طاقوں میں سجانے کو یہ قرآن نہیں ہے

مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی … مودی اپنی گھر والی کی فکر کریں
فیڈرل فرنٹ … جاگتی آنکھوں کا خواب

رشیدالدین
مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر ووٹ بینک کی سیاست کرنے والی بی جے پی حکومت نے عددی طاقت کی بنیاد پر لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کی منظوری حاصل کرلی۔ جس طرح طلاق ثلاثہ کا پہلا بل راجیہ سبھا میں ابھی بھی زیر التواء ہے ، اسی میں بعض ترمیمات کے ذریعہ نیا بل پیش کیا گیا۔ نئے ترمیمی بل کا حشر بھی پرانے بل کی طرح ہوگا کیونکہ بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی حکومت پھر ایک بار آرڈیننس کا سہارا لے گی۔ طلاق ثلاثہ تعزیری جرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ مودی حکومت خود کو خواتین کی مسیحا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہوئے شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کی جائے۔ شریعت اسلامی سنگھ پریوار کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے ۔ اسلام نے نکاح اور طلاق کے سلسلہ میں جو ضوابط مرتب کئے ہیں، اس کی مثال کوئی اور مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ لوک سبھا میں مباحث کے دوران کانگریس کی خاتون رکن نے سورہ بقرہ اور سورہ نساء کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ قرآن میں بتائے گئے طریقہ طلاق کو قانونی شکل دے۔ کیا طلاق کے واقعات صرف مسلمانوں میں ہیں ، دیگر مذاہب میں کیا اس کا رواج نہیں ہے ؟ جب تمام مذاہب میں یہ برائی موجود ہے تو پھر صرف مسلمانوں کیلئے سخت قوانین اور سزا کیوں ؟ طلاق اور خواتین کو بے سہارا چھوڑ دینے کے معاملات مسلمانوں سے زیادہ دیگر مذاہب میں پائے گئے لیکن مودی حکومت کو فکر ہے تو بس مسلمانوں کی ۔ اگر کوئی غیر مسلم طلاق دیں تو اسے قانون کے مطابق محض ایک سال کی سزا دی جاسکتی ہے لیکن اگر مسلم سے یہ جرم سرزد ہوجائے تو اسے تین سال کی سزا ہوگی۔ مذہب کی بنیاد پر یہ امتیازی سلوک کیوں ؟ مسلم خواتین سے ہمدردی کا ڈھونگ کرنے والے اس وقت کیوں تماشائی بنے رہے، جب گجرات میں مسلم خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا۔ حاملہ خواتین کے پیٹ چیر دیئے گئے تھے ۔ اس وقت گجرات کے چیف منسٹر یہی نریندر مودی تھے جو آج مسلم ماں بہنوں کو انصاف دلانے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ مسلم خواتین کو طلاق کے مسئلہ پر انصاف دلانے سے قبل گجرات کی ان خواتین کو انصاف ملنا چاہئے جو بیوہ ہوگئیں اور جن کے لخت جگر آنکھوں کے سامنے ہلاک کردیئے گئے ۔ ذکیہ جعفری کو انصاف کب ملے گا ؟ جن کے دامن پر بے گناہ مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں ، وہ کس منہ سے مسلم خواتین سے ہمدردی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ نریندر مودی پہلے گجرات کی مسلم خواتین سے معافی مانگیں، جن کا سہاگ اجڑ گیا۔ خواتین سے ہمدردی کے لاکھ دعوے کئے جائیں لیکن بی جے پی کے چہرے پر لگی کالک صاف نہیں ہوسکتی۔ دنیا کی کسی فیکٹری میں ایسا صابن نہیں بنا جو مودی اور امیت شاہ پر لگے داغ دھو سکے۔ بی جے پی اس غلط فہمی میں ہے کہ طلاق ثلاثہ قانون کے ذریعہ مسلم خواتین کو اسلام اور شریعت سے متنفر کرنے میں مدد ملے گی اور ہندو ووٹ بینک مستحکم ہوگا۔ چند مذہب بیزار اور شریعت ناآشنا عورتوں کو آگے کرتے ہوئے اسلام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جار ہی ہے ۔ طلاق ثلاثہ کو عدالت میں چیلنج کرنے والی سائرہ بانو نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی لیکن وہاں اس کا کیا حشر ہوا ، ہر کوئی واقف ہے۔ تین ریاستوں میں بی جے پی کی شکست سے ثابت ہوگیا کہ عوام بی جے پی کے کمیونل ایجنڈہ کا شکار نہیں ہوں گے۔ طلاق ثلاثہ مسئلہ سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں کہ ہندو۔ عوام جان چکے ہیں کہ ووٹ بینک سیاست کے تحت اس طرح کے حساس موضوعات کو ہوا دی جاتی ہے۔ لوک سبھا میں بل پر مباحث کے دوران مسلم ارکان نے شریعت کی روح سے اپنا موقف ضرور رکھا لیکن بعض غیر مسلم ارکان بالخصوص خواتین میں شرعی تعلیمات کی تائید میں مدلل بحث کی جو خوش آئند ہے۔ شریعت اور اسلامی تعلیمات کو غیر مسلم ارکان پارلیمنٹ بھی سمجھنے لگے ہیں۔ کیا محض قانون سازی سے طلاق ثلاثہ کے واقعات پر روک لگ جائے گی ؟ خود حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں 430 معاملات منظر عام پر آئے جن میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد 201 معاملات شامل ہیں۔ ملک میں ہر جرم کیلئے سزا ہے لیکن کیا جرائم پر قابو پالیا گیا۔ طلاق ثلاثہ کے واقعات کو بھی قانون سے نہیں بلکہ شرعی احکامات کے بارے میں شعور بیداری کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے ۔ جہالت اور شریعت سے دوری کے نتیجہ میں کچھ واقعات پیش آئیں تو اس کے لئے اسلام کو مورد الزام ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ حکومت کی ذہنیت پر ماتم کریں یا ہنسیں کہ سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی اور ایک سے زائد خواتین کے ساتھ تعلقات کو جائز قرار دے دیا لیکن اس پر مودی حکومت خاموش ہے لیکن تین طلاق پر واویلا مچایا جارہا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے جس طرح بے حیائی کا لائسنس جاری ہوگیا، اس کی تو مودی حکومت کو فکر نہیں۔ مرد کو بیوی کے علاوہ دیگر عورتوں سے ناجائز تعلقات کی اجازت سے بڑھ کر خواتین سے ناانصافی اور کیا ہوگی لیکن افسوس کہ حکومت اور خواتین کی تنظیموں نے بھی فیصلہ کے خلاف اپیل دائر نہیں کی۔ حکومت کو قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کرنا چاہئے تھا ۔ حکومت کو طلاق سے متاثرہ خواتین کی فکر ہے لیکن ان خواتین کا کیا ہوگا جنہیں شوہروں نے طلاق کے بغیر ہی بے سہارا چھوڑ دیا ہے ۔ اس کے لئے آخر کب قانون بنایا جائے گا ۔ ایسے افراد میں خود نریندر مودی سرفہرست ہیں جن کی شریک حیات بے سہارا خاتون کی طرح کسی آشرم میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ مودی پہلے اپنی شریک حیات کو انصاف دے کر مثال قائم کریں ، اس کے بعد مسلم خواتین سے ہمدردی کریں۔
تین ریاستوں میں شکست کے بعد نریندر مودی جیسے بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں، وہ مختلف ریاستوں کے دورہ کے موقع پر جس انداز میں کانگریس کو نشانہ بنارہے ہیں ، اس سے ان کا خوف واضح دکھائی دے رہا ہے۔ مودی کے قریبی مانے جانے والے بابا رام دیو جنہوں نے 2014 ء میں مودی کے حق میں مہم چلائی تھی ، آج کہہ رہے ہیں کہ 2019 ء میں مودی کا دوبارہ وزیراعظم بننا آسان نہیں۔ آئندہ وزیراعظم کون ہوگا اس بارے میں بابا رام دیو کچھ بھی کہنے سے گریز کر رہے ہیں۔ رام دیو کا یہ بیان اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ملک میں مودی میجک ختم ہورہا ہے۔ مودی کی شہرت پر بی جے پی ملک میں دوبارہ اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام 2019 ء میں مودی کے حق میں فیصلہ نہیں دیں گے۔ ایسے وقت جبکہ غیر بی جے پی سیکولر جماعتیں اتحاد کی تشکیل کی سمت پیش قدمی کر رہی ہے تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر نے فیڈرل فرنٹ کا نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ غیر کانگریس اور غیر بی جے پی جماعتوں پر مشتمل محاذ کی تشکیل کا دعویٰ بی جے پی کی مدد کے سوا کچھ نہیں۔ علاقائی جماعتیں بھی کے سی آر کی اس چال کو سمجھنے لگی ہیں اور فیڈرل فرنٹ کے سی آر کے لئے محض جاگتی آنکھوں کا خواب ثابت ہوگا۔ دو مرحلوں میں کے سی آر نے مختلف علاقائی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی لیکن فرنٹ کی تشکیل میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ گزشتہ دنوں نوین پٹنائک اور ممتا بنرجی نے کے سی آر کو مایوس کردیا۔ ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی ایک جہاندیدہ خاتون ہیں اور وہ کے سی آر کے جھانسہ میں پھنسنے والی نہیں ہیں۔ ممتا بنرجی کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کانگریس کو چھوڑ کر اپنی علحدہ پارٹی بنائی اور مغربی بنگال میں کمیونسٹ جماعتوں کے 35 سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا۔ آج بھی وہ بیک وقت کانگریس ، کمیونسٹ اور بی جے پی سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ اس پرعزم اور باصلاحیت خاتون کو بی جے پی کی تائید میں کھڑا کرنا ممکن نہیں ہے۔ مایاوتی اور اکھلیش یادو نے بھی کے سی آر کی مہم سے دوری اختیار کرلی۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد کے سی آر کو تشکیل حکومت کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ نومنتخب ارکان اسمبلی نے آج تک حلف نہیں لیا۔ ان تمام اہم امور کو پس پشت ڈال کر وہ بی جے پی کی تائید میں نکل پڑے ۔ عوامی منتخب اسمبلی کو ثانوی نوعیت دے دی گئی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کے سی آر نے تین ریاستوں کے دورہ کے بعد نریندر مودی سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں 2019 ء میں کامیابی کا گر سکھا دیا۔ اگر ضرورت پڑے تو کے سی آر لوک سبھا انتخابات کے بعد بی جے پی سے مفاہمت میں گریز نہیں کریں گے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر جاری مباحث کے پس منظر میں ماجد دیوبندی کا یہ شعر مسلمانوں کیلئے کسی پیام سے کم نہیں ؎
ہر لفظ کو سینے میں بسالو تو بنے بات
طاقوں میں سجانے کو یہ قرآن نہیں ہے