طب یونانی، سب سے قدیم نظام طب،تاریخ اور جائزہ

ڈاکٹر اشفاق احمد (ایم ڈی یونانی)
قومی ادارہ برائے ہندوستانی طبی وراثت، حیدرآباد
(National Institute of Indian Medical Heritage)
drashfaq.ccras@gmail.com ، 9700034608

ہندوستانی اطباء سے روابط:
خلیفۃ المنصورکے عہد خلافت سے بغداد میں ہندوستان سے ویدوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا جس کا مقصد آیوروید کی معلومات کو عربوں تک پہونچانا تھا۔خلیفہ ہارون الرشیدکے علاج کے لئے ہندوستان سے مشہور ہندی طبیب منکہ کو بغداد مدعو کیا گیا جو خلیفہ کی شفا کا ذریعہ بنا۔خلیفہ ہارون کی علم دوستی اور سخاوت کے چرچے سن کر ہندی ویدوں کی ایک بڑی جماعت بغداد میں جمع ہوگئی۔بیت الحکمت میںجو وید مامور کئے گئے تھے وہ سنسکرت اور عربی دونوں زبانوں میں ماہر تھے۔ منکہ الہندی نے آیور وید کی مشہور کتاب چرک سنہتا کا فارسی میں اور سشرت سنہتا کاعربی میں ترجمہ کیا۔ اس طرح عربوں نے ہندی طب سے بھرپور استفادہ کیا، یہی وجہ ہے کہ رازی، ابن بیطار، ربن طبری، نوح القمری جیسے عظیم اطباء کی کتب میں ہندی طب کے حوالے کثرت سے نظر آتے ہیں۔ علم الادویہ میںتو اس کا خاص اثر دکھتا ہے۔ اطریفل، سام پٹ، گجر پٹ جیسی اصطلاحات ہندی طب ہی سے ماخوذ ہیں۔اور یہ اخذ و استفادہ کا سلسلہ دونوں طرف سے جاری رہا، بہت سی یونانی دوائیںآیورویدمیںبھی شامل کی گئیں۔ یونانی طب جامع کمالات کا مجموعہ ہندی اطباء کے ربط میں آنے سے پہلے ہی تھا، ہاں اتنا ہے کہ آیوروید کے اضافہ سے اس میں چار چاند لگ گئے۔
اس کے بعد سمرقند، اصفہان اور دمشق میں نئے علمی ادارے ابھرے اور پروان چڑھنے لگے ۔ ان علمی درسگاہوں میں دور دور کے طلبا طب کی تعلیم حاصل کر نے کے لئے آنے لگے ۔ آغاز میں درسی کتب بالکلیہ وہی کتابیں تھیں جو یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ اس طرح طب اپنے مشرقی خطوط پر دوبارہ بقراطی بن گئی جس کی بنیاد تجربات اور منطق پر رکھی گئی تھی۔ ان مسلم اطباء نے یونانی شہ پاروں کو خرد برد و ضیاع سے بچا لیا ورنہ مغرب تک یہ علوم ہرگز نہ پہونچ پاتے اور دنیا ایک بہت بڑے علمی ذخیروں سے محروم ہو جاتی ۔
اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کی بدولت عربی علم و حکمت کے علم بردار نہایت آب وتاب کے ساتھ اسپین پہونچے جہاں تیزی کے ساتھ نئے مدارس تشکیل پانے لگے بالخصوص قرطبہ میں بہت جلد ایک ایسا عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا جس میں تقریباً ۳ لاکھ کتابیں تھیں ۔ اسی طرح سسلی ، طلاطلہ میں بھی علمی ادارے قائم ہوئے ۔ اس عہد میں طب نے اپنے تمام شعبوں میں بہت زیادہ ترقی کرلی اور عرب علماء فن قدیم طبی خزائن کے دیانت دار اور محافظ بن گئے ، عربوں نے ایسے نمایاں اور قابل یادگار نقوش و اثرات چھوڑے جو انہیں ممتاز حیثیت سے اب تک باقی رکھے ہوئے ہے، عربوں نے یونانی طب کی حفاظت بھی کی اور اس میں گراںقدر اضافے بھی کئے ۔ طب کا انتساب ان قوموں کی طرف کیا جن سے انہوں نے حاصل کیا، یہ ان کے ایمانداری و دیانت کی اعلیٰ مثال ہے جس کے معترف مغربی اقوام بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آ ج بھی یہ طب، طب یونانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس ایک صدی میں اتنا علمی ذخیرہ وجود میں آیا جو کئی صدیوں پر بھاری ہے ۔ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی تک پوری دنیا میں عربوں کا علمی دبدبہ قائم رہا ۔ عمل جراحی، فصد، حجامت، تعلیق، عمل کئی وغیرہ کو انھوں نے نہ صرف استعمال کیا بلکہ جدید اضافے بھی کئے ۔ دوران خون کی دریافت کا سہرا ایک عرب طبیب ابن نفیس کے سر ہے جس کے چھ سو سال بعد ولیم ہاروے نے اسے پیش کیا ۔ چیچک کا ٹیکہ اور امراض میں تعفن کا تصور رازی نے دیا۔مشہور واقعہ ہے کہ شفا خانہ کی تعمیر کے لئے صحتمند جگہ کا انتخاب کرنا ہوا تو رازی نے ایک ہی جانور کے گوشت کے ٹکڑے لے کر شہر کے مختلف مقامات پر لٹکوادیئے پھر جس مقام کاٹکڑا سب سے بعد میں متعفن ہوا اسی مقام کی آب وہوا کو شفا خانہ کی تعمیر کے لئے بہترین قرار دیا۔رازی کی یہ حکمت عملی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ماحول میں جراثیم کی موجودگی کے فلسفہ سے واقف تھا۔
امراض چشم پر خصوصی توجہ دی گئی مختلف طبی موضوعات پر بکثرت کتابیں لکھی گئیں ۔ اس وقت یورپ تاریک دور سے گذرہا تھا جب کہ اسلامی دنیا میں علم دین کی شمعیں روشن ہو رہی تھیں اس عہد کی تصنیفات سے بعد میں یورپ نے فائدہ اٹھایا اور کثرت سے عربی تصانیف کے لا طینی اور دیگر زبانوں میں ترجمے کئے گئے ۔ ابن سینا کی القانون، رازی کی الحاوی، مجوسی کی کامل الصناعۃ، زھراوی کی التصریف جیسی بہت سی تصنیفات کا مغربی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور سترھویں صدی عیسوی تک یورپ میں داخل نصاب رہیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ آیوروید سے اہل یوروپ نے تراجم کئے تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
پدم شری حکیم سید ظل الرحمن نے حیدرآباد میںایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ” طب یونانی کی ایک مسلمہ تاریخ ہے اور یہ سب سے قدیم طب ہے جس کا سلسلہ بابلی تہذیب سے شروع ہوتا ہے اور زندہ شکل میں آج بھی موجود ہے۔ یہ بات طلبہ و ا ساتذہ کو اپنے ذہن میں ہمیشہ رکھنا چاہیے۔اور یہ طب مسلمانوں کے تہذیب و ثقافت کی نمائندگی بھی کرتا ہے اس لئے ہمیں یونانی طب سے خاص لگائو اور محبت ہے۔ طب یونانی کے بنیادی نظریات اتنے سائنٹفک ،اتنے جان داراور اتنے شاندار ہیں کہ اسے اپنے ڈانڈے کسی دوسرے طب سے ملانے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کی کچھ سادہ لوح طبیبوں نے ماضی میںکیا تھا۔طب یونانی کا عالمی طب پر بڑا احسان ہے کہ اس کی دوائیں دوسرے نظامہائے طب میں بھی استعمال کی جارہی ہیں۔،،
طب یونانی ہندمیں: عرب و ایران کے بعد طب یونانی ہندوستان پہونچ چکی تھی ۔ لیکن بارہویں صدی عیسوی میں جب باقاعدہ مسلم سلطنتیں قائم ہوئیں تو طب یونانی کو استحکام ملا جس میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی وافر تعاون رہا ۔ رفتہ رفتہ یونان، عرب اور عجم کے بعدہندوستان طب یونانی کا نہ صرف وارث بلکہ مرکز بن گیا ۔ اس کا تسلسل عہد غزنی سے شروع ہو کر عہد غوری ، عہد غلامان،خلجی، لودھی ، تغلق اور عہد مغلیہ تک جاری رہا ۔ جنوبی ہندو دکن میں بہمنی سلطنت ، قطب شاہی ، عاد ل شاہی ، نظام شاہی اور آصف جاہی سلطنتوں نے بھی طب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ بر طانوی عہد میں طب یونانی کی ترقی متاثر ہوئی لیکن چونکہ عوام کے دلوں میں طب یونانی گھر کر چکی تھی اس لئے بہت سے طبی خانوادوں نے اسے فعال و متحرک بنائے رکھا اور اس طب کو زوال سے بچالیا ۔
برطانوی عہد کے غروب کے ایام میں مشہورمجاہد آزادی و مسیحائے قوم، حکیم اجمل خان کے مجاہدانہ کارناموں نے طب یونانی کی حفاظت میں اہم رول ادا کیا آپ نے طب یونانی میںریسرچ اور تحقیق کا آغاز کر کے عصری علوم سے دیسی طبوں کو ہم آہنگ کیا ۔ آزاد ہندوستان میں دیگرہند ی طبوں کے ساتھ طب یونانی کے بقا و فروغ کے لئے بھی مناسب قدم اٹھائے گئے ۔ جس کی وجہ سے طب یونانی کو اپنا جائز مقام حاصل ہوا اور آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں پر طب یونانی کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہے ۔ طب جدید کی طرح طب یونانی سے وابستہ افراد تمام سہولیات حکومت سے حاصل کر رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری مراعات حاصل کرنے والے اطباء خود کو اس کا اہل ثابت کرنے کے لئے جہد مسلسل، جانفشانی، عمل پیہم اور جدید تحقیق سے ہم آہنگ کرتے رہیں تا کہ طب یونانی زیادہ سے زیادہ ترقی کرتا چلا جائے۔