طلاق کے بعد شوہر کا وظیفہ

سوال :  زید اور ہندہ کی شادی کو 50 سال ہوچکے تھے جن کو 7 اولادیں بھی ہیں۔ ہندہ کے اپنے غیر محرم رشتہ داروں کا گھر آنے پر گھنٹوں ہنسی مذاق کرتے  رہنا اور ان کے بہوؤں سے بھی پردہ نہ کرانا اس سے زید ناراض رہتے تھے۔ وہ نیک سیرت آدمی ہمیشہ ہندہ کو منع کرتے رہتے تھے ۔ آخرکار مسلسل نافرمانی کی وجہ سے مجبوراً زید نے ہندہ کو طلاق دے دیا ۔ قریبی رشتہ داروں کی مداخلت سے یہ بات گھر کا گھر میں ہی رہ گئی۔ دونوں میاں بیوی آپس میں گھر میں گوشہ کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد شوہر کا انتقال ہوگیا ۔ لڑکوں نے کوشش کر کے والد کا وظیفہ ماں کو کروادیا ۔ کیا اب ہندہ اپنے ط لاق شدہ شوہر کا وظیفہ لے سکتی ہے۔
عادل محمد، ہمایوں نگر
جواب :   بشرط صحت سوال صورت مسئول عنھا میں زید کا انتقال اگر ہندہ کی عدت طلاق کے دوران ہوا ہو تو وہ وراثت میں حصہ دار ہوگی اور وظیفہ کی بھی حقدار ہوگی اور اگر ایام عدت گزرنے کے بعد زید کا انتقال ہواہو تو ہندہ نہ اس کے وراثت میں حصہ پائے گی اور نہ وظیفہ کی حقدار ہوگی۔ فقط واللہ اعلم

امام کیلئے  عمامہ
سوال : امام صاحب کو بوقت نماز عمامہ کا اہتمام کرنا چاہئے یا نہیں۔ شرعاً اس بارے میں کیا حکم ہے ؟
محمد ولی الدین، مراد نگر
جواب :  نماز کی ادائیگی کے وقت زینت کا اہتمام یعنی شرعی وضع قطع و ہئیت پسندیدہ امر ہے ۔حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام و تابعین عظام اور صالحین امت کا یہی معمولی رہا ہے ۔ اس اہتمام زینت میں عمامہ بھی شامل ہے، بوقت نماز عمامہ کا اہتمام خواہ مقتدی ہو کہ امام کئی گنا اجر و ثواب کا موجب و باعث فضیلت ہے۔ دیلمی نے اپنی سند میں یہ روایت نقل کی ہے کہ عمامہ کے ساتھ ادا کی گئی نماز اس کے بغیر ادا کی گئی، نماز سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتی ہے۔ علی ہذا نماز جمعہ کا ثواب اسکے ساتھ ستر جمعہ کی فضیلت رکھتا ہے ۔ نیز جمعہ کے دن فرشتہ عمامہ باندھ کر آتے ہیں اور عمامہ کے ساتھ نماز ادا کرنے والوں کیلئے غروب آفتاب تک دعا کرتے ہیں۔ صلاۃ بعمامۃ تعدل بخمس و عشرین صلاۃ و جمعۃ بعمامۃ تعدل سبعین جمعۃ و فیہ ان الملائکۃ تشھدون الجمعۃ معتمین و یصلون علی اھل العمائم حتی تغیب الشمس ۔ مقتدی کے بالمقابل امام صاحب پر زائد ذمہ داری ہے کیونکہ شرائط امامت میں جو اوصاف شرعاً ملحوظ ہیں وہ مقتدی میں نہیں اس لئے امام صاحب کو چاہئے کہ وہ عمامہ کا ضرور اہتمام کریں۔

نکاح کے فوری بعد ولیمہ
سوال :  شریعت میں بعد از نکاح جو تقریب / طعام وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے آیا وہ تعریف ولیمہ میں داخل ہے اور ولیمہ کس دن کرنا سنت ہے ؟ کیا ولیمہ کیلئے صحبت شرط ہے ؟ کیا نکاح کے دن ولیمہ کیا جاسکتا ہے ؟ بلا لحاظ استطاعت کتنے لوگ کا ولیمہ کی تقریب کرنا چاہئے ؟ ولیمہ کی تقریب کا سنت طریقہ کیا ہے ؟
محمد مظفر عالم، ورنگل
جواب :  ایجاب و قبول کے بعد جب میاں بیوی کے درمیان ملاپ (صحبت یا خلوت صحیحہ) کی خوشی میں جو تقریب منعقد ہوتی ہے اس کو ولیمہ کہتے ہیں۔ ولیمہ مسنون ہے۔ نکاح کے بعد قبل از بناء (ملاپ) جو دعوت ہوتی ہے اس پر مسنون ولیمہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ولیمہ کے لئے صحبت شرط نہیں۔ میاں بیوی کا تنہائی میں ملنا کافی ہے۔ دلہا حسب استطاعت ولیمہ کا اہتمام کرسکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے کیوں نہ ہو۔

سردی کی بناء ، تیمم کرنا
سوال :  میری عمر چھیسٹھ (66) سال ہے، میں صوم و صلوۃ کی بچپن سے پابند ہوں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوا تھا، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے۔
مجیب الرحمن، خیریت آباد
جواب :  سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔
بیوی کے عقد ثانی کیلئے اس کے بچوں کو رکھنے کی شرط لگانا
سوال :  ایک خاتون بیوہ ہے ۔ موصوفہ کو 8 اور 6 سال کی صرف دو لڑکیاں ہیں ۔ دریافت طلب امر یہ ہیکہ
الف ۔ کیا اس کے مرحوم شوہر کے متعلقین شرعاً ان بچوں کو ماں سے چھین لینے کے مجاز ہیں؟
ب ۔ کیا اس کے عقد ثانی کی صورت میں ہونے والے شوہر کا ان بچیوں کے اپنے والد مرحوم کے رشتہ داروں سے ملاقات نہ کرنے کی شرط رکھنا شرعاً درست ہے ؟
محمد معین الدین، مہدی پٹنم
جواب:  مذکور السوال دونوں لڑکیاں سن بلوغ کو پہنچنے تک ماں کے زیر پرورش رہیں گی ۔ ماں اگر کسی اجنبی (غیر رحمی قرابتدار) سے شادی کرے تو ان لڑکیوں کی پرورش کا حق نانی کو حاصل رہے گا ۔ نانی نہ ہو تو دادی کو حاصل ہوگا ۔ اور لڑکیاں سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو انکا حق حضانت دادا ، وہ نہ ہو تو ان کے چچا کو حاصل ہوگا ۔
عقد ثانی کی صورت میں شوہر کا مذکور السوال شرط رکھنا باطل ہے ۔ نکاح منعقد ہوجائے گا ۔

کرسی پر قرآن مجید کی تلاوت
سوال :  میں انٹرمیڈیٹ میں زیر تعلیم ہوں۔ عرض کرنا یہ ہے کہ میں اکثر کرسی پر بیٹھ کر قرآن پاک تلاوت کرتا ہوں جس کی وجہ سے قرآن مانڈی پر (گود میں) رہتا ہے جس کی وجہ سے میں اکثر شک میں مبتلا ہوجاتا ہوں، کہیں پیر کا حصہ قرآن پاک کو لگنے سے بے حرمتی نہ ہورہی ہوگی۔ کیا میرا اس طرح سے پڑھنا جائز ہے یا علحدہ ٹیبل (Table) کا استعمال کرنا پڑے گا ۔ مہربانی فرماکر میرے اس شک کو دور کریں نوازش ہوگی ؟
خلیل احمد ، نامپلی
جواب :  قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب ہے جو ساری انسانیت کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے۔ اس کی تلاوت باعث اجر و ثواب ہے۔ اس کو کھڑے ہوکر بیٹھکر پڑھنے کی اجازت ہے ۔ تاہم اس کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا ہر ایک پر لازم ہے۔ اس لئے آپ کو کرسی پر بیٹھ کر قرآن مجید تلاوت کرنے کی اگرچہ اجازت ہے مگر اس کے پورے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ قرآن مجید کو مانڈی پر رکھتے ہوئے تلاوت کرنا جسمیں بے احترامی کا اندیشہ ہونا مناسب ہے۔

بیوی کے زیور کا مسئلہ
سوال :  شادی میں لڑکی کے ماں باپ جو زیور دیتے ہیں اور دولہے کی طرف سے بھی لڑکی کو جو کچھ زیور دیا جاتا ہے وہ شرعاً کس کی ملکیت ہے ؟ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور جو زیور لڑکی کے ماں باپ نے دیا تھا وہ تو لڑکی کو دیدیا لیکن جو زیور دولہے والوں کی  طرف سے ڈالا گیا تھا اور جو تحفوں کی شکل میں رشتہ داروں  نے دلہن کو دیا تھا وہ سب اپنے پاس رکھ لیا۔ آپ یہ بتایئے کہ کیا یہ تمام کا تمام زیور لڑکی کو مل جانا چاہئے یا شوہر نے جو کیا ہے وہ درست ہے ؟ دولہے والوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنا زیور نہیں دیں گے۔ یہ ہم ڈالے تھے، یہ ہمارا ہے ؟
نام ندارد
جواب :  بوقت عقد لڑکی کو اس کے والدین کی طرف سے جو زیورات ، ملبوسات اور تحفہ جات دیئے جاتے ہیں اسی طرح لڑکے والوں نے بطور چڑھاوا جو زیورات ، ملبوسات اور تحفہ جات دیتے ہیں وہ لڑکی کے حق میں ہبہ ہونے کی بناء لڑکی کی ملکیت قرار پاتی ہے ۔ بعد طلاق لڑکی ماں باپ کے زیورات اور چڑھاوے کے زیورات کی مالک رہتی ہے اس لئے بعد طلاق لڑکے والوں کا اپنے چڑھاوے کے زیوارت لڑکی کونہ دیکر اپنے پاس رکھ لینا شرعاً درست نہیں ہے۔

دینی معاملات میں میانہ روی
سوال :  شریعت مطھرہ میں عبادات کو کافی اہمیت ہے لیکن کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم کو ساری مصروفیات ترک کر کے صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر ہم ساری زندگی عبادت الہی میں ‘ سر بسجود رہیں تب بھی ہم اس کی عبادت کا حق ادا نہں کرسکتے۔ شادی بیاہ ‘ کاروبار کیا یہ اعمال دنیوی ہیں۔ سب چیزوں کو چھوڑ کر کیا ہمیں عبادت الہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجانا چاہئے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے رہنمائی فرمائیں ۔
محمد برہان الدین، آصف نگر
جواب :  نبی  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود آپؐ کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ‘ مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ‘ 411:3 ‘ کتاب النکاح ‘ باب 41 ‘ مطبوعہ لائیڈن) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤد ‘ یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے‘ تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (کتاب مذکور ‘ 1 : 443 ‘ کتاب الصوم ‘ باب 56 ‘ 57 ) ۔ ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے عدم استطاعت نکاح کی وجہ سے اپنے آپ کو جسمانی طور پر ازدوای زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ( کتاب مذکور ‘ 3 : 413 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا‘ بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ‘ دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل : مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پائیدار مذہب(اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رہکر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اگر آپؐ کا کام رہبانیت یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔