صرف اعلانات … مزید اضافہ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
عوام کے اندر برداشت کا مادہ طاقتور ہوتا جارہا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی یکے بعد دیگر مہربانیوں والے اعلانات کو صرف سن رہے ہیں اور برداشت کررہے ہیں، اب ایک اور برداشت والی یہ بات ہے کہ خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والی خواتین میں 86 لاکھ ساڑیاں تقسیم کی جائیں گی۔ ریاست کے قیام کے بعد سے متعدد فلاحی اسکیمات جیسے مچھلی، بکریاں اور دو بیڈروم کے مکانات ، مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات اور تنہا رہنے والی خواتین کو 1000 روپئے وظیفہ دینے کے اعلانات نے عوام کی قوت برداشت کو آزمایا تھا کہ اب غریب خواتین کو 86لاکھ ساڑیاں دی جائیں گی۔ کیا ریاست میں صرف 86لاکھ خواتین ہی غریب ہیں؟۔ چندر شیکھر راؤ حکومت نے اس طرح کے اعلانات کرکے سرکاری خزانہ کی نگرانی کرنے والوں کو اضطرابی کیفیت میں مبتلاء کردیا ہے کیونکہ ریاست کا بجٹ اور مالیہ ایسے فلاحی اسکیمات کی پابجائی کرتے کرتے اپنی بقاء کو ایک دن ترسے گا۔ تلنگانہ کے تہوار بتکماں کے موقع پر ساڑیاں دینے کے لئے160کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں نے اسے ٹی آر ایس کا ایک اور انتخابی حربہ قرار دیا ہے تاکہ خواتین کو رجھاکر ووٹ بینک مضبوط کیا جاسکے۔ کے سی آر کٹ کے لئے 5لاکھ ساڑیاں تیار کرنے کا حکم دیا گیا، جس کیلئے12.5کروڑ روپئے خرچ ہوں گے۔ نومولود بچہ اور اس کی ماں کے لئے کے سی آر کٹ دیا جارہا ہے۔ جب سے حکومت نے حاملہ خواتین کیلئے کٹ کا اعلان کیا ہے سرکاری میٹرنٹی دواخانوں میں حاملہ خواتین کے ناموں کا اندراج بھی بڑھ گیا ہے۔ جبکہ ان سرکاری زچگی خانوں میں صرف بے بس اور مجبور اور واقعی غربت کا شکار حاملہ خواتین ہی شریک ہوتی تھیں، اب کے سی آر کٹ نے سرکاری دواخانوں کی رونق بڑھادی ہے۔ کے سی آر کو پتہ ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں، ان کے پاس پیار کا جادو ہے۔ واقعی کے سی آر کے اس جادو پر قربان جانے والے بھی بہت ہیں، اس جادو پر جس کی بدولت کے سی آر نے تلنگانہ کو اندر ہی اندر ہضم کرنا شروع کیا ہے مگر کسی کو کانوں کان پتہ بھی نہیں چل سکے گا کہ آخر اتنی بڑی واردات کیسے ہوگئی۔ یہ واقعی فلاحی اسکیمات کا اعلان کمال کا جادو ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ عوام کے لئے معمول کی بات ہے۔ کے سی آر اِدھر فلاحی اسکیمات پر خرچ کررہے ہیں اور اُدھر سرکاری ملازمین کو صرف خوش کرنے کیلئے تنخواہوں میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس حکومت کے نقادوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ریاست کا نصف خزانہ تنخواہوں کا بل کھاجارہا ہے۔2014 میں ریاست کا سالانہ تنخواہوں کا بل 18,400 کروڑ روپئے تھا، اب اس میں دو سال کے دوران 25000کروڑ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اور اب یہ نشانہ 30,000 کروڑ تک پہنچ جائے گا۔ ریاست کے محکمہ فینانس پر شدید دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس کے باوجود کے سی آر نے 3لاکھ  ملازمین کیلئے 43فیصد فٹمنٹ کا اعلان کیا اور 1.5لاکھ وظیفہ یابوں کو بھی مارچ 2015سے فٹمنٹ کا فائدہ ہوگا جو جون 2014 سے نافذ العمل قرار پایا ہے۔ اس سے ریاستی سرکاری خزانہ پر سالانہ6500 کروڑ روپئے کا زائد بوجھ پڑے گا۔ 57000 آر ٹی سی عملے کیلئے بھی 44فیصد فٹمنٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس سے مزید 800کروڑ روپئے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ کنٹراکٹ لکچررس، وی آر اوز، ای آر ایز، آنگن واڑی ورکرس اور آشا ورکرس کی بھی تنخواہوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ مہنگائی کے اعتبار سے تنخواہوں میں اضافہ کا مطالبہ اور حکومت کی مہربانیاں سرکاری خزانہ کی قوت کو دیکھ کر متوازی طریقہ سے ہونی چاہیئے۔ مگر کے سی آر کی حکومت اس سرکاری خزانہ کے توازن کو اپنی پارٹی کی بقاء کی نذر کررہی ہے۔ دہلی کی گدی پر بیٹھ کر وزیر اعظم نے عوام سے راست ’’من کی بات ‘‘ کرنی شروع کی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہورہے ہیں اور ان کی من کی بات نے چیف منسٹر تلنگانہ کو اتنی پسند آئی کہ وہ بھی اپنی ریاست کے عوام کے ساتھ ’’ من کی بات ‘‘ کرتے ہوئے 2019 کے انتخابات کی تیاریاں کریں گے۔تلنگانہ کے عوام کے مسائل سے واقفیت کیلئے انھیں ’ من کی بات ‘ پروگرام شروع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک عوامی لیڈر کو عوام کے مسائل سے واقفیت ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اب تک کے فلاحی اسکیمات شروع کئے تھے۔ پھر من کی بات پروگرام کے ذریعہ  مزید کیا اسکیمات بنائے جائیں گے یہ کام عہدیداروں کے تفویض کیا جارہا ہے۔

نریندر مودی نے عوام سے بات  کرنے کیلئے ریڈیو کا انتخاب کیا تھا لیکن چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ ٹی وی کے ذریعہ عوام کو مخاطب کریں گے۔ آنے والے انتخابات کیلئے چیف منسٹر کیلئے اب اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ہر جگہ اور ہر وقت سلسلہ وار جلسہ عام سے خطاب کرسکیں اور اپنے فلاحی پروگرام کے بارے میں عوام کو واقف کراسکیں، اس لئے تلنگانہ حکومت کی اب تک فلاحی اسکیمات کے بارے میں عوام کو خوشخبری سنانے کیلئے میڈیا ہی بہترین ذریعہ ہے۔ اس لئے ان کی حکومت کی سرپرستی میں ٹی آر ایس نے اپنے میڈیا سنٹرس قائم کرلئے ہیں۔ اخبار اور ٹی وی چینل کے ذریعہ عوام کو سرکاری اسکیمات اور پروگراموں سے واقف کروایا جارہا ہے۔ پارٹی کے ٹی نیوز چینل کے علاوہ دیگر ٹیلی ویژن چینلس کے ٹائم سلاٹس کو بھی خریدا جائے گا۔ کے سی آر کی من کی بات کی خاص بات یہ ہوگی کہ وہ عوام کے سوالات سن کر جواب دیں گے اور عوام کی کوئی بھی شکایات ہو تو اس کو بروقت حل کرلیا جائے گا۔ کے سی آر کا یہ پروگرام اگرچیکہ نیا نہیں ہے مگر عوام تک پہنچنے کا یہ آسان راستہ ہے۔ اس سے پہلے متحدہ آندھرا پردیش میں تلگودیشم حکومت کے دوران چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے ’’ ڈائیل یوور  سی ایم ‘‘ پروگرام شروع کیا تھا، اس کے باوجود تلگودیشم کو عوام نے مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس حکومت میں چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے بھی ’’مسٹر سی ایم ‘‘ پروگرام شروع کیا تھا مگر اس چیف منسٹر کے ساتھ کیا ہوا یہ سبھی جانتے ہیں۔ بلا شبہ کے سی آر کا پروگرام دیکھا جانا چاہیئے کیونکہ ان کے جلسوں میں ہی عوام کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو ٹی وی پروگرام دیکھنے والوں کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اب چلتے ہیں اوقافی جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کی جانب جن کے تعلق سے ہر دور میں وقف بورڈ والے اپنی موجودگی کے باوجود غیر موجودگی کا ثبوت دے کر لینڈ مافیا کو چھوٹ دیتے آرہے ہیں۔ صدر نشین بدلتے ہیں نئے آتے ہیں اور پرانے ہوکر چلے جاتے ہیں مگر قبرستانوں کی اراضیات پر ناجائز قبضوں میں نہ تو کمی ہوتی ہے نہ ہی قبضے برخاست ہوتے ہیں۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کی دہائی دینے والے اور ان پر قبضہ کرنے والے ہر ایک کا آخری ٹھکانہ یہی ہے لیکن اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لینڈ مافیا آہستہ آہستہ قبرستانوں کی اراضی پر قبضہ کرکے گھر، دکان، موٹر گیراج، لکڑی کی ٹال، شادی خانے وغیرہ تعمیر کرلیتے ہیں۔ اگر عام آدمی کے پلاٹ پر کوئی زبردستی قابض ہو تو وہ عدالت میں جاتا ہے، پولیس کی مدد لیتا ہے، مرنے مارنے پر آتا ہے مگر یہاں اوقافی جائیدادوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ غریبوں کے دو، دو گز کے آخری دائمی پلاٹس کو بھی چھین لیا جارہا ہے۔ اوقافی جائیدادوں کے محافظ صرف تماشائی اور رسمی کارروائیاں کرتے ہیں۔ خود حکومت غریبوں کے نام پر اسکیمات بناتی ہے مگر غریبوں کی اس دو گز زمین کو بچانے کی ہمت نہیں دکھاپاتی۔
kbaig92@gmail.com