ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

نفیسہ خان
خواتین کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ۔ اب یہ نہ کہئے کہ بھلا کیا عورتیں بھی کوئی پھل ، پھول ، ترکاری یا جانوروں کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں کہ ان کی بھی قسمیں ہونے لگیں ۔ اللہ نے قلم ہاتھ میں تھمادیا ہے تو بس لکھے جاتی ہیں ، چار حرف کی پہچان نہیں اور زمین آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اسلئے پچھلی نسل کے قدامت پسند بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ لڑکیوں کو پڑھنا سکھاؤ لیکن لکھنا ہرگز نہ سکھانا ، اسی غلط خیالی کی بنا پر نادانی و کم علمی کی وجہ سے بزرگوں کی بات مان کرمسلم آبادی کا نصف حصہ جو خواتین پر مشتمل ہے جاہل رہ گیا ہے ۔ ماں باپ نے تعلیم کی دولت سے انہیں محروم کردیا اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم سماج پچھڑ گیا اور اب یہ حال ہیکہ مردوں سے زیادہ عورتوں کا شریعت کے خلاف جھوٹے عقیدوں پر عمل پیرائی کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ پیر و مرشد ، تعویذ گنڈے ، درگاہوں پر حاضری و سجدہ ریزی ، خود ساختہ روحانی پیشواؤں ، باباؤں ، سادھو سنتوں ، سائی مندروں پر برقعہ پوش مسلم خواتین کا ہجوم نظر آتا ہے جو خلوت و جلوت دونوں میں ان باباؤں و پجاریوں کی قدم بوسی کرتی رہتی ہیں ۔

ضعیف حدیثوں ، اسلامی تعلیمات پر حاوی ہوگئے ہیں نہ دینی تعلیم سے واقف نہ دنیوی تعلیم سے آراستہ ۔اسلئے تنگ و تاریک ذہنوں میں جہالت کا اندھیرا پھیل چکا ہے ۔ اس تاریکی میں صحیح و غلط ، اچھے برے کی پہچان کرنے کی صلاحیتیں معدوم ہوگئی ہیں ۔ لاپروائی ونادانی کا یہ عالم ہیکہ اپنے کئے پر شرمسار و شرمندہ بھی نہیں ۔ مردوں کے ظلم و ستم کی بات چھوڑیئے عورت مختلف رشتوں کے تقدس کے باوجود خود عورت کے سامنے صف آرا ہے حالانکہ وہ بہترین خداداد صلاحیتوں و قابلیت سے نوازی گئی ہے ۔ بیشمار عورتیں ایسی ہیں جو اپنی محرومیوں کا بدلہ دوسری عورتوں سے لیناچاہتی ہیں ۔ جلن و حسد کی آگ میں جلتی رہتی ہیں ۔ عورتیں خوبصورت وبدصورت ، قبول صورت بھی ہوتی ہیں ، بااخلاق اور بداخلاق ، خود سر یا اطاعت گذار ، سگھڑ یا بد سلیقہ ، باتونی یا کم گو ۔ محنتی یا کاہل ، تعلیم یافتہ یا جاہل ،گھر گرہستی سنبھالنے والی خانہ دار یا گھر کے علاوہ باہر کام کرنے والیاں ، ان میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز عورتوں سے لیکر روزمرہ مزدوری کرنے والی یا گھر میں جھاڑو پونچھا ،

پکوان کرنے والی سبھی قسم کی عورتیں شامل ہیں لیکن کسی نہ کسی معاملے میں ان کے مسائل ایک جیسے ہوجاتے ہیں حالانکہ موجودہ وقت میں وہ اتنی مجبور نہیں کہ ہر بات چپ چاپ سہہ لیں بادل نخواستہ اگر وہ سہہ بھی لیں گی تو تب بھی اپنے اندر اس درد کے ذمے دار افراد کے خلاف نفرت بھرے گی اور اسکی کڑواہٹ اسکی روزمرہ کی زندگی کی شیرینی کو ختم کردے گی اور اسکا اثر نہ صرف گھر خاندان بلکہ پورے معاشرے پر پڑے گا مختلف رشتوں میں ایک دوسرے پر بھروسہ پیار و محبت اسی وقت پروان چڑھ سکتے ہیں ، جب آپس میں شک و شبہات پیدا نہ ہوں ، شرطوں پر گھر گرہستی کی بیل منڈوے نہیں چڑھ سکتی ۔ جتنی محبت ہم کسی کو دیتے ہیں اس کے عوض اس سے زیادہ پانے کی اہم امید ان سے رکھتے ہیں ۔ تھکے دل سے اپنی باتیں اپنے دلی احساسات کا ایک دوسرے سے اظہار کریں ، ایک دوسرے کی خوبیوں کی تعریف کریں اور کوتاہیوں کو درگذر کریں تو زندگی کا سفر سہل وآسان معلوم ہوتا ہے ، لیکن آج کل کے ماحول میں نہ عورت کی عزت کوئی معنی رکھتی ہے نہ بزرگ خواتین کی توقیر وتعظیم کا خیال افراد خاندان کو ہے ۔ ہم عورتیں خود اپنا مقام پہچاننے یا بنانے سے ہچکچاتی ہیں ، کیونکہ اصل وجہ اعلی معیاری تعلیم کی کمی اپنے حقوق سے لاعلمی ، خود اعتمادی کا نہ پایا جانا ، ہمت و استقلال کا فقدان ہے ،ہر کام سے پہلے ہم تردد و تذبذب ، بدگمانی، شک و شبہ کا شکار ہوجاتے ہیں ،ہر خوش آیند قدم اٹھانے میں اتنا پس و پیش کرتی ہیں کہ اسی کشمکش میں عمر عزیز کے بیشتر سال گذر جاتے ہیں سماج سے اتنی خوفزدہ و خائف ہیں کیہ
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے

نہ اپنی قابلیت پر بھروسہ نہ اپنی تعلیم و ہنر کو بروئے کار لانے کا خیال ہوتا ہے ۔ جب تک ارادہ پختہ نہ ہو منزل کا تعین نہ ہو تب تک منزل کی چاہ نہیں ہوسکتی اور نہ منزل تک پہونچنا ممکن ہوتا ہے ، کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کیلئے ناکامیوں کی دہلیز کو پار کرنا پڑتا ہے ۔ اگر عورت اس کو عطا کئے گئے صنف نازک کے خطاب کو اپنے گلے کا طوق بنالے تو وہ پست ہمت ہوجائے گی اسکے عزائم و حوصلے کمزور پڑجائیں گے اور یہ بات اس کے روشن مستقبل کو تاریکیوں کے حوالے کردے گی ۔ دیہاتوں سے لیکر بڑے بڑے شہروں تک ، کھیت کھلیان سے لیکر فیکٹریوں میں بھی عورت سخت محنت کرتی ہے ، کبھی ہل جوتا کرتی ہے تو کبھی کٹائی بوائی تو کبھی لوہے کا سامان تیار کرنے والے لوہار کی دہکتی آگ میں کئی کیلو وزنی ہتھوڑے سے آہنی ضرب لگاتی رہتی ہے ۔ دیکھنے میں آیا ہیکہ کبھی تو اسکے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے تو کبھی پیٹھ پر نوزائیدہ بچہ کسا ہوا ہوتا ہے ۔ گاؤں ، قصبوں میں غربت مسلمان و غیر مسلم خاندان کے سبھی افراد کی بنا عورت مرد و بچوں کے تفریق کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کام کی تلاش میں گھنٹوں کھیتوں و سڑکوں پر مزدوری کیلئے لے آتی ہے ۔ اسلامی معاشرہ میں کپڑے لتے کھانے پینے رہنے سہنے کی ذمہ داری صرف مرد پر عائد ہوتی ہے اسلئے اگر وہ بیوی ، ماں یا بیٹی کی کفالت کررہا ہے تو یہ اسکا احسان نہیں کہ بار بار اپنی برتری جتائے اور اس کو احساس کمتری میں مبتلا کرے ، اس پر سختی ، زبردستی ، ظلم و زیادتی کرے اور عورت چپ چاپ سہہ لے ، جب کہ یہ خیال ہو کہ استحصال دونوں طرف سے نہ ہو کیونکہ آؑج کل ہر انسان بندشوں سے آزاد زندگی گذارنا چاہتا ہے ۔ ہر مرد و عورت کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے ، خیالات و نظریات کا فرق ہوسکتا ہے ،

لیکن پھر بھی ٹکراؤ نہ ہو ہم خیال بننے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے ۔ لفظ ’’میں‘‘ ’’میرا‘‘ کا خیال ترک کریں ۔ ’’ہم‘‘ ’’ہمارا‘‘ ’’اپنا‘‘ کا ماحول پیدا کریں ۔ مرد کا ہمیشہ اپنی برتری کا احساس دلانا ۔ خود مختاری کا راگ الاپنا ، عورت کے دل میں اپنی توقیر و عزت کو کم کردیتا ہے ۔ عورت مرد کی جسمانی خواہشات کی تکمیل کیلئے ، بچے پیدا کرنے پالنے پوسنے ، کھانا بنانے کی ایک مشین نہیں بلکہ نازک جذبات و احساسات کا گوشت پوست کا زندہ وجود ہے ، حباب کی طرح نازک دل رکھنے والی ہستی ہے وہ مرد کے جبر ، ظلم و زیادتی کا شکار کیوں بنے ۔ اکثر ازدواجی زندگی میں بگاڑ کی بات ہو یا سماجی معاملات میں غلطی کا ارتکاب وجہ تنازعہ بن جائے تو نہ افراد خاندان کی طرف سے نہ شرعی طور سے نہ قانونی طور پر اس سے منصفانہ سلوک ہوتا ہے کتنی عورتیں و لڑکیاں آج اس ناانصافی کا شکار ہو کر دوزخ سے بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جب وہ غلط روی کا شکار ہوجاتی ہیں تو پھر انگشت نمائی پر آپ ہم سب اتر آتے ہیں ۔ مرد کمائی کے سلسلے میں مہینوں بلکہ سالوں بیوی بچوں سے دور ہیں ایسے میں باہر نوکری نہ کرنے والی خانہ دار عورت کی ذمہ داریاں دگنی ہوگئی ہیں ۔ غیر ضروری بیانات و فتوے اچھے خاصے معاملات کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں ۔ بیوی کو صبر کی تلقین و خوش آیند مستقبل کے خواب دکھا کر مرد کے نکاح میں ہر حال میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ اس پر ظلم کیا جاتا ہے مظالم سے عورت کی حفاظت کرنا اور ناقابل برداشت جسمانی تکالیف کی صورت میں بھی علحدگی سے روکے رکھنا غلط ہے ۔ ایسی صورت میں نفس پر قابو رکھنے والی شریف عورتیں بہ نسبت آبرو باختہ عورتوں کے کم ہی ملتی ہیں اب تو یہ حال ہیکہ

رات بدنام ہے زمانے میں
روز روشن میں کیا نہیں ہوتا
ہوٹلوں کے کمرے ، ڈھابوں کی کُٹیا(گھاس پھوس کی جھونپڑیاں) دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے کھلے عام دستیاب ہیں ۔ اسکول ، کالج ، شاپنگ کے نام پر بے آبرو عورتیں و لڑکیاں اپنی شناخت کبھی برقعوں میں تو کبھی حجاب میں چھپا کر نکلتی ہیں اور کانوں کان کسی بھی خاندان کے فرد کو اسکی خبر نہیں ہوپاتی ہے کہ کہاں کونسا گل کھلا کر آرہی ہیں نہ یہ کسی کے عشق میں مبتلا ہیں نہ محبت کی شدت سے مجبور ہیں بلکہ جوانی کے تقاضوں و بے راہ روی سے مغلوب ہیں جبکہ
حسن اور عشق ملیں مل کے خدا ہوجائیں
گر ہوس تفرقہ انداز نہ ہونے پائے

عورتوں کی بیباکی ، بے ہودگی وعریانی کا ذمہ دار سماج کا ہر فرد ہے۔ جب تک اسے تعلیم یافتہ باشعور ، بیدار مغز نہیں بنایا جائے گا اس کے ساتھ انصاف نہ ہوگا ۔ اس میں بیداری کا احساس نہ جگایا جائے گا تب تک وہ اپنے بدن ، اپنی اداؤں ، اپنے ناز ونخرے ،اور اخلاق سوز حرکتوں سے سماج کیلئے ناسور بنی رہے گی ۔ اس کے ساتھ ہونے والے ستم ناروا کا بدلہ وہ معاشرہ کو تباہ و برباد کرکے لیتی رہے گی کہ ان کے پاس مردوں کو رجھانے کے تمام ہتھیار موجود ہیں اور مرد تو کبھی عورت کا گرویدہ ہو کر اپنے بیوی بچوں اور بسے بسائے گھر کو چھوڑ کر اسکی آغوش میں چلا جاتا ہے ، تو کبھی اسے ایک کھلونا یا خالی شراب کی بوتل کی طرح پھینک دیتا ہے لیکن یہ کھلونا ایڈس اور دوسری مہلک بیماریوں میں مبتلا بھی کرسکتا ہے کبھی بدنامی و رسوائی کی صورت میں اس کی زندگی کو یہی عورت تباہ و برباد کردیتی ہے ۔ وہ عورتیں جو زندگی میں کبھی خود مختار نہ تھیں ہمیشہ مجبور و بے بس زندگی گذارنے پر مجبور تھی ، کبھی وہ عشوہ و ناز دکھا کر مرد کو اپنی انگلیوں پر نچانے لگتی ہیں ۔ اس جال میں بڑے بڑے سیاسی رہنما، دانشور ، لیڈرس ، ڈاکٹر ، وکیل و جج جیسی نامور ہستیاں بھی اپنا باعزت مقام کھوچکی ہیں یہ سب کچھ عورت کبھی پیسے کیلئے کرتی ہے تو کبھی محض انتقام لینے کیلئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیتی ہے ۔ کیونکہ ہر ظلم کا نتیجہ بغاوت ہوتا ہے ۔

عورت جو بے ضرر سی مظلوم مخلوق نظر آتی ہے باد صبا کے معطر و خوشگوار جھونکے جیسی ذہنوں کو بالیدگی عطا کرتی ہے کبھی آندھی کا روپ اختیار کرکے نہ صرف ایک فرد بلکہ افراد خاندان ، سماج کو تباہ و برباد بھی کردیتی ہے ۔ اسلئے عورت کو اپنے اظہار حق کی پاداش میں سزا دینے کی بجائے اس کے ساتھ انصاف کریں ۔ اگر وہ ہوس پرستی کی مرتکب ہے تو اس کے ذمہ دار افراد کو بھی موجب سزا قرار دیا جانا چاہئے یہ کس قدر مہمل و لغو خیال ہیکہ وہ مرد کی مرہون منت ہے ، اسکی دبیل ہے ۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے پاس نہ تعلیم ہے نہ ہنر نہ وہ خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں ۔ اسے مجبور و بے بس سمجھ کر احساس کمتری میں اس طرح مبتلا کردیا جاتا ہے کہ وہ مظلوم بن کر زندگی گذارنا شریعت کے عین مطابق سمجھتی ہیں جس طرح کہ آجکل دہشت و فسادات پھیلا کر مسلمانوں کو بدنام و ہراساں کرکے ان کو سر اٹھانے سے شدت پسند تنظیمیں ، کمزور و بے بس بنارہی ہیں اور خود مسلمان اپنی بے حسی ، پسماندگی ، جہالت کی بنا پر تباہی کے دہانے تک آپہونچے ہیں اور اب بھی اپنے آپ کو بدلنے تیار نہیں ۔ ہوش کے ناخن نہیں لیتے ۔ ملت پستی میں اتررہی ہے کفر ایمان پر غالب آرہا ہے ۔ ہمارے ساگر کے اطراف مرچ و کپاس کے وسیع و عریض کھیت میں اب Spinning mills بھی کھل گئے ہیں جہاں موسم کے لحاظ سے کبھی یومیہ ڈیڑھ سو تا ڈھائی سو کی مزدوری ملتی ہے۔ کھیت کے مالک کام کیلئے مردوں سے زیادہ عورتوں کو ترجیح دیتے ہیں

کیونکہ وہ محنت سے کام کرتی ہیں ، صبح سات بجے انہیں لینے آٹو رکشا آجاتے ہیں ، بیچاری عورتیں اندھیرے ہی سے اٹھ کر صبح سے دوپہر تک کیلئے کھانا تیار کرتی ہیں ۔ شوہر بچوں اور خود کیلئے توشے باندھ کر کام پر روانہ ہوتی ہیں اور شام کو تھکی ہاری لوٹ کر پھر چولہا چوکا سنبھال لیتی ہیں ۔ پیٹ بھر خود بھی کھاتی ہیں اور بچوں کو بھی کھلاتی ہیں جبکہ ہماری ملت کی بہت کم عورتیں کام پرجاتی ہیں ۔ مرد جو بھی مزدوری کرکے تھوڑا بہت کما کر لاتے ہیں اس میں سے آدھی کمائی گٹکے و گڑمبہ پر خرچ کرکے مغلظات بکتے ہوئے گھر لوٹتے ہیں ، اچھا کھانا نہ ملنے پر مار پیٹ کرتے ہیں اور بیویوں کو طلاق کی دھمکی دیتے رہتے ہیں ۔ خود نماز ، روزہ کی پابندی نہیں کرتے اور نہ قرآن کا ایک ورق پڑھتے ہیں لیکن مسلمان ہونے کا ڈنکا پیٹتے ہیں ۔ عورتوں کو اپنا تابع بنانے کیلئے انہیں محنت کرکے کمانے سے بھی روکتے ہیں کہ کہیں چار پیسے کما کر وہ خود کفیل نہ ہوجائیں اور ان کے ظلم و ستم برداشت نہ کرکے انہیں چھوڑ کر چلی نہ جائیں اور انکا بستر گرم کرنے والا کوئی نہ رہے ۔ ان پڑھ عورتوں کی پسماندگی کی وجہ سے وہی تنگ و تاریک ذہنیت ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے نہیں دیتی ۔ بیشمار عورتوں کا حال یہ ہیکہ زندگی اور موت کے درمیان رسہ کشی جاری ہے اور اس صف آرائی میں وہ حیات کی کم اور موت کی زیادہ چاہ کرتی ہیں کیونکہ
ہمیشہ مصلحت پابندیاں دل پر لگاتی ہیں
کبھی دستور دنیا کے حوالے سے کبھی شرعاً

عورت جسمانی طور پر کمزور سہی ، لیکن ذہنی و دلی طور پر مضبوط ارادوں کی ہوتی ہے ۔ حالات کا بڑی ہمت سے مقابلہ کرتی ہے جبکہ مرد ٹوٹ جاتے ہیں ، عورت کی قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے ۔ شاید اس لئے ماں بننے کا اعزاز بھی اسی کو ملا ہے ۔ عورت کا اصلی جوہر اس کی شرافت کی پہچان ہے ۔ آجکل اخبار و ٹی وی کی خبریں بتاتی ہیں کہ عورت ہو یا مرد وہ دولت اور نفس کی مانگیں پوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ انہیں اختیار ہیکہ اچھے یا برے کی پہچان کریں کیونکہ نفس کی آگ اور حرص کی لالچ کا غلبہ ہر چیز پر غالب آجاتا ہے ۔ وہ اس آگ کے کھیل سے محظوظ اور لطف اندوز ہوتا ہے ۔ غلطی و گناہ کے خیال سے غافل ہوجاتا ہے ۔ ان دنوں پراگندہ ماحول میں ایک اکیلی عورت کو نہ صرف افراد خاندان کا بلکہ پورے سماج کا ساتھ ملنا چاہئے ۔ نامعتبر افراد کے ساتھ رہنا زندگی گذارنا کٹھن ہوتا جارہا ہے ۔ جب اپنوں کے درمیان بھروسہ و وفا نہ ہو تو وہ غیروں سے کیا امید کرے گی ۔ اسے تو اسی پانی میں رہ کر اپنی زندگی گذارنی ہے اور اپنی عزت ، عصمت ، عفت کی حفاظت کرنی ہے جس پانی میں انسان گھڑیال یا مگرمچھ کا روپ لئے چھپے بیٹھے ہیں ۔ مرد کی اخلاقی ، تہذیبی قدریں دم توڑ رہی ہیں اور کچھ عورتیں بے حجابی و عریانیت پر اتر آئی ہیں ۔ مرد کہتے ہیں۔
بے حجابی حسن کی دیکھے کوئی

میری نظریں مورد الزام ہیں
اور ہم لڑکیوں کے تعلق سے بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لئے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہیکہ پتھر نہ آئے گا
لڑکیوں کا یہ اصرار کہ حکومت ، پولیس و قانون چوبیس گھنٹے ان کی عزت ، عصمت و آبرو کی حفاظت کی طمانیت دے ۔ دن ہو یا رات وہ جب چاہیں جہاں چاہیں جس وقت چاہیں جس کے ساتھ جاسکتی ہیں ۔ یہ مکمل طور پر ان کی مرضی ہے ۔ وہ آزادی نسواں کی علم بردار ہیں کبھی وہ سکنڈ شو میں نظر آتی ہیں کبھی ٹینک بنڈ پر ۔ کبھی ماڈرن pubs میں کبھی eat street پر ، کبھی مالس میں تو کبھی آثار قدیمہ کے ویران مقبروں و محلات میں مٹرگشتی کرتی ہیں ۔ یہ لڑکیاں شہروں کی ماڈرن لڑکیاں ہیں دیہات کی مظلوم لڑکیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں جنہیں اپنے آپ پر over confidenceہوتا ہے جو خود ان کے لئے خاندن کی عزت و ناموس کیلئے ٹھیک نہیں ۔