صوبائی وقف بورڈ کی نظر میں سنٹرل وقف کونسل کی کوئی اہمیت نہیں: فرمان نقوی

نئی دہلی : آنجہانی جسٹس راجندر سچر نے اپنی سچر کمیٹی کی رپورٹ میں اوقاف سے تعلق کو سفارشات پیش کی ہیں اور جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ اگر اوقاف پر ایمانداری سے کام کیا جائے تو ملک کے ۲۵؍ کروڑ مسلمانوں کے مسائل اسی سے حل ہوجائیں گے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ مرکز سے لے کر صوبوں تک وقف کے قانون موجود ہیں تاہم آج بھی اوقاف کو لاوارث سمجھ کر ہر کوئی قبضہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس حکومت کو اوقاف کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ سب سے زیادہ ان پر قابض نظر آتی ہے۔صوبائی اوقاف کو درست کرنے کے لئے اور وقف بورڈوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کی تشکیل دی گئی تھی ۔جس میں سنٹرل وقف کونسل کو ایک اتھاریٹی مانتے ہوئے اس کو نگران بنایا گیا تھا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ صوبائی وقف بور ڈ کی نظر میں آج بھی سنٹرل وقف کونسل اور وقف ایکٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔حال ہی میں ایک محکمہ اوقاف کا حکومت اترپردیش کا معاملہ سامنے آیا ہے۔وقف نمبر۵۱۹؍ بریلوی کا معاملہ ہے۔

و قف مزار حاجی سید قاسم حسین ہاشمی عباسی اور خانقاہ مصطفی شریف بریلی کے سکریٹری محمد شفیع خان ولد محمد شبیر خان صوفی ٹولہ سے یوپی حکومت اور سنٹرل سنی وقف بورڈ اتر پردیش کے خلاف اتر پردیش ہائیکو رٹ میں ایک پٹیشن داخل کی ہے۔جس میں یوپی وقف ٹریبونل رولس ۲۰۱۷ء پر سوال اٹھائے گئے ہیں او راس کی تشکیل کو وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

دراصل وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کی غلط تشریح پیش کرتے ہوئے یوپی حکومت نے اتر پردیش وقف ٹریبونل رولس ۲۰۱۷ء کی تشکیل کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں وقف ٹریبونل میں تین رکن ہوتے تھے وہاں حکومت نے اس میں محض دو رکن کو شامل کیاہے ۔

غور طلب بات ہے کہ وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء کے سیکشن ۱۰۹ کا حوالہ دیتے ہوئے یوپی حکومت نے دعوا کیا ہے کہ اس کو اختیا ر دیاگیا ہے کہ وہ ٹریبونل رولس کی تشکیل کرے جب کہ ایڈوکیٹ فرمان احمد کا دعوا ہے کہ سیکشن ۱۰۹؍ میں ایسا کوئی اختیار نہیں دیا گیا بلکہ یوپی حکومت اس سیکشن کی غلط تشریح بیان کر رہی ہے۔