ضرر و صفی کی شاعرانہ وسعتیں

وفا نقوی

ادبی افق پر فی الوقت نہ جانے کتنے صاحب قلم مثل آفتاب و ماہتاب اپنی اپنی کاوش شعر و سخن کے نور و تابانی کے باعث سند افتخار و اعزاز کے حامل نظر آتے ہیں ۔ ان کی خدمات علم و فن یقینا ادب کے مستقبل کو تابناک رکھنے کیلئے نہایت معاون ہیں ۔ انہیں افراد میں ضررؔ و صفی کی شخصیت بھی ہے جو راہ تخلیقیت میں نہایت جواں مردی کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے سرگرم سفر ہیں ۔ بلا شبہ وہ ایسی شعری صلاحیتوں کے متحمل ہیں کہ جن کی ستائش ہر سخن شناس پر لازم ہے ۔

اس مختصر سے مضمون میں ان کے دو شعری مجموعوں ’’ حرف حرف لہو لہو ‘‘ اور ’’ ساغر حرف ‘‘ کے حوالے سے ان کی شاعرانہ وسعتوں کی تہداریوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا مقصود ہے ۔

یہ بات روز روشن کی طرح تمام کرہ ارضی پر عیاں ہے کہ فن کار پر اس کے ماحول و معاشرے کا نہایت گہرہ اثر مرتسم ہوتا ہے وہ عوام الناس سے ہٹ کر اپنی نگاہ بسیط کے دریا میں غوطہ زن رہتا ہے عام آدمی کی طرح وہ جہان رنگ و بو سے سرسری طور سے نہیں گذرتا بلکہ اسے کائنات کے ذرے ذرے میں ایک وسیع دنیا آباد نظر آتی ہے ۔ سماج میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات اس کے فکر کے سمندر کو مصروف تلاطم کردیتے ہیں جس کے باعث اس کے لب ہائے حق پیام سے ’’ آہ ‘‘ نکلتی ہے یا ’’ واہ ‘‘ اور اس کی موزوں طبیعت اس کے رخش قلم کو مہمیز کر اٹھتی ہے جس کے نتیجہ میں ایسی ایسی تخلیقات وجود میں آتی ہیں جن کی رہتی دنیا تک کوئی مثال میسرنہیں ہوتی گویا کہ فنکار کی تخلیق اس کی طرز زندگی کی آئینہ داری کی بہترین مثال تو ہوتی ہی ہے ساتھ ہی اس کے عقائد کی دلیل بھی ۔ اس توسل سے اس کے مزاج کا بھی بہ آسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے ۔

ضرر ؔصاحب کی شاعری پڑھ کر پتہ لگتا ہے کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدن سے نہایت متاثر ہیں ، جو ان کی تخلیق میں کبھی استعارے ،کبھی علامتوں اور کبھی تلمیحات کی صورت میں نمودار ہوتی رہتی ہیں ، اس کابین ثبوت مذکورہ دونوں مجموعوں کے آغاز میں ہی فراہم ہوجاتا ہے جہاں ’’ حمد ‘’ ’’ نعت ‘‘ ’’ منقبت ‘‘ اور ’’ سلام ‘‘ جیسی تقدیسی شاعری اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ نما نظر آتی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر نظموں اور حتی کے غزلوں میں بھی ان کی پاکیزگی فکر یعنی مذہب اسلام سے والہانہ عشق جھلکتا ہے ۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی صاحب سخن کسی مخصوص صنف سخن میں کمال حاصل کرچکا ہوتا ہے تو کسی دوسری صنف کے اصول و قواعد کو نبھانے سے قاصر رہتا ہے ۔ کیوں کہ ہر صنف کے الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں اور بہ یک وقت ان کو نبھانا سہل نہیں لیکن ضررؔ و صفی کا خاصہ یہ ہے کہ انہیں ادب کی مختلف اصناف پر دسترس حاصل ہے ، چاہے نظم ہو ، غزل ہو یا پھر صنف قطعہ وہ سب کا حق ادا کرتے ہیں ۔ آئیے ان کی نظموں پر ایک طائرانہ نگاہ کرتے ہیں ۔

مذکورہ مجموؤںمیں جو نظمیں شامل کی گئی ہیں ان کی تعداد تقریباً سینتیس ہے ، جن میں جیسا کہ عرض کیا گیا اسلامی عقائد و محبت بھی عیاں ہیں ، سماج کی پسپائی کا بھی بیان ہے ، لمحہ لمحہ معدوم ہوتے اقدار کا بھی ذکر ہے ، اسلاف کی تعریف و توصیف بھی ہے ، واردات دل بھی ہے اور عوام الناس کا درد بھی شامل ہے ، مثلاً ایک نظم دیکھئیے
چاپ قدموں کی لئے وقت کی رفتار کے ساتھ
وہ کھنکتے ہوئے لہجے میں بڑے پیار کے ساتھ
اپنی نظموں کو سناتا رہا جھنکار کے ساتھ
( آہ …… کیفیؔ آعظمی )
حرف حرف لہو لہو
پوری نظم پڑھ جائیے جگہ جگہ نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ کیفی اعظمی کی وفات پر اظہار تاسف کیا گیا ہے ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اپنے اسلاف اپنے بزرگ شعراء سے بے انتہاء عقیدت ہے ۔

ان کی نظمیں انسان کی بگڑی ہوئی حالت اس کی عارضی زندگی اس کے جفا و جبر کی داستان بھی ہیں اور وطن پرستی کے نغمے بھی گاتی ہیں ، مثلاً ’’ میرا وطن تلنگانہ ‘‘ کو پڑھئے تو ظاہر ہوگا کہ انہیں اپنے آبائی وطن سے کس قدر محبت ہے ، یہ نظم جہاں بہترین منظر کشی کا ثبوت فراہم کرتی ہے وہیں اپنے وطن کے تئیں ان کی فکر کی بھی عکاس ہے ، وطن سے دور رہ کر ان کے جو جذبات ہیں انہوں نے اس خوبصورتی سے بیان کئے ہیں کہ اگر کوئی صاحب فکر مہاجر اس کا مطالعہ کرے تو اپنے دل پر قابو نہیں رکھ سکتا اور بے ساختہ گر یہ کناں ہوکر اپنے وطن کی یاد میں آہ ضرور کہہ اُٹھے گا ۔

انہوںنے ہندوستان کے خوبصورت علاقوں اور دلفریب وادیوں پر بھی قلم اٹھاکر اپنے وطن محبت کا پیغام عام کیا ہے ، وہ اس کے جمال اس سیحسن پر د ل فریفتہ نظر آتے ہیں ۔ مثلاً ان کی ایک نظم ’’ وادی کشمیر ‘‘ دیکھیں ۔
دل نشیں و دلربا دل کش حسیں تصویر ہے
کس قدر تو خوبصورت وادی کشمیر ہے
چوٹیوں پر برف کی زریں شاعوں کا ہجوم
کوہساروں سے اترتی آبشاروں کی ہے دھوم
( وادی کشمیر ، ساغر حرف )

پوری نظم پڑھ جائیے تو اندازہ ہوگا کہ جہاں انہوں نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ منظر کشی سے کام لیا ہے وہیں ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے دیس سے والہانہ عشق رکھتے ہیں ۔وہ چونکہ نہایت حساس طبیعت کے مالک ہیں تو درد انسانیت ان کے دل میں جاگُزیں نظر آتا ہے وہ اس کرہء ارضی کے دیگر ممالک میں رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے بھی افسردہ نظر آتے ہیں ۔ ان کی ایک نظم ’’ ارضِ فلسطین ‘‘ دیکھیں

انبیاء کی زمین / مُقدس ترین / قبلہ اولین / شخصی بموں کے دھماکے / بارود کی بو / پتھراؤ کہرام ہے / لاشیں ہی لاشیں … ۔
( ارضِ فلسطین ، حرف حرف لہو لہو )
یہ نظم ان کی انسان دوستی کی بھی مثال ہے اور اسلام سے محبت کا ثبوت بھی ۔

ان کی نظمیں کہیں کہیں سماج اور کائنات پر طنز بھی کرتی ہیں اور اس کی بے حسی پر وار بھی کرتی ہیں ’’ پتھر کا ترانہ ‘‘ دیکھیں ۔

دیوانگی کے ہاتھ میں / وحشت کا پتھر ہے / کہیں نفرت کا پتھر ہے / صلہ چاہت کا پتھر ہے ، ( پتھر کا ترانہ ، ساغرِ حرف ) ۔

اس نظم میں انہوں نے ماضی کی مثال دیتے ہوئے موجودہ معاشرے کی طرزِ زندگی کو پتھر کی صورت میں دیکھا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ پتھر ‘‘ خاموشی کی علامت ہوتا ہے ، یعنی آج کے سماج میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموشی اختیار کرنا ان کی نگاہ میں مناسب نہیں ۔
ان کی نظمیں آدمی کی معمولی اور ناپائیدار ہستی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں

سطح پر تھا بلبلا / ایک پل کا رقص تھا / ایک پل کی جستجو / ہلکی سی لہر اُٹھی / بلبلے کی سطح سے / وجود مٹ کے رہ گیا / ( آدمی ، ساغرِ حرف )

وہ بغض و تعصب کے خلاف بھی پرچم احتجاج بلند کرتے ہیں ، ’’ بات سے بات چلے ‘‘ ’’ تعصب کی آندھی ‘‘ جیسی نظمیں اس بات کی عکاس ہیں کہ وہ سماج کو تعصب سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ تعصب کا زہر جب انسان کی رگ و پے میں پیوست ہوجاتا ہے تو انسان حیوان صفت ہوجاتا ہے ، کہتے ہیں ۔

سمندر سے یہ آتی ہے نہ صحراؤں سے آتی ہے
تعصب، بغض و نفرت کے یہ ایوانوں سے آتی ہے
بستیاں تاراج کردیتی ہے دہقانوں میں آتی ہے
دل کی حرکت بند کردیتی ہے شریانوں میں آتی ہے
( تعصب کی آندھی ، حرف حرف ساغر )

الغرض ان کی نظمیں جہاں ان کی مثبت فکر ، ان کی وطنی محبت ، اتحاد پسندی ، ان کی صاف و شفاف فکر کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں وہیں ان کی حسن پرستی اور تمنائے وصال کی بھی تصویر پیش کرتی ہیں ، وہ وصال کی لذت سے بھی آشنا ہیں اور ہجر کی اذیت سے بھی روشناس نظر آتے ہیں ، ان کی نظموں میں بہترین علامتوں اور استعاروں کا بھی استعمال ہوا ہے جو ان کے صنفِ نظم پر مکمل دست رس رکھنے کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے ۔
آئیے اب ان کی غزل کا بھی طائرانہ مطالعہ کیا جائے ۔

غزل کا فن جن اصول و قواعد کا متقاضی ہوتا ہے اس پر کھرا اترنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں یہ راہ سخت ترین و سنگلاخ وادیوں سے پُر ہوتی ہے ۔ صرف دو مصرعوں میں قوافی و ردیف کی پابندی کو نبھاتے ہوئے گہرائی اور گیرائی کا دامن فکر کے ہاتھوں میں سنبھالتے ہوئے فکر کی شمع کو روشن کرنا آسان نہیں ہوگا مگر جسے مالک حقیقی صلاحیت عطا کرے ۔
ضررؔ صفی ایک ایسے شاعر ہیں جو غزل کے تقاضوں پر بہ خوبی پورا اترتے ہیں ان کی زبان نہایت سادہ و سلیس ہے کبھی کبھی وہ عام بول چال سے بھی کام لیتے ہیں تو کہیں محاوروں کے ذریعہ سے اپنی بات میں وزن پیدا کرتے ہیں ، ان کی شاعری میں ان کی علاقائی زبان کے اثرات بھی نمایاں نظر آتے ہیں ، مثلاً

ہر ایک کام کو وہ میرے رائیگاں لکھ کر
پہاڑ کھود کے چوہا نکال لیتا ہے
ہر ایک تنکے پہ ہیں چونچ کے نشاں میرے
بنا ہے خون پسینے سے آشیاں میرا
پیرہن ان کے کہاں کون چھپایا ہوگا
کچھ پری زاد جو تالاب میں بیٹھے ہوئے ہیں
مجھ کو ہجوم گھیر کے سنگ سار کردیا
رنجور اور نڈھال وہ کھڑکی سے ہٹ گئے

پہلے شعر میں ’’ پہاڑ کھود کے چوہا نکالنے ‘‘ کا جو محاورہ آیا ہے وہ ان کی محاورے کے تئیں دلچسپی ظاہر کرتا ہے ، دوسرے شعر میں ’’ چونچ ‘‘ عام بول چال کا لفظ بھی کافی متاثر کرتا ہے ، تیسرے اور چوتھے شعر میں ’’ پیرہن ان کا کہاں کون چھپایا ہوگا ‘’ اور ’’ مجھ کو ہجوم دیکھ کے سنگ سار کردیا ‘‘ ’’ چھپایا ہوگا ‘‘ اور ’’ سنگ سار کردیا ‘‘ ان کی علاقائی زبان یا بولی کے اثرات کو نمایاں کرتے ہیں ۔
ان کی شاعری پر غور کیا جائے تو ایک بات نمایاں طور پر عیاں ہوتی ہے کہ ان کے یہاں تلمیحات کا بہت استعمال ہوا ہے ، انہوں نے اپنی شاعری میں اسلامی تلمیح ، داستانی تلمیح اور ساتھ ہی دیومالائی تلمیح کا بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے جو ان کی ذہانت کی دلیل ہے مثلاً

آپ کے در کے غلاموں کو یہ اعجاز ملا
روند کر قیصر و کسریٰ کو گذرتے دیکھا
عجیب موڑ سے گذرا ہے رام کا بن باس
جو قید سیتا کو راون کے پاس رکھتا ہے
قید سے شیر کو آزاد کرانے کیلئے
ایک چوہے کو ضررؔ جال کترتے دیکھا
پہلے شعر میں اسلامی تلمیح دوسرے میں دیومالائی تلمیح اور تیسرے شعر میں داستانی تلمیح کا بہترین استعمال بے ساختہ ان کی ستائش کو مجبور کر اٹھتا ہے ۔

وہ اپنی شاعری میں واقعات کربلا سے متعلق الفاظ کا بھی نہایت خوبی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔
تبدیل ہوکے رہ گیا اک سبزہ زار میں
صحرا کا اب سراب مقدر نہیں رہا
یہاں ’’ صحرا ‘‘ اور ’’ سراب ‘‘ جیسے الفاظ ذہن کو واقعہ کی کربلا کی طرف مبذول کرتے ہیں اور داد وصول کرتے ہیں ، ان کے ہاں ’’ ہوا ‘’ ’’ شجر ‘‘ ’’ کھنڈر ‘‘ ’’ بوڑھا برگد ‘‘ ’’ پیاسی دھرتی ‘‘ ’’ بھنورہ ‘‘ ’’ کلی ‘‘ جیسے الفاظ بطور علامت استعمال ہوئے ہیں مندرجہ ذیل اشعار میں مذکورہ علامتوں کا خوبصورتی کے ساتھ استعمال دیکھیں ۔

ہوائے تیز کے جھونکوں کی سنسناہٹ سے
اکھڑتے خیموں سے کرتی ہے بات تاریکی
حق بات کا اظہار بھی ڈٹ کر نہیں کرتے
شکوہ کوئی اشجار بھی کٹ کر نہیں کرتے
سب مری دیوانگی سے تنگ آکر جاچکے
اب کوئی آسیب بھی باقی نہیں کھنڈرات میں
بوڑھا برگد دیکھ رہا ہے
دونوں کنارے کب ملتے ہیں
پیاسی دھرتی کانپ رہی ہے
رخساروں سے لب ہلتے ہیں
گنگناتے گاتے بھنوروں سے یہ کہتی ہے بہار
ادھ کھلی کلیوں پہ بیٹھو پی کے رس زندہ رہو

وہ خوبصورت تشبیہات و استعارات کو بھی اپنی شاعری میں مقام عطا کرتے ہیں جیسے

ابرؤں کی لچک معاذ اللہ
لوگ ان نشتروں پہ مرتے ہیں

ان کی شاعری سے ان کی حسن پرستی ، محبوب کا انداز بیان ، وصال کی خواہش ، ملاقات کی کیفیت ، ہجر اور تنہائی کی تکلیف کے ساتھ ساتھ حسن کی موجودہ صورتحال بھی عیاں ہوتی ہے ۔ کچھ اشعار دیکھیں ۔

وہ اپنی وعدہ خلافی پہ کب ہیں شرمندہ
حوالے ،حیلے ،بہانے تلاش کرتے ہیں
اک دری کی طرح بدن بچھادینا
ہے یہی کام کاج راتوں میں
ان کے لبوں سے لب جو ملے
سارے بدن میں پھیلی آگ
تھاپ طبلے کی جھنک پائل کی یہ برسات میں
مائی بے آب ہوں بستر پہ تنہا رات میں
عریاں ہے سینہ حسن کا ، چہرہ ہے بے نقاب
اب عشق بھی تو طرزِ کہن سے نکل گیا

المختصر ان کی شاعری روایت اور نئی شاعری کا بہترین امتزاج ہے ، ان کی زبان نہایت دلکش و دلفریب ہے ، ان کے یہاں لہجے کا مد و جزر بھی ہے الفاظ کا در و بست بھی ، وہ ایک دردمند دل کے مالک بھی ہیں اور حسن پرست بھی ، وہ ہجر کے شاعر کم، وصال کے شاعر زیادہ نظر آتے ہیں، لیکن ان کی فکر پاکیزہ ہے، وہ شاعری میں اپنے عقائد کا بھی اظہار کرتے ہیں اور دیگر مذہبوں کا احترام بھی ان سب باتوں کے تحت پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ادب میں تا دیر یاد رکھے جائیں گے ۔ آخر میں ان کے چند خوبصورت اشعار اور ملاحظہ فرمائیں ۔

ترستے ہیں یہاں تازہ فضاؤں کیلئے انساں
مکاں مل جائے بھی تو شہر میں آنگن نہیں ملتے
چھپا ہوا سا لگے ہے وہ دھڑکنوں میں مری
ازل سے جس کیلئے اک جہاں تلاش میں ہے
گردش نے اس کو قد سے بھی آگے بڑھا دیا
سایہ ہمارے قد کے برابر نہیں رہا
سینکڑوں سال سے ہیں گردش میں
دن دوانہ ہے رات پگلی ہے