طنز و ظرافت کا معتبر شاعر

شاہد عدیلی

یوسف روشؔ
شاعری آپ کو ورثے میں ملی ہے شاہد
اپنے اشعار میں اجداد کے تیور رکھنا
شاہد عدیلی نے دنیائے رنگ و بو میں 9 ڈسمبر 1963 ء کو آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد حضرت سید نظیر علی عدیل دکن کے نامور استادِ سخن تھے ۔ بچپن سے گھر کے ادبی و شاعرانہ ماحول نے ان کے اندر کے شاعر کو باہر نکالا اور والد محترم کی سرپرستی اور تربیت نے شاہد عدیلی کو طنز و ظرافت کا معتبر شاعر بنادیا۔ انہوں نے اپنے والد سے عروض کی تعلیم بھی حاصل کی اور رموز و نکات سے بھی واقفیت حاصل کی ۔ اپنے بڑے بھائی جانشین حضرت عدیل ڈاکٹر فاروق شکیل کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی نے انہیں بہت تقویت پہنچائی اور آج شاہد عدیلی شہرت کی بلندیوں پر محوِ پرواز ہیں اور عالمی شہرت حاصل کرلی ہے ۔ انہیں نہ صرف دہلی کے عالمی مشاعرے میں مدعو کیا گیا تھا بلکہ سعودی عرب (ریاض) کے مشاعرے کی صدارت بھی انہیں دی گئی اور دوحہ قطر کے مشاعرے میں بھی انہوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ عدیلی کے لہجے میں شائستگی ہے ، وہ ماحول میں ڈوب کر شعر کہتے ہیں۔ ان کے پاس کہیں بھی ابتذال نظر نہیں آتا۔ زبان میں سلاست و سادگی ہے جو ’’دبستان عدیل‘‘ کی دین ہے ۔ انہوں نے عصری مسائل پر طنز کے تیر و نشتر بڑے سلیقے سے برسائے ہیں۔ شاہد عدیلی غزل اور نظم دونوں اصناف پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں ۔ نعت گوئی میں بھی ان کا لہجہ منفرد انداز کا ہے ۔ شاہد عدیلی نے کبھی سستی شہرت کیلئے اپنے معیار کو گرنے نہیں دیا ۔ وہ روز مرہ زندگی میں چھپے ہوئے مضحکہ پہلوؤں کے اشکال کی پیکر تراشی کر کے مہذب اسلوب میں پیش کرتے ہیں ؎
تیرے فیشن سے مجھے اس لئے ڈر لگتا ہے
لاڈلے تو کبھی مادہ کبھی نر لگتا ہے
درد دل میں نہ جگر میں آئے
عمر ڈھلتے ہی کمر میں آئے
پان ، سگریٹ اور گٹکھے نے
چھین لی میری دلکشی مجھ سے
یہ کرو جی ، وہ کروجی ، یہ نہیں جی وہ نہیں
بیویوں کو ٹانگ اڑانے کی ہے عادت ہر جگہ
مجنوں ہے دشت گرد تو فرہاد کوہکن
مزدور ہے کوئی تو کوئی بیلدار ہے
شاہد عدیلی نے جہاں ظرافت کے پھول کھلائے ہیں، وہیں ان کے پاس ایسے دل نشین سنجیدہ اشعار بھی ملتے ہیں جو ان کے افکار کی سنجیدگی کے بھی غماز ہیں ۔
لگانی ہے مجھے توبہ کی جھاڑو
میاں اندر مرے کچرا بہت ہے
لہو انساں کا گر سستا بہت ہے
دواخانوں میں کیوں عنقا بہت ہے
دیکھ کر یوں نہ ہنسو میرے ٹفن کو شاہدؔ
بڑی مشکل سے میاں رزقِ حلال آتا ہے
شاہد عدیلی کی شاعری میں عصری شعور و آگہی ، نئے مصامین ، زبان و بیان کا معیار اور فنی مہارت نے انہیں اپنے ہم عصر شعراء میں ممتاز و منفرد بنائے رکھا ہے ۔ شاہد عدیلی اپنے شاگردوں کو بھی ایسی ہی تربیت دیتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ ظریف لکھنوی ، دلاور فگار اور اکبر الہ آبادی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں جو معیار ، شائستگی اور قدرت ہے وہی تسلسل شاہد عدیلی کے کلام میں ملتا ہے ۔ شاہد عدیلی نہ صرف غزل پر دسترس رکھتے ہیں بلکہ ان کی نظمیں بھی لاجواب ہوتی ہیں اور مشاعروں میں سامعین فرمائشیں کر کے سنتے ہیں، ان کی مشہور نظموں میں ’’دونوں جنتی ‘‘، ’’ہینگر‘‘، ’’اسٹار دھماکہ ‘‘، ’’اولادِ ابلیس‘‘، ’’شہرنامہ‘‘ اور ’’میڈیا‘‘ بہت مقبول ہوگئی ہیں ۔ شاہد عدیلی کے دو شعری مجموعہ منظر عام پر آئے ہیں جو کافی مقبول ہوئے ۔ پہلا مجموعہ ’’آئیں بائیں شائیں‘‘2000 ء میں شائع ہوا اور دوسرا مجموعی ’’واہ وا‘‘ 2013 ء میں شائع ہوا۔ آخر میں شاہد عدیلی کے چند اشعار پیش خدمت ہے جس سے شاہد عدیلی کی شاعری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کراٹے کے ہُنر سے وہ اگر واقف نہیں ہوتی
ڈرانا اپنی بیگم کوکوئی مشکل نہیںہوتا
دلہے کا نام شمس ہے دلہن کا ہے قمر
آپس میں اتفاق سے شمس و قمر ملے
تمہارے سر سے زیادہ تو میں نے کھانوں میں
تمہاری زلفوں کا دیدار بار بار کیا
جب سے شادی ہوئی ڈرتا نہیں کوئی مجھ سے
ایسے کیوں ہوگئے حالات نہ جانے میرے
شاعر ہوں جب یہ جان گیا مالک مکاں
فوراً مکان خالی کرانے کو آگیا
آپریشن سے تو بہتر تھاکہ مر ہی جاتا
گر خبر ہوتی کہ غائب مرا گردہ ہوگا
تمہارے ہاتھ کاپکوان بھی ہے دو لختہ
چکن فرائی کی لذت مٹن میں آئی ہے
میری بخشش کا ہے مجھ کو اس لئے پکا یقیں
لوگ کہتے ہیں مجھے ، میں ہوں بہت بخشا ہوا
ویب سائیٹ پہ دیواں مرا محفوظ ہے شاہدؔ
اشعار مرے اب تو غبن ہو نہیں سکتے