ضرروصفی کا شعری مکاشفہ ( نظموں اور قطعات کے حوالے سے )

عشرت ظفر
ضرور وصفی کی فکر گہر ریز کا پرندہ جن جہتوں میں سفر کرتا ہے اور زندگی کے تمام کرب انگیز لمحوں سے مکالمہ کرتا ہے ان میں غزل کو ایک امتیازی وصف حاصل ہے۔ لیکن انہوں نے نظموں اور قطعات میں بھی اپنی فکر کے آتش کدے روشن کئے ہیں۔ ان مقدس آتش کدوں کا مشاہدہ کریں تو دنیا کی بے ثباتی وجود کی فنا انجامی کا منظر خوب کھلتا ہے لیکن اس کے باوصف ان کے یہاں اخلاقی سماجی و مذہبی اقدار کا بھی بہت خیال رکھا گیا ہے۔ عصری گداز جس میں لوہے کو پگھلانے کا ہنر بھی شامل ہے ضرروصفی کی شاعری کا کمال ہے۔ میں نے کچھ دنوں پہلے ان کی غزل پر اپنے مضمون میں تفصیلی اظہار خیال کیا تھا ،ان کے دونوں شعری مجموعوں ’ شب چراغ ‘ اور ’ نسبت بے ستون ‘ میں شامل ان کی غزلوں کا بھرپور جائزہ لیا تھا جس سے یہ بات اُبھر کر سامنے آئی تھی کہ ضرروصفی کی غزل میں جو ریزہ خیالی ہے وہ ان کی فکر میں ما بہ الامتیاز ہے۔ خواہ وہ کسی بھی سمت میں اپنے اشہب قلم کو رواں کریں، لہجے کا گداز سامنے آجاتا ہے۔ اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں نے ان کی نظموں اور قطعات کو بے حد انہماک سے پڑھا اور ان کے اعماق میں اُتر کر نئے نئے جہانوں کا احساس کیا۔ سیر و سفر کی منزل بے حد دلچسپ ہے، ضمنی طور پر میں ان کی غزل کے چند اشعار پہلے پیش کرتا ہوں ورنہ زیر قلم مضمون تو ان کی نظموں اور قطعات پر اظہار خیال کے لئے سپرد قلم کیا گیا ہے۔ غزل کا یہ رنگ ملاحظہ ہو۔
حسنِ و جمال جذب و کشش بھردی کوٹ کر
خوشبو کو اس کے جسم کا مخزن بنا دیا
پلٹ کے دیکھوں تو پتھر کا بن کے رہ جاؤں
مِرا بدن بھی خود اپنے بدن کو ترسے گا
ہرگز کرو نہ ظلم کہ مظلوم کی ایک آہ
نکلی تو چھاتی عرش کی پھٹ جائے گی میاں
ہوتا یہ ہے کہ شاعر کی فکر مختلف جہتوں میں سفر کرتی ہے، کتنے ہی جذبے کتنے ہی نظریات، کتنی ہی ترغیبات امتیازات اور معیارات اس راہ میں سنگ میلوں کی طرح نصب ہوتے ہیں، وہ سب کو سمیٹتا ہوا چلتا ہے لیکن پیرایۂ اظہار میں تنوع ہوتا ہے۔ شاعر الگ الگ پیکر اختیار کرتا ہے ڈھانچے بناتا ہے اور اپنی بات ہم تک لاتا ہے۔ چنانچہ ضرر وصفی نے غزل ہی تک خود کو محدود نہیں رکھا۔نظموں اور قطعات میں بھی انہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا ہے۔ ان کے دونوں شعری مجموعوں میں پچاس سے زیادہ نظمیں ہیں جن میں آزاد نظمیں بھی ہیں ، پابند نظمیں بھی ہیں، قدرے طویل نظمیں بھی ہیں اور مختصر نظمیں بھی ہیں جو چند مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد و ثناء کا جہان بسیط ہے۔ ایسی نظمیں بھی ہیں جو رسول اکرم ؐ کے اوصاف اور شان عالی مرتبت سے متصف ہیں گویا یہ سب حمدیہ و نعتیہ کلام ہے۔ ان نظموں میں دنیا کی بے ثباتی سے متعلق مضامین ہیں اور یہ وہ جوہر ہے جو ضرر وصفی کو اپنے اجداد سے ملا ہے کہ وہ روحانیت کے اعلیٰ مناسب پر فائز تھے۔ گویا یہ اس خون کی چہکار ہے جو شاعر کی رگوں میں رواں ہے۔ ان میں نقشِ پا، رحمت عالم، خدا، پیامِ آخری ، اہم نظمیں ہیں۔ ضرر وصفی کہیں سے بھی کچھ شروع کریں خود کوئی بھی شعری ڈھانچہ اختیار کریں ایک فلسفہ حیات ان کے یہاں سانس لیتا ہے۔ یہ ایک ایسا فلفسہ ہے جس کا سلسلہ تخلیق کائنات وآدم سے بھی قرنوں پہلے کے زمانوں سے مل جاتا ہے۔ ’ نقشِ پا ‘ ان کی نعتیہ نظم ہے جو ان کی فکر کا شاہکار ہے اور یہ نقوش پاک قدم مشعل بنی آدم بے کراں ماضی میں بھی گزراں حال میں بھی آورناآفریدہ مستقبل کے زمانوں پر محیط۔ اسی طرح ان کی نظم ’ خدا ‘ کے یہ مصرعے دیکھیئے۔
تمہیں روٹھے ہوئے سے رہتے ہو
ورنہ اِک مہرباں تو ہے اپنا
دونوں مصرعے خود میں ایک معنویت رکھتے ہیں۔ ضرروصفی کی تمام نظموں سے ایقان و ایمان کی تراوش ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روح کے خلوت کدہ میں کوئی گریہ وزاری میں مصروف ہے۔ ان کے اندر جو فقیر ہے وہ محو دعا ہے اور اس کے لبوں پر تمام انسانی نسل کیلئے کلماتِ خیر ہیں۔ صادق جذبات ہیں اور یہ کائنات اسی کی خاک کا ایک ذرہ ہے، وہ اپنے ہی دشت میں سیروسفر میں مصروف ہے اور اِسرار کھل رہے ہیں۔
میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کی پوری شاعری ایک مکاشفہ ہے۔ ایک شعری مکاشفہ جو سب سے پہلے بساطِ فکر پر ایک بوند کی طرح نزول کرتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کا حجم اس طرح بڑھتا ہے کہ وہ بے حدود و بے کراں سمندر کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ ضرر وصفی علامتوں، استعاروں سے اپنی نظموں کو سجاتے ہیں، زندگی کی تمام اقدار پر ان کی نگاہ مرکوز ہے۔ انہیں احساس ہے کہ یہ اقدار کش تہذیبوں کا دور ہے، حقیقتیں خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے اپنی نظموں میں مختلف انداز سے اس کرب کو بیان کیا ہے، اس سلسلہ میں حوّا کی بیٹیاں، ماتم خانقاہ، روشنی سے نفرت ہے، ان کی اہم نظمیں ہیں۔ اس میں ایک طنزیہ لہجہ اُبھر آیا ہے یہ وہ نظریہ ہے کہ جس میں شاعری کی ایک آنکھ اگر باہر کے مناظر سمیٹتی ہے تو دوسری طرف اندر کے مناظر کو بھی جذب کرتی ہے گویا یہ ایک کھرکی ہے جو اُفق کے اُس پار بھی کھلتی ہے اور اِس پار بھی۔ ضرروصفی اس آنکھ سے کئی طرح کے کام لیتے ہیں۔ یہ منظر ان کی نظم ’ تغیر ‘ میں بھی دیکھیئے۔
کرب، خموشی
کھو کھلے قہقہے
میری صدی کا آدمی
تنہا اُداس
کالے اُجلے اُدے نیلے
رنگ بدلتا آکاش
بہتے ہوئے آہن کی طرح
ضمیر ارض
دہکتا ہوا ایک انگارہ
کہیں یہ زلزلے ، سیلاب قحط بوتا ہوا
ہرایک شخص ہراساں دکھائی دیتا ہے
یہیں پہ آج ہی روز حساب ہو جیسے
اس نظم میں اس عہد کا کرب شاعر سے مکالمہ کرتا ہے یعنی انسان جو خالق کائنات کی تقویم احسن ہے، آج کس سفلگی کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ یہ مصیبت خود اسی کی لائی ہوئی ہے۔ اس نے ایسا اسلوب حیات وضع کیا ہے جس میں وہ خود پھنس چکا ہے۔ گویا مادیت ایک دَلدل ہے جس میں وہ دھنستا جارہا ہے۔ ایک مختصر سی نظم ’ وجود ‘ صرف چھ مصرعوں پر مشتمل ہے مگر زندگی کی فنا انجامی کی شارح اور مفسر بھی ہے۔
رقص کرتا ہوا شعلہ بے باک
دفعتاً بن گیا انگارہ کیوں
اُف یہ اِک شعلہ عریاں کا وجود
اَب کوئی آگ ہی باقی ہے نہ دود
صرف اِک راکھ کا ڈھیر
وہ بھی بے تاب بکھرنے کے لئے
ضرروصفی نے مختصر تین نظمیں بھی لکھی ہیں ، ان کے یہاں اشیاء سے مکالمہ بھی ہے اور اشیاء کا انسان اور دیگر مظاہر فطرت سے مکالمہ بھی ہے۔ جس طرح علامہ اقبال کے یہاں بادل اپنے بارے میں بات کرتا ہے اسی طرح ضرروصفی کے یہاں زلزلہ صرف دو مصرعوں میں اپنی کارکردگی بیان کرتا ہے۔
جب بھی میں عزمِ سفر کرتا ہوں
کئی آباد مکانوں کو کھنڈر کرتا ہوں
اردو شعر و ادب میں نظم کا سفر کافی طویل ہے ، ا کے ڈھانچے بھی مختلف رہے ہیں یعنی طویل بھی، مختصر بھی لیکن اس میدان کے شہسوار وہی ہیں جنہوں نے اشیاء اور مظاہر فطرت کے منہ میں زبان رکھ دی ہے۔ اس لئے ہزاروں مصرعوں کی ضرورت نہیں ہے بس چند مصرعوں میں بات مکمل ہوجاتی ہے ۔ اس موقع پر میں حمید الماس کی ایک نظم کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
شریک رہ کے مِرے حلقہ ارادت میں
تما م منزلیں عرفاں کی تم نے طئے کرلیں
کبھی جو ذِکر طلوعِ قمر کا چھِڑ جائے
کسی کی بات کے کہنے کا تم یقیں نہ کرو
دریچہ کھول کے دیکھو کہ واقعہ کیا ہے؟
پانچ مصرعوں پر مشتمل اس نظم میں چھٹے مصرعے کی صرورت نہیں ، یہ ایک بھرپور نظم ہے ۔ اب ضرروصفی کا یہ شاہکار پیش ہے۔
میں اِک مفرور شہزادہ
الگ ہے سلطنت میری
کٹ کر رہ گیا ہوں ساحلوں سے
بنالی ہے الگ پہچان اپنی
چار مصرعوں پر مشتمل اس نظم میں چاروں طرف سے سمندر کے پانیوں سے گِھرا ایک جزیرہ اپنا خود تعارف کراتا ہے۔ اس میں پانچویں مصرعے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جزیرہ نے خود کوایک مغرور شہزادہ کہہ کر سمندر کی بے رکرانی کی حیثیت کو ختم کردیا ہے۔ یعنی سمندرلاکھ چاہے اس کے وجود کو مٹا نہیں سکتا۔ محاصرہ کرسکتا ہے لیکن اس عالم میں بھی جزیرہ کی شناخت اور اس کی پہچان برقرار رہتی ہے۔ استعاراتی طور پر دیکھیں تو اس مادیت کے سیلاب میں ایک سچا انسان اعلیٰ تہذیبی اخلاقی قدروں کا امانت دار ایسے ہی ایک جزیرے کی طرح ہے جس کا مادیت بال بھی بیکا نہیں کرسکتی اور وہ اپنی شناخت قائم رکھے ہوئے ہے۔
ضرروصفی کے یہاں ایسے بہت سے شاہکار ہیں مہک، جھلک، پسِ کائنات، خشک پیڑ، شکستِ خواب، پرندے، نئے تقاضے، لہو کے چراغ، قول و قسم، بونے، ایک یاد، میری جوانی، سپردگی اور زائچہ ، ان کی شاہکار نظمیں ہیں۔ وہ اس میدان میں بھی ایک شہسوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ احساس کی توانائی وسعتِ فکر ضرروصفی کے یہاں بے حد ہے، وہ اپنے معاصرین میں شہرت کی نام نہاد منزلوں پر نہ سہی لیکن ایک اچھے شاعر ہیں۔ شاعری سے متعلق انہوں نے یوں لکھا ہے۔
سوچ کے سمندر سے
غوطہ خور لمحوں نے
جو صدف نکالے ہیں
ان میں کچھ گہر بھی ہیں
یا یہ ہیں حذف ریزے
وقت ہی بتائے گا
سچ تو یہ ہے کہ وقت سب سے بڑا محتسب ہے ، فنکار کا کام ہے فن پارے تخلیق کرنا ، ان میں شاہکار کون ہے، رطب ویابس کی تعداد کیا ہے اس کا احتساب آنے والی نسلیں کرتی ہیں۔ ہر عہد اپنے ساتھ اپنے سوالات لاتا ہے۔ جن کے جوابات آنے والے عہد میں دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک تسلسل ہے ، گردش ہے جو ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے ۔ ثقافت ، کلچر، تہذیب، ادب ، تخلیق، ، تعمیر کی شاہراہوں پر نئے سنگ میلوں کی تنصیب ہوتی رہتی ہے سفر جاری رہتا ہے ، نئی نئی جہتیں طلوع ہوتی رہتی ہیں۔ روشنی کے مینار اُبھرتے رہتے ہیں، کبھی دھند بڑھ جاتی ہے اُفق روپوش ہوجاتی ہے، کبھی اسی دھند سے وسیع تر ضوفشاں اُفق نمودار ہوتا ہے۔ ضرروصفی کے یہاں تمام کیفیات ہیں۔ فکری سطح پر ان کی شاعری نت نئے جہانوں کو کھولتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ قواعد و ضوابط اور زبان کی رو سے ان کے یہاں کچھ کمیاں بھی ہوں لیکن اصل چیز ہوتے ہیں مفاہیم، زبان کی سرفرازی، سربلندی اور بیانیہ جو خود میں اس قدر محیط و سایہ فشاں ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ٹھہرتا۔
قطعہ چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن سب سے اہم آخری اور چوتھا مصرعہ ہوتا ہے کیونکہ تین مصرعوں میں شاعر ایک فضاء تخلیق کرتا ہے، آخری مصرعہ اس فضاء کی تکمیل کرتا ہے۔ بڑی حد تک یہ انداز ایک مختصر نظم کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ ضرروصفی چونکہ غزل اور نظم دونوں میدانوں کے شہسوار ہیں اس لئے انہیں مربوط و مضبوط شگفتہ و دل پذیر قطعات لکھنے میں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ میں نے جو قطعات اوپر مذکور کئے ہیں ان میں فن و فکر کی ایک بسیط دنیا ہے۔اولین قطعہ کے چار مصرعوں میں کلیدی کردار ذوقِ آزری ہے۔ جس سے شاعر کا تخاطب ہے اس قطعہ میں ذوقِ آزری جہد حیات کا استعارہ ہے کہ زندگی اپنے تیشہ سے کن کن چٹانوں کو کاٹتی ہے، ایسی چٹانیں جن میں اصنام کی بود وباش ہے ایسے اصناف جو وجود پذیر تو ہیں مگر خدوخال سے محروم ہیں۔ ذوقِ آزری انہیں خدوخال فراہم کرکے ایک نیا روپ دیتا ہے۔ آزر اپنے تیشہ کی مدد سے پتھر کا فاضل حصہ بنادیتا ہے، اصنام تو خود پتھر ہی میں مسکن گزیں ہوتے ہیں، فاضل پتھر بنتے ہی وہ نمودار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح زندگی ہے اس کے اصل چہرے کو سامنے لانے کیلئے آس پاس کی چیزوں کو بنانا پڑتا ہے۔ پھر زندگی خود کو اسی طرح منکشف کرتی ہے جس طرح صنم خود کو اپنے تیشہ گر آزار پر منکشف کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پتھروں میں بُتوں کا انبوہ کثیر ہے بس ذوقِ آزری کے تیشہ اُٹھاکر انہیں متحرک کرنے کی دیر ہے۔
دوسرے قطعہ میں عشق کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ اصل میں عقل کارہبر جنوں ہے جب تک ہم میںکسی کے حصول کی لگن نہیں ہوتی ہے ہم کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیں جنوں ہی کامیاب بناتا ہے یہی وہ منزل ہے جہاں کسی شئے کا احساس نہیں ہوتا۔ عشق خود میں ایک ایسی کیفیت ہے جہاں نہ خوف ہے نہ اندیشہ، ایک سرمستی ہے وجہ اس کی خاص ہے ، عشق کی حقیقت دراصل کائنات کا عارف ہوتا ہے اور ہم جب اسرار کے عارف ہوجاتے ہیں تو پھر مکاشفہ جنم لیتا ہے۔ مکاشفہ اور پھر تحیر خود میں ایسی چیزیں ہیں جو دیگر تمام کیفیتوں سے ہمیں بے نیاز کردیتی ہیں۔ یہ قطعات دیکھئے۔
آج میں پھر رہا ہوں آوارہ
راستے کے غبار کی مانند
ہر تمنا طول ہے میری
کسی اُجڑے دیار کی مانند
۔٭۔
راہ کی مشکلوں سے کہہ دینا
پھر سے سرگرم ہورہا ہوں میں
سخت بنجر زمین ہے لیکن
تخم اُمید بو رہا ہوں
میں نے آغاز میں ہی یہ عرض کیا تھا کہ ضرروصفی کے یہاں ایک شعری مکاشفہ ہے جو ان تمام پیکر وں میں ڈھل گیا ہے جو انہوں نے اپنے پیرایۂ اظہار کے لئے وضع کئے ہیں یا منتخب کئے ہیں۔ انہوں نے زمانے کے کرب کا صرف مشاہدہ ہی نہیں کیا ہے بلکہ اسے اپنی ذات میں جذب بھی کیا ہے۔ پھر ان تمام غموں آلام کا مداوا بھی تلاش کیا ہے اور انسانی نسل کو اپنے اشعار کے ذریعے نئے جہانوں کا سُراغ بھی دیا ہے ۔ چونکہ ذہنی طور پر وہ مذہبی اقدار کے پرستار ہیں اور اس وجہ سے کہ ان پر یہ راز منکشف ہوچکا ہے کہ ابتلائے مسلسل کی شکار انسانی نسل کے لئے آگر گہوارہ عافیت ہے تو جذبۂ ایثار ، دوسروں کے درد میں اشک ریزی احساسات کی ایک عظیم الشان دنیا کی تخلیق اسی طور پر ممکن ہے ۔ آخر میں ان کی ایک شاہکار رباعی پیش ہے۔
ہر کرب کو لفظوں میں سمودیتا ہوں
قطرے میں سمندر کو ڈبو دیتا ہوں
لو شمع صداقت کی جو تھراتی ہے
مانند حسینؓ اپنا لہو دیتا ہوں