صنعتی پالیسی اور روزگار کے مسائل

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے بارے میں اپوزیشن حلقوں میں اب سرگوشیاں چل رہی ہیں کہ یہ شخص پروفیشنل قسم کا چیف منسٹر دکھائی نہیں دیتا۔ سی پی ایم نے تو باقاعدہ نئے چیف منسٹر کی کارکردگی اور انتخابی وعدوں کی فہرست تیار کرنا شروع کردی ہے۔ اپوزیشن کا کام حکومت کی خرابیوں پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔ تلنگانہ جدوجہد کیلئے جانیں قربان کرنے والے وفاداران تلنگانہ کی یاد میں حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ اس شکایت کے ساتھ اب تمام مواضعات میں یادگار شہیدان جلسے منعقد کئے جائیں گے۔ تلنگانہ کی نئی حکومت پر الزام ہے کہ وہ صرف سرمایہ کاروں اور دولت مند طبقات کے فوائد کے لئے کام کررہی ہے۔ نئی ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کے دوران جو عزائم ظاہر کئے گئے تھے اب یہ تمام سرمایہ کاروں، صنعتکاروں اور منافع خوروں کے اِرد گِرد ہی گھوم رہے ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت اپنے انتخابی وعدہ پر عمل نہ کرکے شہریوں کے ساتھ کھلواڑ کررہی ہے مگر دیکھنے والے کام یہ ہیں کہ سرمایہ کاروں کی فہرست میں ان صنعتکاروں کا نام شامل ہے جو ریاست میں پہلے ہی سے اپنی صنعتیں، آئی ٹی فرمس اور دیگر ادارے چلارہے ہیں۔

انیل امبانی کی چیف منسٹر سے ملاقات کے بعد صنعتکاروں کا ایک قافلہ تلنگانہ کی جانب رُخ کررہا ہے تو اسے خوش آئند علامت ہی کہی جائے گی۔ روزگار کے مواقع حاصل ہوں تو تلنگانہ کے نوجوانوں کی بیروزگاری دور ہوگی۔ ویپرو کے چیرمین عظیم پریم جی نے دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں سے ملاقات کی ہے۔ ہر کوئی نمائندہ اب دونوں چیف منسٹروں سے ملاقات کرکے اپنی کمپنیوں اور فرمس کے فوائد کے حصول کی کوشش کررہا ہے۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ اگر حکومتوں نے نادانیوں یا رشوت خوری کے ذریعہ ریاست کے قیمتی وسائل کو عوامی مفادات کے مغائر ان کمپنیوں اور فرمس کے حوالے کیا گیا تو پھر تباہی و بربادی کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ تلنگانہ میں ان بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں کو کئی رعایتیں دینے کا وعدہ کرنے والے چیف منسٹر کو یہ بات سوچنی چاہیئے کہ یہ آئی ٹی کمپنیاں تلنگانہ کے نوجوانوں کو کس حد تک روزگار دیں گی، کیونکہ تلنگانہ کی سرزمین پر حکومت کے فوائد حاصل کرکے یہ کمپنیاں کسی ایک علاقہ کے نوجوانوں کو روزگار نہیں دے سکتیں۔ اگر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ عظیم پریم جی سے یہ شرط رکھتے کہ ان کی کمپنی میں صرف تلنگانہ کے نوجوانوں کو ہی ملازمت دی جائے تو وہ اپنی کمپنی کے ترقیاتی منصوبوں کو محدود کردیتے

کیونکہ کوئی بھی کمپنی کسی ایک علاقہ کے لوگوں تک ہی محدود نہیں رہتی، اس کی اپنی پالیسی کے تحت وہ ماہرین کا انتخاب ملک یا بیرون ملک قابل نوجوانوں میں سے کرتی ہیں، پھر کے چندر شیکھر راؤ کا یہ دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوگا کہ تلنگانہ میں کمپنیوں کے قیام سے روزگار میں اضافہ ہوگا۔ اس سے تلنگانہ کے نوجوانوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ چندرا بابو نائیڈو کو اپنی دور دراز والی ریاست کے عوام تک رسائی حاصل کرنے میں دقت ہوگی اور وہ دارالحکومت حیدرآباد میں رہ کر حکومت چلارہے ہیں۔ اس لئے ان تک رسائی حاصل کرنے والے عوام کی تعداد بھی خاص نہیں ہے جبکہ کے سی آر کے پاس لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ شمس آباد ایرپورٹ سے سیدھے کے سی آر اور کے ٹی آر سے ملاقات کرنے والوں میں بڑے بڑے صنعتی گھرانوں کے ذمہ داروں یا نمائندگان شامل ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ حال ہی میں انڈین اسکول آف بزنس (ISB) کی ایک طالبہ نے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ سے ملاقات کرکے ان کا آٹو گراف حاصل کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باپ بیٹے اپنے سیاسی اسمارٹ پن سے لوگوں کو رجھانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ مگر تلنگانہ کے اضلاع، دیہی علاقوں اور غریب عوام کو اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ یہ لوگ تو تلنگانہ کے قیام کے خوابوں اور انتخابی وعدوں کو پورا ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

اگر تلنگانہ کی حکومت ان کے خوابوں اور اُمیدوں کو پورا نہ کرسکی تو کیا ہوگا۔ کیا نئی حکومت اپنی نوعمری میں ہی دم توڑدے گی، ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس حکومت کو چلانے والوں میں دم خم ضرور ہے اس لئے وہ اپنے فیصلوں سے عوام کو پریشان کرتے رہے ہیں۔ ایک پریشانی یہ شروع کی گئی تھی کہ آندھرا پردیش کی موٹر گاڑیوں کو تلنگانہ میں داخل ہونے کے لئے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جبکہ گورنر نے سابق متحدہ آندھرا پردیش میں 31 مارچ 2015ء تک موٹرگاڑی ٹیکس ادا کرنے والوں کو راحت دی تھی کہ انہوں نے جو ٹیکس ادا کیا ہے وہ نئی ریاست کے لئے بھی قابل اطلاق ہوگا۔ مگر تلنگانہ حکومت نے 28جولائی کو سرکلر جاری کرکے انتباہ دیا تھا کہ آندھرا پردیش سے آنے والی موٹر گاڑیوں کو جرمانے کئے جائیں گے۔ تلنگانہ حکومت کے اس سرکلر کے خلاف ہائی کورٹ نے رولنگ دے کر گورنر کے احکام پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ تلنگانہ حکومت کی یہ پہلی ٹیکس ناکامی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ حکومت کرنے والوں کو بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنانا ایک فیشن کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ یہ بات نہیں کہ ان سے غلطیاں اور فاش غلطیاں سرزد نہیں ہوتیں، لیکن کیا ہی اچھا ہوگا کہ حکومت سوچ سمجھ کر کام کرے۔ تلنگانہ کے سیاسی اُفق پر طاری ایک بدترین طویل سیاسی جمود ختم ہونے کے بعد ہی نئی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے تو اب اس ریاست کو سمجھداری کے ساتھ چلانے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں نئی صنعتی پالیسی کو پورے جذبہ اور حوصلہ کے ساتھ روبہ عمل لانے کے لئے رشوت سے پاک ماحول فراہم کرنے چیف منسٹر کا دعویٰ سچا ہوتا ہے تو صنعتکاروں کو آسانی سے سرکاری ویب سائٹ سے درخواست فارم ڈان لوڈ کرکے ان کی خانہ پُری کے بعد ایک انڈسٹری قائم کرنے کی درخواست داخل کرسکتے ہیں۔

چیف منسٹر کی پیشی میں قائم کردہ نگرانکار سیل ہندوستان اور بیرونی ملکوں سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں کی جانب سے کی جارہی سرمایہ کاری کے عمل کا جائزہ لے گا اور یہ سارا کام رشوت کے بغیر انجام پائے گا تو اس لحاظ سے تلنگانہ کے ہر علاقہ میں صنعتیں قائم ہوں گی، اور مقامی افراد کی خوشحالی اور ترقی کی کوئی انتہا نہ رہے گی۔ مگر غور طلب امر یہ ہے کہ جو حکومت برقی پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے وہ صنعتی پالیسی کو کیسے روبہ عمل لائے گی؟ ۔ اس موضوع پر عوامی مباحثوں کے متعدد پہلو توجہ طلب ہیں کیونکہ حکومت کی من مانی پالیسی تلنگانہ عوام پر منفی طور پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔تلنگانہ کے دانشورانہ سیاسی گروپ کو کے سی آر کی حرکتوں پر نظر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ تلگو چیانلس پر نمودار ہوکر اپنی پالیسیوں کو خوشی خوشی یا جوش و خروش سے ظاہر کرنے والے ٹی آر ایس وزراء کے تمام بیانات سرکاری اعلانات تو نہیں ہوتے مگر کئی رائے سازوں کی توجہات کے محتاج ہوتے ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنانے کے لئے ضروری ہے وزراء کے ساتھ کام کرنے والے بیورو کریٹس دیانتدار ہوں۔ چیف منسٹر کی پیشی سے لیکر تمام وزراء کے چیمبرس سے وابستہ ملازمین کو دیانتدار بنانے کی جانب توجہ دی جائے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو وزراء کی پیشیوں میں ’’ پرانے عملے‘‘ کے تقرر میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ پرانے عملے کو کئی بری عادتوں کا شکار دیکھا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت کو چند دن اچھے کام کرنے ہوں تو اچھے صاف و شفاف کردار کے حامل ملازمین کو رکھنے ہوں گے۔

اس لئے تمام وزراء کو چاہیئے کہ وہ اپنے ماتحت میں سابق کانگریس وزراء کی پیشیوں کے ملازمین کو نہ رکھیں۔ وزراء کے شخصی مددگار یا پرائیویٹ سکریٹریز کے طور پر کام کرنے والوں کی قابلیت اور مہارت ہی وزراء کی کارکردگی کو قابل تعریف بناسکتی ہے۔ اس معاملہ میں چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو سخت ڈسپلن کے پابند ہیں۔انہوں نے اپنے لئے بھی قابل اور ماہر بیوروکریٹس کو موقع دیا ہے۔ تلنگانہ حکومت میں بھی سرکاری طور پر اُصول و تجربہ رکھنے والے بیورو کریٹس اور ملازمین کے تقررات کے ذریعہ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ چلتے چلتے بابرکت ماہِ رمضان کو گذارنے والے ان بندوں کو مبارکباد جنہوں نے اس ماہ کی تمام فضیلتوں، رحمتوں، عبادتوں اور برکتوں سے استفادہ کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ ان روزہ داروں، عبادت گذاروں کے درمیان ماہ مقدس کو اپنے ڈھنگ سے گذارنے والوں پر افسوس جنہوں نے سال کے گیارہ ماہ سے زیادہ اس ایک ماہ میں دل کھول کر مزے کئے، بازاروں کی رونق میں گھومے، ہوٹلوں میں بے تحاشہ کھایا اور مہینہ گذار دیا۔ جن مسلمانوں نے رمضان المبارک کے مہینہ کو فوڈ فیسٹیول کے طور پرگذارہ انہوں نے اپنا خسارہ کرلیا۔
kbaig92@gmail.com