۔ افسوس کہ پہلے رشیدالدین خان گئے ، بعد میں علی محمد خسرو گئے اور اب عابد حسین بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
عابد حسین حکومت ہند کے سینئر ترین عہدیدار تھے مگر کبھی اپنے اطراف اپنی عہدیداری کے رعب و دبدبہ کی کیفیت کو طاری نہیں ہونے دیتے تھے ۔ وہ بے حد سادگی پسند ، منکسر المزاج اور حلیم الطبع انسان تھے ۔ مجھے ان کے ساتھ بیسیوں مرتبہ ’نرمان بھون‘ کی راہداریوں میں سے گزرنے کا موقع ملا ۔ جب چپراسی اور کلرک حضرات راستہ میں انہیں احتراماً سلام کرتے تو وہ حتی الامکان ان سب کے نام لے کر سلام کا جواب دیا کرتے تھے اور خیریت دریافت کرتے تھے ۔ میں نے مذاق میں ایک بار کہا تھا کہ عابد بھائی کا زیادہ تر وقت اپنے کام کو یاد کرنے میں نہیں گزرتا بلکہ اپنے ماتحتین کے ناموں کو یاد رکھنے میں گزر جاتا ہے ۔ میں نے ایک بار اپنی نوجوانی کے دوست پریم آنند کے کسی کام کے سلسلہ میں کوئی سفارش کی تو بجائے اس کے کہ اپنے ڈپٹی سکریٹری کو اپنے کمرہ میں طلب کرتے ، مجھے لے کر خود ڈپٹی سکریٹری کے کمرہ میں چلے گئے ۔ اُن کے اس طرز عمل اور حسن سلوک کا سارے دفتر میں نہ صرف چرچا تھا بلکہ ’رعب و دبدبہ‘ بھی تھا ۔ جگر مراد آبادی نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ جو دلوں کو فتح کرلے ، وہی فاتح زمانہ کہلائے جانے کا حق رکھتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1992 ء میں جب میری چھوٹی بیٹی نجیبہ کی شادی حیدر آباد میں ہوئی تو عابد بھائی نے اس میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود شرکت کی تھی اور جب پچھلے سال میری بڑی نواسی ڈاکٹر عائشہ جوہی کی شادی ہوئی تو اس میں بھی عابد بھائی نے اسی سرپرستانہ محبت اور مشفقانہ خلوص کے ساتھ شرکت کی تھی ۔ عابد بھائی کے اس ’خلوص جاریہ‘ کے تسلسل کو میں نے ہمیشہ ایک اعزاز کی طرح اپنے سینہ سے لگائے رکھا۔
عابد بھائی نے ہمیشہ مجھے دل و جان سے عزیز رکھا اور میری جاو بیجا ہر فرمائش کی تکمیل کی ۔ چنانچہ اسی سال 29 فروری کو جب حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ’’اردو زبان اور گنگا جمنی تہذ یب‘‘ کے موضوع پر ایک توسیعی لکچر کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو میں نے تجویز رکھی کہ کیوں نہ اس توسیعی لکچر کے لئے ڈاکٹر عابد حسین کو مدعو کیا جائے ۔ شعبہ اردو کے صدر پروفیسر بیگ احساس نے کہا ’’ڈاکٹر عابد حسین انگریزی زبان پر تو بڑی دسترس اور گہری قدرت رکھتے ہیں۔ پتہ نہیں اردو میں لکچر دینا پسند کریں یا نہ کریں۔ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عابد حسین جیسی بڑی شخصیت شعبہ اردو کے اس سیدھے سادے توسیعی لکچر میں آنا پسند کرے یا نہ کرے‘‘۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے بیگ احساس سے کہا تھا ’’پروفیسر صاحب ! آپ کی اس بات سے یوں لگتا ہے جیسے آپ ڈاکٹر عابد حسین کو تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ناچیز مجتبیٰ حسین کو بالکل نہیں جانتے ۔ آپ یہ کام خاکسار کے حوالہ کیجئے اور دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے‘‘۔ اس کے فوراً بعد میں نے دہلی میں ڈاکٹر عابد حسین کے پرائیوٹ سکریٹری مسٹر بہل کو فون کیا اور اپنا مدعا بیان کردیا ۔د وسرے ہی دن ڈاکٹر عابد حسین کا خود فون آیا کہنے لگے ’’میں پرسوں حیدرآباد آرہا ہوں۔ تم شام میں تراب الحسن کے گھر کھانے پر ملو۔ تاہم یہ ضرور کہوں گا کہ میں نے آج تک اردو میں کبھی تقریر نہیں کی ۔ لکچر دینا تو بڑی بات ہے۔ تم بڑے شریر ہو ۔ ہمیشہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا کردیتے ہو۔ بہرحال تم مل جاؤ تو سوچ لیتے ہیں‘‘۔ غرض عابد بھائی حیدرآباد آئے اور لگے اپنی مجبوریاں اور کوتاہیاں سنانے۔ اردو میں اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے سلسلہ میں ڈاکٹر عابد حسین نے جتنے استدلال پیش کئے ان کو مسترد کرنے کی خاطر میں نے وہ بے شمار اردو اشعار اُن کے گوش گزار کئے جنہیں خود ڈاکٹر عابد حسین نے اپنی مختلف نجی ملاقاتوں میں مجھے سنایا تھا ۔ میں نے اپنی منطق میں تڑکا لگانے کی خاطر اُن کے سنائے ہوئے چند فارسی اشعار بھی سنادیئے ۔ میں نے کہا ’’عابد بھائی ! جو آدمی عام بات چیت میں اتنی فصیح اور دلنشین زبان اردو شعروں کے حوالہ سے بول سکتا ہے اس کے لئے اردو میں توسیعی لکچر دینا کونسا مشکل کام ہے۔ مانا کہ آپ دریائے ٹیمز اور دریائے مسی سپی میں دُھلی ہوئی انگریزی زبان بولتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ آپ خود انجانے میں کوثر و تسنیم میںدُھلی ہوئی اردو زبان بھی بول لیتے ہیں۔ خدارا آپ مان جایئے ۔ پھر دیکھئے خدا کیا کرتا ہے‘‘۔ میرے اس مدلل استدلال کے بعد انہوں نے صرف ہتھیار ڈال دیئے بلکہ یوں کہیے کہ اردو میں توسیعی لکچر دینے کے ارادے سے الٹا ہتھیار اٹھا بھی لئے ۔

چنانچہ دس بارہ دن بعد جب یہ لکچر سالار جنگ میوزیم کے آڈی ٹوریم میں منعقد ہوا تو ہال خود ڈاکٹر عابد حسین اور اردو کے پرستاروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ اسٹیج پر پروفیسر بیگ احساس کے علاوہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر راما سوامی کرشنا سوامی بحیثیت صدر اجلاس موجود تھے ۔ البتہ مہمان خصوصی کی مسند پرمیرے زمانہ طالب علمی کے بے تکلف دوست اور منصوبہ بندی کمیشن میں ڈاکٹر عابد حسین کے دیرینہ رفیق کار پدم بھوشن سی ایچ ہنمنت راؤ (جو ان دنوں حیدرآباد یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں) براجمان تھے ۔ دوسری طرف میں ایک عام سامع کی طرح سامعین میں دم سادھے بیٹھا تھا کہ دیکھیں عابد بھائی کی اردو کیا رنگ لاتی ہے ۔ عابد بھائی پیدائشی مقرر تو تھے ہی ۔ اب جو انہوں نے اپنی سلیس اور شائستہ اردو میں محفل میں رنگ جمانا شروع کیا تو جماتے ہی چلے گئے ۔ لوگ عش عش کرتے رہے اور میرا منہ حیرت سے کُھلتا چلا گیا ۔ ایک سحر انگیز کیفیت سارے ماحول پر طاری تھی ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ عابد بھائی نے لگاتار سوا گھنٹہ تک اپنی دلنشین اردو میں تقریر کی اور انگریزی کا ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا ۔ میں نے اردو کے بعض اساتذہ کی تقریریں سنی ہیں جو اپنی اردو تقریر میں انگریزی اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال انہیں ایسی بے ساختہ داد ملی جو اردو کے کسی دانشور کو شاید ہی ملی ہو ۔ توسیعی لکچر کے بعد عابد حسین اپنے مداحوں میں ایسے گھر گئے کہ ان تک میرا پہنچنا مشکل ہوگیا ۔ نتیجہ میں لکچر کے بعد مجھے ان سے ملنے کی غرض سے بنجارہ ہلز میں ان کے بھائی تراب الحسن کے گھر جانا پڑا۔ جہاں وہ رات کے کھانے پر مدعو تھے ۔ میرے ساتھ پروفیسر بیگ احساس اور صائمہ بیگ بھی تھیں۔ بہت خوش تھے ۔ پروفیسر بیگ احساس سے کہا ’’بیگ صاحب ! اپ نے میری جھجھک دور کردی ۔ اب میں بھی بلا تکلف اردو میں تقریر کرسکتا ہوں‘‘۔ افسوس کہ حیدرآباد میں ان کا یہ آخری لکچر تھا اور ان سے میری شخصی ملاقات بھی آخری تھی ، تاہم اس عرصہ میں چار پانچ مرتبہ ان کا فون ضرور آیا ۔ ایک مرتبہ مجھ سے فرمائش کی کہ میں اپنی کتاب ’’امریکہ گھاس کاٹ رہا ہے‘‘ کا ایک نسخہ فوراً روانہ کردوں۔ میں نے فوراً حکم کی تعمیل کردی ۔ دوسری مرتبہ اطلاع دی کہ اب لکھنو اور کلکتہ سے بھی انہیں اردو میں لکچر دینے کیلئے مدعو کیا جارہا ہے ۔ میں نے کہا ’’عابد بھائی ! نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘ فوراً بولے ’’بابو ! تو بڑا شریر ہے ۔ مجھے ایک نئے جھمیلے میں پھنسا کے تماشہ دیکھ رہا ہے ‘‘۔
عابد بھائی زندگی بھر مثالی صحت کے حامل رہے ۔ لہذا چھیاسی برس کی طول العمری کے باوجود ہمیشہ بیماریوں سے دور اور زندگی سے قریب رہے ۔ نزلہ زکام ہوا ہو تو الگ بات ہے (حالانکہ ان دنوں تو مینڈکوں کو بھی زکام ہونے لگا ہے)، کسی قابل لحاظ یا قابل ذکر بیماری میں یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ جیتے جی عابد بھائی کے جسم پر حملہ کرسکے ۔ میں نے ایک بار ان کی مثالی صحت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عابد بھائی اتنا مصروف رہتے ہیں کہ انہیں بیمار پڑ نے کی فرصت اور فراغت تک نصیب نہیں ہوسکتی ۔ ہمارے اس مزاحیہ تبصرہ کی تصدیق ان کی بھتیجی اور تراب الحسن کی بیٹی ڈاکٹر عینی حسن نے بھی کی جو خود بھی حیدرآباد کی ایک معروف ڈاکٹر ہیں۔ غرض عابد بھائی نے جو بھرپور زندگی گزاری وہ ہر کس و ناکس کے حصہ میں نہیں آسکتی ۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ عابد بھائی کو جس طرح کی موت نصیب ہوئی ویسی پرسکون موت کسی اچھے سے اچھے عابد کے حصہ میں بھی نہیں آسکتی۔ ذرا سوچئے لندن گئے ، کانفرنس میں لکچر دیا، اپنے ہوٹل پر واپس آکر جو سوئے تو ایسے سوئے کہ ان کی یہ نیند بالآخر ابدی نیند ثابت ہوئی ۔ نہ کسی سے تیمارداری کروائی اور نہ کسی کو اپنا حال چال بتایا ۔ عابد بھائی کے انتقال کی خبر پڑھ کر میرے دوست پریم آنند نے پرسہ کا فون کیا ۔ اس کے فوراً بعد پدم بھوشن سی ایچ ہنمنت راؤ کا فون آیا ۔ کہنے لگے ’’مجتبیٰ ! چار مہینے پہلے میں نے سالار جنگ میوزیم میں عابد بھائی کو پہلی اور آخری بار اردو میں تقریر کرتے ہوئے سنا تھا ۔ اُن کے لکچر کو سن کر مجھے یوں لگا تھا جیسے شعلہ بجھنے سے پہلے بھڑک اٹھا ہو۔ ایک جادو کی سی کیفیت تھی اور ذرا سوچو کہ عابد حسین کو جو پرسکون موت نصیب ہو ئی ہے وہ کروڑوں میں کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ کیا یہ پرُسکون موت ان کی نیکیوں کی گواہی نہیں دے رہی ہے ‘‘۔ ہنمنت راؤ کے اس بلیغ پرُسے پر ہم اس کالم کو ختم کرنا چاہیں گے ۔ سچ تو یہ ہے کہ عابد بھائی کی زندگی جتنی شاندار تھی ان کی موت بھی اتنی ہی شاندار ثابت ہوئی ۔ اس موت پر ہمیں جگر مراد آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو عابد بھائی کے حسب حال ہے۔
جان کر منجملۂ خاصانِ میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
(جون 2012 ء)