طواف وداع کی تلافی

سوال :  اس سال میں حج تربیتی کیمپ میں شریک رہا جس میں ایک مولانا نے مناسک حج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مناسک حج سے فراغت کے بعد طواف وداع کرنا واجب ہے ۔ میں اس سال اپنے بڑے لڑکے کے ساتھ حج کو جارہا ہوں۔ پانچ سال قبل جب میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کیا تھا تو ہم دونوں نے بھی طواف وداع نہیں کیا تھا تو اب ایسی صورت میں ہمارا یہ حج ادا ہوا یا نہیں۔ جب سے مجھے یہ مسئلہ معلوم ہوا ہے ۔ میں اور میری اہلیہ بہت بے چین ہیں اور یہاں طواف نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میری اہلیہ مناسک حج کے بعد ناپاکی کی حالت میں آگئی تھیں جس کی وجہ سے ہم جدہ آگئے تھے اور یہیں سے ہم حیدرآباد واپس ہوگئے ۔ براہ کرم اس کا جواب جلد سے جلد دیں۔
نام مخفی
جواب :   احناف کے پاس طواف وداع واجب ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ من حج ھذا البیت فلیکن آخر عھدہ بہ الطواف (بخاری) پس جوشخص اس گھر کا حج کرے تو اس کا آخری کام طواف ہونا چاہئے۔ بناء بریں فقہاء نے طواف وداع کو واجبات حج میں شامل کیا ہے اور اگر کوئی واجب ترک ہوجاتاہے تو اس کی تلافی ’’ دم‘‘ (قربانی) سے ہوتی ہے ۔ لہذا اس سال آپ حج کو جارہے ہیں تو آپ کی طرف سے جو طواف وداع ترک ہوا اس کے لئے آپ حدود حرم میں ایک بکری قربانی دیدیں۔انشاء اللہ اس کی تلافی ہوجائے گی ۔اب رہا آپ کی اہلیہ نے بھی طواف وداع نہیں کیا لیکن وہ پاکی کی حالت میں نہیں تھی تو ایسی عورتوں پرطوافِ وداع کا وجوب نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو ناپاکی کے عذر کی بناء طواف وداع سے رخصت دی ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل (370/1 ) میں ہے ۔ رخص للنساء الحیض ترک طواف الصدر لعذر الحیض) لہذا آپ کی اہلیہ  پر طواف وداع واجب ہی نہیں رہا۔

خانہ کعبہ کی تعمیر
سوال :   خانہ کعبہ کی تعمیر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہوئی یا بعد میں ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا واقعہ ہے کیونکہ حجر اسود کو رکھتے وقت اختلاف رائے ہوا تو سبھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔
مجھے آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ حقیقت میں کعبۃ اللہ کی تعمیر کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے اتفاق سے حجر اسود رکھا تھا یا نہیں ؟ یہ واقعہ اگر معتبر ہے تو تاریخ کی کس کتاب میں مل سکتا ہے ۔
محمد خان قادری ، جہاں نما
جواب :  سیرت ابن ہشام سیرت کی کتابوں میں اہم کتاب ہے اور اس کتاب کو مرجع و مصدر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کی جلد 1 ص : 204 تا 209 میں خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق تفصیل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کعبہ شریف کے پردوں کو بخور سے دھونی دی جاتی تھی ، ایک دن ہوا کی شدت سے چنگاریوں نے پردوں کو آگ لگادی ۔ عمارت کمزور ہوگئی تھی ، کچھ دنوں بعد موسلا دھار بارش ہوئی تو عمارت بیٹھ گئی ۔ تعمیر جدید کے لئے صرف اکل حلال سے چندہ کیا گیا ۔ سود خواروں اور قحبہ خانوں سے رقم قبول نہ کی گئی ۔ انہیں دنوں مکہ کے قریب شعیبیہ (جدہ) میں ایک کشتی جو مصر سے آرہی تھی ، ٹوٹ گئی ۔ کچھ لوگ زندہ بچے اور کچھ سامان بھی بچایا جاسکا ، جس میں شکستہ کشتی کے تختے بھی تھے ۔ اہل مکہ نے ان کا سارا سامان حتیٰ کہ کشتی کے تختے بھی خرید لئے تاکہ کعبہ کی چھت میں لگائیں ۔ اہل مکہ نے پہلے ملبہ صاف کیا اور پرانی بنیادیں برآمد کر کے نئی دیواریں کھڑی کرنا شروع کیں۔ قبائل شہر نے کام بانٹ لیا اور ہر دیوار معین گھرانوں کے سپرد ہوگئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر کام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شانے زخمی بھی ہوگئے ۔ چار دیواری کوئی گز بھر بلند ہوئی تو ایک دشواری پیدا ہوگئی ۔ کعبہ کے دروازے کی مغربی دیوار کے زاویے میں حجر اسود کو نصب کرنا تھا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے رقابت شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہوجائے کہ ایک بوڑھے ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ نے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے مشورہ دیا کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے اندر آئے ، انہیں حکم بناؤ ۔ سب نے قبول کیا ۔ اتفاق سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کام کرنے کے لئے تشریف لارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب لوگ پکار اٹھے : ھذا الامین رضینا بہ ، یعنی یہ تو امین ہیں ، ہم سب ان کے فیصلے پر راضی ہیں (ابن الجوزی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، ص 148 )
قصہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھائی ، پتھر کو اس پر رکھا اور چادر کے کونے قبائل کے نمائندوں نے پکڑ کر اٹھائے اور دیوار کے قریب کیا ۔ وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ نصب کردیا ۔ (ابن ہشام ، السیرۃ ، 204:1 تا 209 )

دوران حج عورت ایام میں کیا کرے ؟
سوال :  عورت اپنی ماہواری میں نماز ادا نہیں کرتی اور رمضان ہو تو روزے نہیں رکھتی، روزوں کی قضاء کرتی ہے ، حج کے دوران عورت کے ایام شروع ہوجائیں تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمالیں ؟
محمد مدثر احمد ، مراد نگر
جواب :  مناسک حج ادا کرنے کے دوران عورت کے ایام آجائیں تو حج کے تمام ارکان ادا کرسکتی ہے۔ البتہ مسجد حرام میں داخل نہ ہو اور طواف نہ کرے جیسا کہ صحیح بخاری شریف ج: 1 ص: 223 میں ہے ۔ ’’ عن عائشۃ انھا قالت قدمت مکۃ  وانا حائض ولم اطف بالبیت ولا بین الصفا والمروۃ قالت فشکوت ذلک الی رسول اللہ صلی علیہ وسلم فقال افعلی کما یفعل الحاج غیر ان لا تطوفی بالبیت حتی تطھری ۔
ترجمہ : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں : میں مکہ مکرمہ آئی جبکہ میں ایام میں تھی میں نے بیت اللہ شریف کا طو اف نہیں کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں، میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں معروضہ کی تو آپ نے فرمایا جو حاجی کرتے ہیں وہ کرتی رہو مگر بیت اللہ کا طواف مت کرو جب تک کہ پاک نہ ہوجاؤ۔
لہذا عورت صرف مسجد حرام نہ جائے اور طواف نہ کرے، اس کے سوا منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ جائے ، رمی ، جمار ، قربانی اور باقی تمام امور انجام دے۔ اگر دس ، گیارہ ، بارہ ذی الحج کے دوران کبھی بھی ایام ختم ہوجائیں۔ بارہ کے غروب آفتاب سے پہلے تک طواف زیارت کرنے کی گنجائش ہے ۔ بارہویں کے غروب آفتاب کے بعد ایام ختم ہوں تو دم حیض منقطع ہوتے ہی غسل کر کے طواف زیارت کرلے تاخیر کرنے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔

باپ کی دلآزاری
سوال :  میری عمر 70 سال کی ہے۔ میری زوجہ کا انتقال ڈیڑھ سال پہلے ہوچکا ہے ۔ میری خدمت اس وقت میری بہو ہی کر رہی ہے ۔ میری دو لڑکیاں ہیں ۔ خدمت تو کیا وہ پوچھ کر بھی نہیں دیکھ رہی ہے ۔ دونوں داماد دونوں بیٹیاں میرے مرنے کی دعا کر رہے ہیں۔ کیا میں بھی ان لوگوں کو ایسی دعا کرسکتا ہوں ؟ جب باپ کو زندگی میں بیٹیاں ، داماد بوڑھا کب مرتا ہے بول رہے ہیں تو میںبھی نماز میں ایسی بول سکتا ہوں کیا ؟ میں میری اہلیہ کے انتقال کے بعد ان کا سونا ، پیسہ ، کپڑا تمام دونوں بیٹیوں کو دے دیا۔ مکان میرے لڑکے کو دے دیا کیونکہ وہ پیسہ لگایا تھا ۔ کیا میں بھی ان لوگوں کے حق میں ان کی موت اور بیماری کی دعا کرسکتا ہوں ؟ ان کا میرے مکان بھی آنا جانا بند ہے اور بات چیت بھی بند ہے ۔ میری عمر کے لحاظ سے میں سخت پریشان ہوں۔ مشورہ دیں میں کیا کروں ؟
بشیر احمد، پرانی حویلی
جواب :  حدیث شریف میں ہے ، رضاالرب فی رضا الوالد و سخط الرب فی سخط الوالد ( اللہ کی رضا ، والد کی خوشنودی  میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے( ترمذی شریف) اور والدین کی نافرمانی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کبیرہ میں شامل کیا ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی۔ ان کی نافرمانی ، دلآزاری تو درکنار ان کو لفظ ’’ اُف‘‘ کہنے سے منع کیا گیا ۔ یعنی ہر معمولی سی بات جس سے والدین کو تکلیف ہوتی ہے اس سے منع کیا گیا ہے ۔ ایک موقع پر نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کو جہاد جیسے عظیم فریضہ اسلامی پر ترجیح دیتے ہوئے صحابی رسول سے فرمایا تو ماں باپ کو راضی رکھنے میں جہاد کر۔
پس اگر لڑکیاں اپنے والدین کو دلی تکلیف دے رہی ہیں اور ان سے بدکلامی سے پیش آرہی ہیں تو یہ گناہ کبیرہ ہے ۔ یہ فسق و فجور ہے ، جس کی وجہ سے وہ رحمت الٰہی سے دور ہوکر عذاب الٰہی کی مستحق ہوں گی ۔ مولانا عبدالحی نے نفع المفتی والسائل میں نقل کیا ہے کہ والدین کو تکلیف دینے والے کو اللہ تعالیٰ آخرت میں عذاب دینے تک توقف نہیں فرمائے گا بلکہ اس کو اس دنیا میں بھی عذاب دے گا اوریہ وعید کسی دوسرے گناہ کے لئے وارد نہیں ہوئی ہے۔
لہذا آپ اپنی لڑکیوں اور داماد کو خدارا بد دعاء نہ دیں۔ ان کے معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کریں اوران کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے ان کی توفیق کے لئے دعاء کریں کیونکہ اولاد کے حق میں ماں باپ کی دعاء رائیگاں نہیں جاتی ۔ مخفی مبادکہ باپ کی خدمت بیٹے اور لڑکیوں پر فرض ہے ۔ بہو کی خدمت گزاری قابل تعریف و باعث اجر و ثواب ہے۔

بیوی اگر مرتد ہوجائے؟
سوال :  زید نے ہندہ (مسلمان خاتون) سے نکاح کیا ، کچھ عرصہ بعد ہندہ نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا ۔ اب کیا کرنا چاہئے۔ ان دونوں کا نکاح باقی ہے یا نہیں ؟
نام …
جواب :  صورت مسئول عنھا میں ہندہ نصرا نی مذہب قبول کرنے سے مرتد ہوگئی اور بغیر طلاق کے اس کا نکاح ختم ہوگیا فتاوی تاتار خانیہ ج 3 ص : 177 نوع منہ فی نکاح المرتد میں ہے ۔ اذا ارتد أحد الزوجین وقعت الفرقۃ بینھما فی الحال ھذا جواب ظاہرالروایۃ ص : 178 میں ہے ۔ وتکون ھذہ فرقۃ بغیر طلاق عندأ بی حنیفۃ و أبی یوسف (رحمھما اللہ) البتہ شوہر کو چاہئے کہ اس (ھندہ) کو ترغیب دیکر پھر اسلام کی طرف لانے کی کوشش کرے ۔ اگر وہ دوبارہ اسلام قبول کرلے تو زید اس سے دوبارہ نکاح کرلے۔
مرتدہ نصرانیہ اگر وہ ارتداد پر باقی رہے تو کسی کو بھی اس سے نکاح کی اجازت نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 282 میں ہے ۔ ولا یجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ و کذلک لا یجوز نکاح المرتدۃ مع أحد کذا فی المبسوط ۔