طب یونانی حالات حاضرہ کی اسیر

مرزا غلام حسین بیگ
چیف میڈیکل آفیسر یونانی (ریٹائرڈ)
حالات حاضرہ پر تبصرہ اس وقت تک تشنہ رہے گا جب تک کہ حالات سابقہ پر مختصر ہی سہی تبصرہ نہ کیا جائے ۔ طب یونانی کیلئے اردو زبان جزلاینفک ہے کیونکہ اس کا نصاب تعلیم بجز دو مضامین کے سال اول تا آخر جوطب جدید سے متعلق ہیں سارا اردو میں ہی ہے اور اردو پر عبور رکھنے والے طلبہ کی اکثریت مسلمان ہے ، اس طرح اس فن کو جو نقصانات پہنچائے جارہے ہیںہ، ان نقصانات کو دو آتشہ کہا جائے تو غلط اس لئے نہیں ہوگا کہ فن کا لٹریچر اردو میں ہے اور حاملین فن مسلمان ہیں۔ 1948 ء ستمبر میں نظام اسٹیٹ کے کم و بیش پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اس لئے حیدرآباد اسٹیٹ کے سبھی مسلمان خوف کے ماحول میں سانس لے رہے تھے ۔ چنانچہ اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رفتہ رفتہ نظامیہ صدر شفا خانہ کے 360 بستروں والے دواخانہ سے نصف یعنی 180 بستروں کے حصہ کو بہ الفاظِ دیگر نصف عمارت کو ایورویدک کے حوالے کردیا گیا اور ہم دیکھتے رہنے پرمجبور تھے۔
میرے تعلیمی دور میں اور اس سے قبل طب یونانی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ دواخانے کے سارے وارڈز ہر وقت بھرے رہتے تھے حتیٰ کہ اکثر اوقات کسی خاص مریض کو شریک کروانے کیلئے ہیلت منسٹر یا ہیلت سکریٹری سے مہتمم صاحب دواخانہ کو سفارشی فون آیا کرتے تھے ، اس کی اہم وجوہات یہ تھیں کہ رہائشی فارمیسی ہمیشہ مفردات و مرکبات سے بھری رہتی تھی اور پھر قیمتی حجریات اور دوسری قیمتی ادویات مثلاً مشک ، عنبر ، زعفران ، افیون ، وغیرہ ہمیشہ اسٹاک میں ہوتے تھے ۔ رفتہ رفتہ ادویات مہنگے ہوتے گئے اور پھر ستم بالائے ستم بجٹ میں بجائے اضافہ کے تخفیف ہوتی گئی اس طرح کھلی بات ہے کہ جب اثر دار اور ضروری ادویات اتنے بڑے یعنی اس وقت کے براعظم ایشیاء کے سب سے بڑے یونانی دواخانے سے عمداً ہٹادیئے جائیں تو یقیناً فن کی افادیت میں کمی کے باعث مرجوعہ گھٹتا گیا۔
1960 ء میں جبکہ میں دوسرے سال میں زیر تعلیم تھا ایک تحریک یہ چلائی گئی کہ صدر محکمہ کسی ڈاکٹر کو بنایا جائے گا۔ (یعنی ایورویدک ، یونانی یا ہومیو ڈاکٹر کو) چنانچہ ہم سارے طلبہ نے بھوک ہڑتال کر کے بہت شور مچایا ، حتیٰ کہ مرکز کے ہیلت منسٹر تک جاکر ہم نے نمائندگی کی کہ اس محکمہ کے تحت چار طریقہ علاج (یونانی ، ایورویدک ، ہومیو ، نیچر کیور) ہیں ۔ کسی بھی شعبہ کے ڈاکٹر کو ڈائرکٹر بنانے پر دوسرے تین شعبہ جات نہ صرف متاثر ہوسکتے ہیں بلکہ نقصانات بھی عین ممکن ہے چنانچہ ہماری اس جدوجہد کے باعث اس تجویز کو منسوخ کیا گیا اور 1984 ء سے موجودہ ہومیو ڈاکٹر کی بحیثیت ڈائرکٹر پوسٹنگ سے قبل تک مسلسل کسی بھی IAS ، APAS یا سینئر نان ٹکنیکل ایڈمنسٹریٹر کو پوسٹنگ دی جاتی رہی ، اب پھر اس 1960 ء والے فتنہ کو تازہ کر کے ایک ہومیو ڈاکٹر کو سیدھے سیدھے ڈائرکٹر کی کرسی پر سجادیا گیا جوممکن ہے ہومیو طریقہ علاج کے ماہر ہوں تو ہوں لیکن ایڈمنسٹریشن کے ماہر نہیں ، میں چونکہ ریٹائرمنٹ سے قبل مسلسل دو معیاد کیلئے میڈیکل آفیسرس اسوسی ایشن کا پریسڈنٹ رہ چکا ہوں اس ناطے آج بھی صرف خلوص کی بنیاد پر کچھ اطباء آکر مجھ سے ملتے رہتے ہیںاور جو میرے معلومات ہیں وہ بڑے تکلیف دہ ہیں، وہ اس طرح کہ موجودہ ایڈیشنل ڈائرکٹر بنیادی طور پرسائنس کے گریجویٹ اور یونانی کے پوسٹ گریجویٹ ہیں چنانچہ اطباء برادری کو فن کی بابت موصوف سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں لیکن فن کے اور حاملین فن کے حصہ میں صرف نہ امیدی ہی آئی جس کا سب کو بہت شدید ملال ہے۔
رہائشی اور بیرونی مریض صحیح اور اثردار ادویات کیلئے ترس رہے ہیں، رہائشی مریضوں کے لباس اور بستر تک قابل رحم حالات سے گزر رہے ہیں اور محترم ڈائرکٹر جو بنیادی طور پر ہومیو کے ڈاکٹر ہیں یونانی کے فنڈس کو روک کر تباہی کے مناظر سے مسرور ہورہے ہیں، مزید برآں عہدیداران بالا کی انتظامی صلاحیتوں کے فقدان کے سبب کالج اور ہاسپٹل بدترین بلکہ ناقابل تحریر حالات سے گزر رہے ہیں۔ کئی سال سے اطباء کی ترقی سے متعلق فائل ڈائرکٹر آفس کے کوڑے دان میں پڑی سڑ رہی ہے ، جس کے باعث ترقی کی فہرست میں شامل اطباء کی ناراضگیوں میں جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں، اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ایسے اطباء ہیلت منسٹر اور ہیلتھ سکریٹری سے ڈائرکٹر کے خلاف شکایتی نمائندگی کے تعلق سے بھی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ برسوں گزرنے کے باوجود ڈائرکٹر DPC کیلئے فائل آگے بڑھانے کیلئے مختلف بہانے تراشتے رہتے ہیں اور ان جیسے بہت سارے منفی عوامل ڈائرکٹر کی صرف فنی رقابت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
سابق میں حتیٰ کہ ماضی قریب تک بھی ڈائرکٹر ، ایڈیشنل ڈائرکٹر ، ریجنل ڈپٹی ڈائرکٹر دواخانوں کا اچانک معائنہ (Surprise Inspection) جس سے دواخانوں کی کارکردگی ہمیشہ بہتر سے بہتر ہوا کرتی تھی لیکن موجودہ ڈائرکٹر اور ایڈیشنل ڈائرکٹر گویا جانتے ہی نہیں کہ کسی بھی سرکاری یونٹ کا اچانک معائنہ کیا ہوتا ہے اور اس کے انتظامی کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح بدنظمیوں کو بڑھاوا دے کر بہ اندازِ دگر فن کو مٹانے کی سازش کی جارہی ہے ۔
حقائق بالا کی روشنی میں ڈائرکٹر سے میری پرزور خواہش ہے کہ وہ اولین فرصت میں حالات بگڑنے سے قبل اپنا تبادلہ اپنے سسٹم کے کسی مناسب یونٹ پر کروالیں اور میڈیکل آفیسرز اسوسی ایشن کیلئے میرا مشورہ ہے کہ ڈائرکٹر کے پوسٹ پر پہلے کی طرح کسی IAS آفیسر کی پوسٹنگ کیلئے حکومت سے موثر اور کامیاب نمائندگی کریں ۔ بصورت دیگر اس ڈائرکٹر کے بعد ایورویدک کے کسی ڈاکٹر کو ڈائرکٹر بنادیا جائے گا اور ایسا ہوجائے تو قوی امکان ہے کہ جیسے جیسے اطباء وظیفہ پر ہٹتے جائیں گے کچھ مدت کیلئے اس پوسٹ کو خالی رکھ کر مختلف فرضی وجوہات کو بنیادیں بناکر پوسٹ ہی منسوخ کردیئے جاتے رہیں گے اور طب یونانی کی بربادی کیلئے آنے والی نسلیں ہم کو بجا طور پر مجرم قرار دیں گی۔