صدقے جایئے ایسے قائدین کے

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے پانچ شہروں کی ہمہ رُخی ترقی کے لئے حکومت کا منصوبہ بہت جلد تیار ہوگا۔ حیدرآباد، ورنگل، کریم نگر، نظام آباد اور کھمم کو ترقی دینے کیلئے فنڈس کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے لیکن اس کے منصوبے وسیع ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤاپنے عزائم کی تکمیل کے حصہ کے طور پر شہرحیدرآباد کو کلین اینڈ گرین بنانے کوشاں ہیں۔ دونوں شہروں کے درمیان موجود حسین ساگر تالاب کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے انہوں نے تالاب سے مربوط گندے پانی کے نالوں کا رُخ موڑنے کی ہدایت دی ہے۔حسین ساگر کو ونائیک ساگر کا نام دینے کی درپردہ کوشش کررہے ہیں۔ وہ شہر کے مسائل پر توجہ دے رہے ہیں پھر مسائل جوں کے توں ہیں۔ جو پارٹی سربراہ اپنی پارٹی کے پلینری سیشن کو ایک سے زائد مرتبہ ملتوی کرنے کے لئے مجبور ہوتا ہے تو وہ منصوبہ جاتی اقدامات کس یقین کے ساتھ کرے گا یہ غیر یقینی بات ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا پہلا پلینری سیشن ہی جھکولے کھارہا ہے تو عوام الناس کی فلاح و بہبود کی اسکیمات کا کیا حال ہوگا۔ حیدرآباد کو دھیرے دھیرے آلودگی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جس کی وجہ سے ڈینگواور ملیریا کے کیسس سامنے آرہے ہیں۔ پرانے شہر میں ڈینگو سے ہونے والی اموات کا اگر سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیاگیا تو یہ سلسلہ شہریوں کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔

گزشتہ پانچ ماہ کی حکمرانی کی کارکردگی کا تعاقب کرنے والی تلگودیشم نے اپنے ارکان کو ٹی آر ایس میں شامل ہونے سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ ٹی آر ایس اپنی ڈرامہ بازی کے ذریعہ دیگر پارٹیوں کے ارکان کو راغب کرنے کوشاں ہے۔ تلنگانہ میں برقی بحران اور تاریکی میں ٹی آر ایس سیاسی انوکھے کام انجام دینا چاہتی ہے۔ اس کی ناکام کارکردگی کے سبب شہریوں کے دل بدل رہے ہیں تو سیاسی منظر بھی بہت جلد بدل جائے گا۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت اس منظر کی تبدیلی کو نہیں دیکھ رہی ہے جو دیوار پر لکھی ہوئی ہے۔ پلینری سیشن کا التواء کابینہ میں توسیع کا مسئلہ اور اہم عہدوں پر تقررات کے لئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی خاموشی نے دھیرے دھیرے ناراضگیوں کو جنم لینا شروع کردیا ہے۔ سمندری طوفان ہد ہد کی تباہیوں سے پریشان آندھرا پردیش کی حکومت کو آئندہ چند ہفتوں تک سیاسی پینترے بازیوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سرپرستی حاصل ہے لیکن تلنگانہ کی حکومت اس سرپرستی سے محروم ہے۔ٹی آر ایس کو کچھ راحت نہیں ملے گی کیونکہ ٹی آر ایس نے اپنا پلینری سیشن جس دن مقررکرنے کا وعدہ کیا تھا اس دن متوازی جلسہ کرنے تلنگانہ تلگودیشم نے بھی اعلان کیا تھا۔ اس طرح دو مرتبہ پلینری سیشن کے التواء کے بعد تلنگانہ تلگودیشم کو بھی ٹی آر ایس کے خلاف مورچہ بندی میں ناکامی سے مایوسی ہوئی ہے۔ اس سارے منظر میں کانگریس کے قائدین دھوپ چھاؤں بنے ہوئے ہیں۔ حکومت تلنگانہ کی خرابیوں کا نوٹ لینے اور اس کی عدم کارکردگی کا جائزہ لے کر عوام الناس کے مسائل کی یکسوئی کے لئے مورچہ بندی کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا ہے۔ کانگریس کے چند ایک ارکان کو ہی اخباری بیانات کے ذریعہ پارٹی کے وجود کا احساس دلاتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ تلنگانہ کانگریس پارٹی قائدین حکومت کی سروے پالیسی اور تلنگانہ میں عوامی نظام تقسیم کے ذریعہ راشن کی تقسیم کے لئے حاصل کی جانے والی درخواستوں پر اعتراض ہے۔

جب ریاست میں ایک سروے کے ذریعہ شہریوں کا ڈاٹا حاصل کیا گیا ہے تو دوسرا ڈاٹا تیار کرنے کی کوشش حکومت کی ڈرامائی پالیسیوں کا حصہ ہے ۔ اس طرح حکومت ریاست کے غریبوں کی فلاحی اسکیمات کے ساتھ کھلواڑ کرکے انہیں آس و اُمید کی دھوپ میں جھلستا چھوڑنا چاہتی ہے۔ اس آس و اُمید کی دھوپ میں جھلس کر ایک ضعیف شخص فوت ہوگیا۔ پنشن سے استفادہ کرنے اپنی درخواست کے ادخال کیلئے پہونچنے والا یہ ضعیف شخص حکومت کی نادان حرکتوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ شہریوں خاص کر غریب عوام کو خوف کی کھائی میں ڈھکیلنے ٹی آر ایس حکومت نے ایک دن میں گھر گھر جامع سروے کروایا تھا اور اب اس کے بعد غریبوں سے ان کی تفصیلات اکٹھا کرنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے آس کی فضاء میں وحشتوں کو رقصاں کررہی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے اپنے شہریوں کیلئے شاہراہوں پر انجان خطرات کا پہرہ لگادیا ہے۔کئی معنوں میں ایسی جادوگری کی ہے کہ غریب عوام لاکھ خرابیوں کے باوجود حکومت کے خلاف آواز نہیں اُٹھارہے ہیں جس پر شاید کسی آسیب کا سایہ ہے اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کیوں ہے کہ عوام اپنے حق کی جانی پہچانی مسرتوں اور نعمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ کیوں انہیں تلنگانہ حکومت سے ڈر لگنے لگا ہے اور آنے والے دنوں میں برقی کی صورتحال، پینے کے پانی کا مسئلہ اور اناج کی دستیابی کی فکر لاحق ہوگئی ہے کیونکہ جس وقت تلنگانہ کا قیام ہوا تھا ریاست میں چاول کی قیمت 35 روپئے کیلو گرام تھی، اور اب 55روپئے کیلو گرام دستیاب ہورہا ہے۔ عوام متحدہ آندھرا کے بعد منقسم آندھرا کے حالات کا عوامی سطح پر جائزہ لے رہے ہیں۔ تاریخی حقائق اور عہد حاضر کی سچائیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کررہے ہیں کہ ٹی آر ایس حکومت نے انہیں کہاں سے کہاں لے جانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ آپ اس ہفتہ کی خبروں کا جائزہ لیں تو طرح طرح کی بھیانک خبروں سے دل لرز اُٹھے گا۔ سرکاری، سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگیوں سے نکلنے والی خبریں اتنی تشویشناک ہیں کہ لوگ سرسری نظر ڈالیں تو پتہ چلا گا کہ جرائم کی حد میں کس حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہم جنس پرستی کے حالیہ واقعات کے بعد شہر کی فضاء افسوسناک طور پر فکر و احساس سے مجروح نظر آتی ہے۔ اس معاشرے میں تشدد، جنسی حملے اور انتشار کے حالات پیدا کرنے والی حرکتیں زیادہ مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ فوجی جوانوں کی ایک مسلم کمسن لڑکے کو کیروسین ڈال کر آگ لگادینے کا واقعہ ہو یا ضعیف شخص کا نوجوان کو بالائی منزل سے ڈھکیل کر ہلاک کرتے ہوئے جنسی خواہش کی عدم تکمیل کا انتقام لینے کے واقعات کے بعد پولیس صرف ایف آئی آر درج کرکے اپنا فریضہ ادا کردیتی ہے شہریوں نے بھی باہر کی دنیا کی دہشت سے کسی حد تک فرار کا راستہ یہ اختیار کرلیا ہے کہ اپنی ذاتی زندگی کو بچاکر اسے خوشگوار بنالیں لیکن یہ کام اب ان کیلئے بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ گویا معاشرے میں فرار کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ جب شہری اپنے گھر کی دیواروں کے اندر ہوتے ہیں یا دوستوں کی محفل سجاتے ہیں تو انہیں آزادی کا احساس ہوتا ہے کہ وہ جو چاہیں کہیں اور کریں۔ عدم برداشت اور نفرت، جرم کا دربار تو باہر گلیوں اور بازاروں میں ہے۔جب ایک باپ ازدواجی زندگی کے جھگڑوں اور بیوی کی ہراسانی سے تنگ آکر اپنے دو معصوم بچوں کو تیز دھاری ہتھیار سے قتل کرکے خود ٹرین کے آگے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلیتا ہے تو یہ واقعہ معاشرہ کی بگڑتی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔جس شہر میں حکومت وائی فائی سرویس مفت فراہم کرنے کوشاں ہے تو وہیں

جرائم کے واقعات پر قابو پانے سے بے خبر ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کو اپنی پانچ ماہ کی کارکردگی کا جائزل لینے کی بھی توفیق نہیں ہورہی ہے۔ اس لئے وہ اسمبلی سیشن کی طلبی سے بھی گریز کررہی ہے۔ ایسے میں تلگودیشم اور کانگریس کو اپوزیشن پارٹیاں ہونے کا فریضہ انجام دینے کی ضرورت ہوگی۔ عوام کو درپیش مسائل پر غوروخوض کرنے کے لئے اپوزیشن کو حکمراں پارٹی پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ جس حکومت کی عدالت نے 7مرتبہ سرزنش کی ہے اس کے بارے میں اپوزیشن نے کوئی مورچہ بندی نہیں کی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس بھی عوام کے مسائل کو حل کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔ فیس بازادائیگی ہو یا ایمسیٹ کونسلنگ، برقی بحران ہو یا تلنگانہ کے 241کسانوں کی خودکشی کا مسئلہ، اس پر حکومت خاموش ہے تو اپوزیشن کیوں محو خواب ہے؟۔ کسانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ نئی ریاست تلنگانہ میں انہیں جینے کی آرزو پیدا ہونے والی پالیسیاں دی جائیں گی اس کے برعکس تلنگانہ میں کسانوں نے مرنے کو ترجیح دینا شروع کیا ہے کیونکہ انہیں 24گھنٹے میں بمشکل صرف تین گھنٹے برقی سربراہ کی جارہی ہے۔ مانسون کی کمی سے بھی کسان مایوس ہوگئے ہیں اور اب فصل پر قرض لینے کی آس بھی ختم ہوگئی ہے۔ صدقے جایئے ایسی حکومت کے کہ جس میں حکمراں پارٹی ارکان کے کتے بھی شراب و کباب سے بدمست ہورہے ہیں لیکن غریب عوام کیلئے قبر کا سینہ ہی آخری پناہ گاہ بن رہا ہے۔
kbaig92@gmail.com