طبی نبویؐ کی دوائوں کو عام کرنے والی شخصیت حکیم محمد ظہیر احمد کی طبی خدمات کو خراج عقیدت

حکیم سید غوث الدین
ہندوستان کے مشہور طبیب حکیم محمد ظہیر احمد کلونجی والے صاحب کا 84 سال کی عمر میں بروز جمعہ 2 مارچ 2018ء کو 11 بجے شب حیدرآباد کے خانگی دواخانے میں انتقال ہوا۔ ان کے جسد خاکی کو حیدرآباد سے ان کے گائوں کریم نگر لے جایا گیا۔ جہاں بروز ہفتہ بعد نماز ظہر نماز جنازہ پرھائی گئی اور تدفین عمل میں آئی۔ حکیم ظہیر احمد نہ صرف طب یونانی میں منفرد دوائوں کی شناخت کے ماہر تھے بلکہ انہیں تیاری ادویہ پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی طب نبویؐ کی دوائوں سے علاج و معالجہ کرتے تھے۔ وہ پرانے اطبا کی طرف ماہر نبض، قارورہ شناسی کے علاوہ ، علم قیافہ کے ماہر تھے۔ وہ مریضوں کی شکل و صورت دیکھ کر مرض کی پہچان کرلیتے تھے اور انہیں دوائیں تجویز کرتے تھے۔ حکیم صاحب سے ہندوستان کے اطباء واقف تھے اور جب بھی اطباء حضرات حیدرآباد آئے وہ حکیم کلونجی والے سے ضرور ملاقات کرتے اور ان سے یونانی دوائوں، اصلی اور نقلی دوائوں اور طب نبویؐ کی دوائوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے تھے۔ چنانچہ حیدرآباد میں سی سی آئی ایم کے ورکشاپ، بیورو پرموشن آف اردو کی اردو طبی لغت کے کام کے ورکشاپ اور جب بھی بہ حیثیت ممتحن حیدرآباد آتے وہ ضرور ان سے ملاقات کرتے تھے۔

حکیم صاحب نے طب نبویؐ کی دوائوں خاص طور پر کلونجی سے تیل نکال کر سارے ہندوستان میں اپنا الگ مقام بنایا جس میں ہندوستان کے اطبا کا تعاون اور مشورے رہے۔ حکیم صاحب سے پروفیسر مبین (بمبئی) پدم شری حکیم سید ظل الرحمان (علیگڑھ) پروفیسر انیس الرحمان موظف مشیر یونانی حکومت ہند، پروفیسر رئیس الرحمان مشیر یونانی حکومت ہند، ڈاکٹر مشتاق احمد موظف ڈائرکٹر سی آر آئی یو ایم حیدرآباد کے علاوہ حیدرآباد کے کئی اطباء سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔ اس کے علاوہ حکیم صاحب جناب زاہد علی خاں ایڈیٹر روزنامہ سیاست، جناب ظہیر الدین علی خاں مینیجنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست کو اپنا سرپرست اور رہنما مانتے تھے۔حکیم صاحب نے اپنی زندگی میں کافی محنت، مشقت اور تکالیف کے بعد دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا تھا۔ حکیم ظہیر احمد نے طب نبویؐ کی مختلف منفرد دوائوں اور خاص طور پر کلونجی کے تیل کے ذریعہ ہر بیماری کا علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب حضورؐ کا ارشاد ہے کہ کالے دانوں کو اپنالو (یعنی کلونجی) سوائے موت کے تمام بیماریوں کا علاج اس میں موجود ہے تو وہ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر بیماری کا علاج کیا کرتے تھے۔ ابتداء میں وہ دوائیں تیار کرکے مریضوں کو گائوں گائوں اور شہر حیدرآباد میں مفت میں تقسیم کرتے تھے اور 400 تا 500 مریضوں کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو عام کرنے کے لیے انہوں نے محمدیہ پروڈکٹس یونانی فارمیسی کریم نگر میں قائم کی جہاں ماہر اطباء کے زیر نگرانی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ میرا بھی حکیم صاحب کے ساتھ گزشتہ 25 برسوں کا ساتھ ہے اور میں نے ابتداء سے ہی حکیم کلونجی والے کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھا ہے۔ حکیم صاحب کریم نگر سے ہر ہفتہ اور اتوار کو حیدرآباد میں دوائیں گائوں میں تیار کرکے لاتے اور رائیل لاج نامپلی پر 9 بجے دن سے 6 بجے شام تک مریضوں کو مفت تشخیص کرتے ہوئے دوائوں کے برائے نام پیسے لیتے تھے۔ حکیم صاحب کے ساتھ میرے ساتھ دو لیڈی ڈاکٹرز بھی مریضوں کو دیکھتے اور انہیں طب نبویؐ کی دوائیں تجویز کرتے تھے۔ حکیم صاحب کے پاس نہ صرف سیاسی، سماجی، صحافی اور ادب نواز شخصیتیں رجوع ہوتی اور ان کی دوائوں سے فائدہ حاصل کرتے۔ حکیم صاحب کے پاس بلالحاظ مذہب و ملت ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، مرد و خواتین کی کثیر تعداد آتی تھی۔ حکیم صاحب کو ابتداء میں جناب وحید اعظمی انجینئر، جناب محسن بن الکثیری، جناب نذیر حسین، جناب خان صاحب کا بڑا ساتھ رہا۔ صحافی برادری میں انگریزی، تلگو، اردو کے جرنلسٹس ریڈیو اور ٹی وی کے فنکاروں نے ان سے ملاقات کرتے اور اپنی تکالیف بیان کرتے تھے۔ صحافی برادری میں جناب یوسف مڑکی، جناب عابد صدیقی، جناب فیض محمد اصغر، جناب عارف احمد، جناب محمد سلیم قابل ذکر ہیں۔ حکیم صاحب طب نبویؐ کی دوائوں اور خاص طور پر کلونجی تیل اور دیگر پروڈکٹس کو عام کرنے کے لیے مہاراشٹرا، کرناٹک، تاملناڈو، تلنگانہ، آندھرا کے مختلف اضلاع کے علاوہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مفت میڈیکل کیمپ میں شرکت کرتے اور طب نبویؐ کی دوائیں تجویز کرتے۔ حکیم صاحب کے پاس مختلف ہندو تنظیموں کے لوگ اور خاص طور پر برہما کماری کے ممبرز جو نہ صرف حیدرآباد و بلکہ ہندوستان بھر میں موجود ہیں، رجوع ہوکر اپنا علاج کرواتے ہیں۔ وہ دوائیں بڑی عقیدت سے کھاتے ہیں۔ ایک دفعہ برہما کماری کے ممبرز حکیم صاحب کے پاس رجوع ہوئے اور ان سے تنظیم کی صدر جس کو وہ لوگ دادی کہتے ہیں ان کی تکالیف بیان کی اور بتایا کہ انہیں تمام جسم پر پھوڑے پھنسیاں موجود ہیں اور تلووئوں پر بھی پھنسیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے مجبور ہے اور وہیل چیر سے چلتی ہیں۔ حکیم صاحب نے ان کی کیفیت سننے کے بعد تنظیم کی صدر دادی سے فون پر بات کیا اور باتیں سننے کے بعد مرض کی تشخیص Psoryasis کی اور اس کے لیے انہوں نے کلونجی تیل، اور کلونجی سے تیار کردہ پائوڈر اور مرہم روانہ کیا۔ دادی نے تین ماہ تک مسلسل اس کو استعمال کیا اور انہیں مکمل فائدہ ہوگیا جس کی وجہ سے تنظیم کے تمام ممبرز اور دادی بہت خوش ہوئی اور لوگوں سے کہنے لگی کہ میں حکیم صاحب کی تیار کردہ پرافٹ محمدؐ کی دوائوں کو استعمال کرتے ہوئے مکمل شفایاب ہوگئی۔ اس کے بعد جب برہما کماری کی بین الاقوامی کانفرنس ہوئی تو دادی نے کہا کہ اس کانفرنس کا افتتاح حکیم ظہیر احمد کلونجی والوں سے کروائیں کیوں کہ انہیں ان کی دوا جو پرافٹ محمدؐ کی بتائی ہوئی ہیں مجھے پورا فائدہ ہوا ہے۔ چنانچہ حکیم ظہیر احمد صاحب بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاح کے لیے مائونٹ ابوا (راجستھان) گئے تنظیم کی صدر دادی نے کانفرنس کے ممبرز سے حکیم صاحب کا تعارف کروایا اور بتایا کہ مجھے حکیم صاحب کے پرافٹ محمدؐ کی دوائوں سے فائدہ ہوا ہے جس کی وجہ سے آج کا افتتاح میں حکیم صاحب سے کروارہی ہوں۔ حکیم صاحب ایک ہفتہ رجستھان میں رہے جہاں نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا سے آئے ہوئے مندوبین نے ان سے اپنی تکالیف بتاکر حکیم صاحب سے کلونجی تیل اور دیگر دوائیں حاصل کی اور اس طرح حکیم صاحب کا ربط دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں سے ہوگیا۔

کلونجی تیل پر نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ، لندن، سائوتھ افریقہ، سعودی عربیہ میں بھی ریسرچ کا کام ہورہا ہے اور ہر مرض میں اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ کلونجی تیل کو ایلوپتھک میڈیکل کالج علیگڑھ اور میڈیکل کالج لکھنو میں کئی ریسرچ اسکالرس نے شوگر، پیٹ کے امراض، کینسر، اور دوسرے کئی امراض میں کام کرتے ہوئے کلونجی تیل کو سو فیصد کامیاب اور مفید قرار دیا۔ محمدیہ پروڈکٹس کی دوائیں نہ صرف ہندوستان کی ہر ریاست بلکہ بیرونی ممالک، امریکہ، سعودی عربیہ اور دوسرے ممالک کو بھی جارہی ہیں۔ حیدرآباد میں ایس زیڈ ایجنسیز عابڈس پر کلونجی تیل اور دیگر دوائیں تمام آندھراپردیش اور تلنگانہ کے اضلاع میں سپلائی کی جارہی ہیں۔ حکیم صاحب مرکزی حکومت وزارت صحت اور ریاستی حکومت کی طرف سے منعقدہ بڑے بڑے کانفرنس، سمینار، سمپوزیم اور فارماسویٹیکل نمائش میں کلونجی کا اسٹال لگاتے ہیں اور ساوینیر میں بھی اشتہار دیتے ہیں۔ ہر سال نمائش میں کلونجی کا اسٹال لگایا جاتا ہے تاکہ طب یونانی کی اور کلونجی تیل کی تشہیر ہو اور لوگ اس سے مکمل فائدہ حاصل کرتے ہوئے شفایاب ہوسکے۔ حکیم صاحب کے نزدیک مریضوں کی خدمت کرنا اصل مقصد تھا نہ کہ پیسے کمانا۔
حکیم صاحب غریبوں کا مفت علاج کرتے تھے اور غریبوں، بیوائوں، مساکین، ضرورت مندوں کی خاموشی سے مالی مدد کرتے تھے۔ حکیم صاحب نے اودگیر (ضلع لاتور) مہاراشٹرا میں اپنے والد جناب محمد سرور اور والدہ کے نام سے مسجد تعمیر کی۔ انہوں نے اپنے دونوں لڑکوں محمد شوکت پاشاہ، محمد عبدالقادر کو نصیحت کی اور علاج و معالجہ میں غریبوں اور مساکین کا خاص خیال رکھنے اور طب نبویؐ کی دوائوں کو عام کرنے کے لیے کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔ امید ہے کہ حکیم صاحب کے چھوڑے ہوئے کام ان کے دونوں صاحبزادے پوار کریں گے۔ آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔ آمین