صوفی منش شاعر امجدؔ حیدرآبادی

ڈاکٹر امیر علی
حیدرآباد (دکن) فرخندہ بنیاد عہد قدیم ہی سے علم و ادب و تہذیب اور امن کا گہوارہ رہا ہے ۔ یہاں کی رواداری، مہمان نوازی ، مروت اور ہمدردی ، علم پروری اور اعلیٰ تہذیبی روایات مثالی ہیں جن کی مثال ساری دنیا میں نہیں ملتی۔ شہر حیدرآباد کو قطب شاہی حکمراں سلطان محمد قلی قطب شاہ نے بسایا تھا اور اس شہر کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے دعا کی تھی ۔ شہر حیدرآباد کو بسانے کا سہرا محمد قلی قطب شاہ کے سر جاتا ہے اور اس کو آباد کرنے اور ترقی کا سہرا سلطنت آصفیہ کے نام اور حکمراں غفران مکان اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس اور ان کے ہونہار فرزند ا کبر اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع کے سر جاتا ہے۔ ان حکمرانوں کا عہد بڑا روشن زمانہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اُن کو حکمرانی سے زیادہ عوام کی فلاح و بہبودی ، ترقی اور خوشحالی ، خدمت خلق اور بھائی چارہ بہت عزیز تھا ۔ وہ خود بھی اردو کے پرگو شاعر اور ادب نواز تھے ۔ انہوں نے کئی صدیوں تک عوام کے دلوں پر حکمرانی کی تھی جس کے اجلے نقوش آج بھی موجود ہیں ۔ ان کا دربار علماء ، شعراء اور اہل کمالوں کا ملجا و ماوا تھا۔ ان حکمرانوں نے اپنی گراں قدر اور سنہری کارناموں سے دکن کو ترقی دی ۔ حیدرآباد (دکن) کی سرزمین کو بڑا ناز ہے کہ یہاں کی سرزمین نے نام آور سپوت پیدا کئے جن میں علماء ، شعراء اور اہل ہنر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اپنے فکر و فن سے کارہائے نمایاں خدمات انجام دیں اور اس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ ان عظیم اور نامور ہستیوں میں حیدراباد کے منفرد رباعی گو شاعر و فلسفی حضرت امجد حیدرآبادی کا نام بھی شامل ہے۔ حضرت امجد حیدرآبادی کا شمار ہندوستان کے افن مشہور و معروف اور عظیم المرتبت رباعی گو شاعروں میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے زبان کے ایسے دریا بہائے جس سے سارا ہندوستان آج بھی سیراب ہورہا ہے ۔ اُن کی شاعری وقت گزاری یا دل بہلانے کا وسیلہ نہیں ہے ۔ وہ جو بھی کہتے ہیں کیف و سرمستی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ وہ ا یک صوفی منش اور درویش صفت انسان تھے ۔ قناعت ، خودداری ، انسان دوستی ، راست گفتاری اور صداقت پسندی ان کی فطرت ثانی تھی ۔ امجد کو تصوف سے خاص لگاؤ تھا اور اُن کا اصل کارنامہ ان کی شاہکار رباعیات ہیں۔ انہوں نے تصوف کو ’’برائے شعر گفتن خوب است ‘‘ کے طور پر رسمی طور پر نہیں اپنایا تھا ۔ امجد کی رباعیوں کی خاص اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے کلام میں سادہ اور سلیس زبان میں بلند اور اعلیٰ تخیل کو پیش کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور انہوں نے ایسے بے شمار اشعار تخلیق کئے ہیں جو روح کو تڑپاتے اور قلب کو گرماتے ہیں۔
امجد حیدرآبادی نے اپنی شاعری میں عشق حقیقی ، تصوف و معرفت کے بیان کے دریا بہادیئے ہیں۔ وہ ایک خداترس صوفی صافی اور خوددار انسان تھے ۔ اس لئے ان کے کلام میں سچی لگن ، خالص روحانی جذبات ، پر خلوص صداقت ، اعلیٰ تہذیبی اقدار ، مروت ، ہمدردی ، رواداری ، خدمتِ خلق اور اعلیٰ تخیل اور بلند پر وازی جیسے اوصاف موجود ہیں۔ امجد کا صوفیانہ کلام بندے کو مولا سے ملانے کا کارگر وسیلہ ہے۔ امجد نے اپنی رباعیوں میں اخلاقی نکات کے علاوہ آیات قرآنی اور احادیث کی طرف بھی بلیغ اشارے کئے ہیں اور وہ ا پنے اشعار میں اپنے کلام کی ا ہمیت اور مقصد کو اس طرح واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ہر مرتبہ آئینہ دل دھڑکتا ہے
کانٹا کانٹا نگاہ میں تلتا ہے
میں شاعری کو مراقبہ کیوں کر نہ کہوں
ہر فکر میں بابِ معرفت کھلتا ہے
فنِ رباعی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے چار مصرعوں میں مضمون کو باندھا جاتا ہے اور اس کے پہلے مصرعے میں جو خیال پیش کیا جاتا ہے، اس کو دوسرے دو مصرعوں میں بڑھاکر چوتھے مصرعے میں منتہا تک پہنچایا جاتا ہے ۔ اس اعتبار سے اس میں ڈرامائی زور رباعی کا صل اصول ہے۔ امجد کی ہر رباعی میں ڈرامائیت پائی جاتی ہے اور ان کی ہر رباعی میں آخری مصرعہ ایسا برجستہ اور پرکیف اور اثردار اور معنی خیز ہوتا ہے کہ پڑھتے ہی روح متحرک ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ امجد فرماتے ہیں۔
اس سینے میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکرِ صفات ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی جاہل سہی نادان سہی
سب کچھ سہی تیری بات رکھ لی میں نے
حضرت امجدؔ حیدرآبادی کو علم تصوف سے گہرا لگاؤ تھا ۔ اسی بناء پر انہوں نے تصوف اور اس کی کار فرمائیوں کو اپنی شاعری میں برتا اور اپنے کلام کو رونق بخشی جس کا پوری اردو شاعری میں جواب نہیں ہے ۔ تصوف کے بارے میں اس طرح کہا گیا ہے ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ یہ بات اس لئے کہی گئی ہے کہ شاعرانہ موشگافیوں کے لئے تصوف میں بڑی گنجائش ہے کیونکہ اس میں بندے سے لیکر اللہ تک ساری کائنات زیر بحث آتی ہے اور اس کا اصلی مقصد روح اور دل کی وہ پاکیزگی اور رفعت ہے جو بندۂ خاکی کو بندۂ مولا صفات بنا دیتی ہے۔
امجد حیدرآبادی نے بڑی شاہکار رباعیاں تخلیق کی ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اعلیٰ پائے کی غزلیں اور نظمیں بھی اس رنگ میں کہی ہیں اور نثر میں بھی آپ کی کئی شاہکار کتابیں ہیں جو آپ کے مخصوص نظریے حیات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ نثر میں ’’گلستاں امجد‘’ دراصل ’’گلستان سعدی‘‘ کا با محاورہ ترجمہ ہے۔ نثری کارناموں میں سب سے اہم اور شاہکار تصانیف ’’پیامِ امجدؔ ‘‘ اور ’’جمالِ امجد‘‘ ہے ۔ امجد کہتے ہیں کہ کلام امجد کا تمام ماخذ اور مبدأ آیات قرآنی اور احادیث کا خلاصہ ہے ۔ اس کے علاوہ گلستانِ امجد ، حج امجد اور ایوب کی کہانی وغیرہ شامل ہیں۔ چنانچہ امجد فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنی حاجت اور مشکلوں کے حل کیلئے اپنے مالکِ حقیقی سے رجوع ہونا چاہئے۔
ہر چیز مسببِ سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو
دنیا کی ناپائیداری اور فانی کا تدکرہ اردو کے سبھی شعراء کے یہاں موجود ہے ۔ مگر اس خیال کو امجدؔ نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں پیش کیا ہے اور امجد اس طرح رقمطراز ہیں کہ ’’زندگی کی ہر شئے پر وسیع نظر رکھنے والے کے دل میں دولت ، طاقت اور ثروت کا غرور زیادہ کھٹکتا ہے ۔ دنیا کی بے ثباتی اور دولت کی فراوانی اور تغیر پذیری کے پیش نظر وہ زندگی کی بہاروں کو سراب سے زیادہ نہیں سمجھتے اور وہ ان مغرور دولت مندوں کو جو اپنی دولت ، طاقت اور ثروت کے نشے میں چور اور مگن رہتے ہیں، انہیں وہ نادان سمجھتے ہیں اور اپنے اشعار میں اس طرح مخاطب ہیں۔
دولت کا غرور سب ہوائی نکلا
سونے کا پہاڑ آج رائی نکلا
میں تاجِ شہنشئی سمجھتا تھا جسے
تقدیر سے کاسۂ گدائی نکلا
زہد و تقویٰ ، عبادت و ریاضت اور نماز کے فلسفے کو امجد نے اپنی رباعی کے اشعار میں بڑے ہی حکیمانہ و فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے اور امجد نماز کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
دامانِ گناہ چاک ہوجاتا ہے
نفس سرکش ہلاک ہوجاتا ہے
مومن کے لئے عجیب نعمت ہے نماز
سر خاک پہ رکھ کے پاک ہوجاتا ہے
امجد کا اصل نام سید احمد حسین ہے اور ابو اعظم کنیت تھی ۔ امجدؔ 7 رجب المرجب 1305 ھ م 1888 ء بروز دوشنبہ حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔ امجد کے والد صوفی سید رحیم علی ابن سید کریم حسین ایک نیک اور خدا ترس انسان تھے ۔ امجد نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔ اس کے بعد دکن کی قدیم و مشہور درسگاہ جامعہ نظامیہ میں داخل ہوئے اور چھ سال تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بھی خانگی طور پر تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھا اور پنجاب یونیورسٹی سے فاضل کا امتحان امتیاز کے ساتھ کامیابی کیا ۔ امجد نے جامعہ نظامیہ میں جن اساتذہ سے علم سیکھا تھا ان کے نام اس طرح ہیں : مولوی عبدالوہاب بہاری ، علامہ سناد الملک شوستری اور مولوی سیدنا دارالدین قابل ذکر ہیں۔ امجد کے اعلیٰ کردار کی تشکیل ، علمی و ادبی ذوق ، فلسفہ اور شاعری سے دلچسپی اور لگاؤ ان ہی نامور اساتدہ کی مرہون منت ہے ۔ امجد کے شاگردوں میں سجاد مرزا ، ڈاکٹر نظام الدین ، ڈاکٹر عبدالمجید صدیقی ، سید شاہ صابر حسینی ، حبیب مرتضیٰ ابوبکر بن شہاب اور مولوی نصیرالدین ہاشمی کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ 27 ستمبر 1908 ء کو رودِ موسیٰ میں زبردست طغیانی آئی اور مسلسل بارش کی وجہ سے شہر حیدرآباد کے کئی محلے طغیانی کی زد میں آگئے اور بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا ۔ امجدؔ کا مکان موسیٰ ندی کے قریب واقع تھا جہاں پر سٹی کالج اور ہائی کورٹ کی عمارت موجود ہے ، سارا مال و اسباب سیلاب کی نذر ہوگیا اور اس سیلاب میں امجدؔ کی والدہ ، بیوی اور بیٹی ان کی آنکھوں کے سامنے نذر آب ہوگئے اور امجد کرشماتی طور پر اکیلئے بچ گئے ۔ اس ناگہانی حادثے کا امجد کے دل پر گہرا اثر ہوا ۔ اس حادثے کی تفصیل کو امجد اپنی نظم ’’قیامت صغریٰ ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔ امجدؔ سب سے پہلے بنگلور کے سٹی ہائی اسکول میں پندرہ (15) روپئے ماہوار پر ملازمت اختیار کی اور اس کے بعد دفتر صدر محاسبی میں تھرڈ گریڈ کی ملازمت اختیار کی اور 1932 ء میں وظیفے پر سبکدوش ہوئے ۔ امجد نے اپنی شاعری سے اردو زبان و ادب کی گراں بہا خدمات انجام دی ہے اور رباعی گوئی کے فن میں بڑا نام کمایا اور اپنے عہد کو بڑا متاثر کیا ہے ۔ امجد نے اپنی رباعیوں میں آدمیت کو انسانیت کا درس دیا اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لانے کی کامیاب مساعی کی ہے ۔ امجدؔ کی رباعیات روحانی صداقت اور عارفانہ و صوفیانہ حقیقت کی بناء پر صوفی سرمد کی رباعیوں کی ہم پلہ ہیں اسی بناء پر امجد کو ’’ زندہ صوفی سرمد‘‘ کہا گیا ہے ۔ امجد کو خدا کی ذات پر پورا بھروسہ تھا اور وہ خدا کی وحدانیت کا جلوہ کائنات کے ہر ذرے میں دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں ۔
واجب سے ظہور انسانی ہے
وحدت میں دوئی کا وہم نادانی ہے
دھوکہ ہے نظر کا ورنہ عالم ہمہ اوست
گردابِ حباب موج سب پانی ہے
امجد اپنی ایک رباعی میں ایسے لوگوں کے لئے پیامِ حیات دیتے ہیں جو زندگی کی کشمکش سے مایوس اور نا امید ہوکر اپنی بے قدری کا گلہ کرتے ہیں اور زمانے کی ناقدری اور بے وفائی پر آنسو بہاتے ہیں اور وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ دنیا ان کے لئے قدردانی کی جگہ نہیں ہے اور امجد اس طرح فرماتے ہیں ۔
کیا فکر ہے کوئی قدرداں ہوکے نہ ہو
جھوٹی دنیا میں عزو شان ہوکے نہ ہو
اللہ مسرت حقیقی دے دے
ہم زندہ رہیں نام و نشاں ہوکے نہ ہو
امجد نے اپنی ایک اور رباعی میں آیات قرآنی ’’ولا تحزن یوم القیامۃ ‘‘ کی تفسیر کو بڑے ہی موثر اورحکیمانہ انداز میں کی ہے ۔
ضائع فرما نہ سرفروشی کو مری
مٹی میں ملا نہ گرمجوشی کو مری
آیا ہوں کفن پہن کے ائے ربِ غفور
دھبا نہ لگے سپید پوشی کو مری
امجدؔ ایک صوفی منش اور خدا ترس انسان و شاعر تھے ۔ انہوں نے دنیائے فانی کا مطالعہ بڑی گیرائی اور گہرائی سے کیا تھا ۔ امجدؔ فرماتے ہیں کہ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی زندگی اور موت کا دارومدار محض سانسوں کی آمد و رفت پر قائم ہے۔
کب تک ہے بقائے تن فنا کو معلوم
کب تک ہے یہ زندگی قضا کو معلوم
ہر سانس یہ کہہ رہی ہے جاتے جاتے
جاتی تو ہوں ، واپسی خدا کو معلوم
امجدؔ نے طویل عمر پائی اور انہوں نے غفران مکان اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خان آصف جاہ سادس کی حکمرانی میں اور آپ کے فرزند ا کبر اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع کے عہد زرین میں اپنی زندگی کے 73 سال گزارے اور آخر کار 29 مارچ 1961 ء کو رات کے ساڑھے بارہ بجے اپنی جان ، جانِ افرین کے سپرد کردی اورا پنے مالکِ حقیقی سے جا ملے ۔ ہزاروں سوگواروں اور عقیدت مندوں کے بیچ ان کے جسد خاکی کو احاطہ درگاہ حضرت شاہ خاموشؒ میں سپرد لحد کردیا گیا ۔ اردو زبان و ادب ، دکنی ادب اور شاعری کے فروغ میں حضرت امجد حیدرآبادی کی گراں قدر خدمات کو ادب کا مورخ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔
ہمیشہ ساتھ دیتا کون ہے ائے عرش عالم میں
چلی جاتی ہے اک دن روح تنہا چھوڑ کر تن کو