صحافی … قوم کا ضمیر

میرا کالم سید امتیاز الدین
جب کوئی آدمی ناکامی کا منہ دیکھتا ہے تو ایک ناقابل بیان الجھن کا شکار ہوجاتا ہے ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پریشانی میں بھی صبر و سکون کا مظاہرہ کرتے ہیں ورنہ عام طور پر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ جہاں پریشانیوں کا سامنا ہوا لوگ ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں جو انہیں زیب نہیں دیتیں۔
کم و بیش تین سال پہلے جب اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کو زبردست کامیابی ملی اور ملائم سنگھ کے ہونہار فرزند اکھلیش یادو چیف منسٹر بنے تو عوام نے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور بہت اچھی توقعات وابستہ کیں لیکن چند ہی دنوں میں اس اعتماد کو اس وقت دھکا لگا جب مظفر نگر کے فسادات ہوئے اور خواتین کی عزت خطرے میں نظر آنے لگی ۔ عام انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ان حالات میں اکھلیش یادو صحافیوں سے بہت ناراض ہیں اور ان پر تنقید اور مذمت کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتے۔ ابھی حال میں لکھنو کے ایک جلسہ میں طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے اکھلیش یادو نے ایک عجیب بات کہی۔ انہوں نے طلبہ سے کہا اگر آپ لوگ محنت سے پڑھیں گے تو کامیابی کی بلندیوں کو چھولیں گے لیکن اگر آپ امتحان میں نقل کریں گے تو کبھی آئی اے ایس افسر نہیں بن سکتے۔ ہاں صحافی بن سکتے ہیں۔ یہ جملہ کہنے کے بعد اکھلیش یادو پریس گیلری کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے جیسے انہوں نے کوئی پر لطف اور شگفتہ جملہ کہا ہو لیکن گیلری میں بیٹھے ہوئے صحافیوں نے ان کی مسکراہٹ کا جواب اظہار ناپسندیدگی کے طور پر خاموشی سے دیا۔

کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی شناخت دو باتوں سے ہوتی ہے ۔ عدلیہ کا احترام اور صحافت کی آزادی ، خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں عدلیہ کا احترام بھی ہے اور صحافت کی آزادی بھی ۔ سچ پوچھئے تو صحافی قوم و ملک کا ضمیر ہوتا ہے ۔ حق گوئی اور صحت مندانہ تنقید سے حکومت کو ہر اہم معاملے میں صحیح فیصلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہماری صحافت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ہر زبان کے اخبار نے کسی نہ کسی اعتبار سے انگریزی حکومت پر دلیرانہ تنقید کی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ہندو مسلم اتحاد اور ملک کی آزادی کیلئے بے شمار قربانیاں دیں۔ الہلال اور البلاغ نے قومی بیداری کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا ۔ مولانا اپنی حق گوئی و بے باکی کی وجہ سے کئی بار جیل گئے ۔ اُن کے اخبار کو انگریزی حکومت نے بند کرادیا۔ اُن پر جرمانے عائد ہوئے ۔ مولانا نے عدالت میں خود پیروی کی ۔ انہوں نے جج سے کہا، ہمیں جلد جلد عدالت آنے دو ، تم جلد جلد فیصلے لکھتے رہو۔ یہاں تک کہ اس عدالت کا دروازہ کھل جائے جو خدا کے انصاف کی عدالت ہے۔ وقت اُس کا جج ہے ۔ وقت جو فیصلہ لکھے گا وہ آخری فیصلہ ہوگا۔ مولانا آزاد جیسے عالم ملک میں کم پیدا ہوئے ہیں۔ اس طرح مولانا محمد علی جوہر کی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی تھی ۔ بعد میں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگری حاصل کی ۔ انہوں نے دو اخبار ہمدرد اور کامریڈ جاری کئے ۔ اُن کی انگریزی بھی بے مثال تھی اور اردو بھی غیر معمولی تھی ۔ ہندوستان کی آزادی کی خاطر گفت و شنید کیلئے جب وہ انگلستان جانے لگے تو انہوں نے کہا کہ میں آزادی حاصل کر کے رہوں گا ورنہ غلام ملک کو واپس نہیں آؤں گا۔ اُن کی یہ بات اُن کے دل کی گہرائیوں سے نکلی تھی ۔ اس لئے وہ اپنے وطن آہی نہیں سکے۔ واپسی کے سفر میں اُن کا انتقال ہوگیا اور اُن کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی۔ مولانا حسرت موہانی ریاضی کے گریجویٹ تھے۔ اُن کا دبدبہ ایسا تھا کہ بڑے بڑے اُن سے کانپتے تھے ۔ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ مولانا حسرت موہانی نے 1921 ء میں وہ نعرہ ملک کو دیا تھا جو آج بھی ہر ایک کی زبان پر ہے ۔ ’’انقلاب زندہ باد‘‘

آزادی سے پہلے بھی صحافت کی طاقت کو ہر ایک تسلیم کرتا تھا چنانچہ اکبر الہ آبادی کا مشہور مصرع ہے۔
گر توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
اُس زمانے میں صحافت ادبی معیار پر بھی پوری اُترتی تھی اور ظرافت بھی اُس میں شامل رہتی تھی۔ ایک مرتبہ مولانا آزاد اور مولانا محمد علی میں کچھ اختلافات ہوگئے تھے۔ اتفاق کی بات کہ مولانا محمد علی جوہر ایک ایسے ڈنر میں شریک ہوئے تھے جس میں انگریز افسر شریک تھے ۔ مولانا آزاد نے ایک اداریہ لکھا جس میں مولانا محمد علی جوہر پر طنز کیا کہ وہ انگریزوں سے بھی تعلقات رکھتے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں یہ شعر لکھا
معشوقِ ما بہ شیوۂ ہر کس موافق است
باما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد
مولانا محمد علی اس شعر کا جواب دینا چاہتے تھے لیکن انہیں بروقت کوئی شعر ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ مولانا محمد علی کے اسٹاف میں محفوظ علی بدایونی نامی بزرگ تھے جو عربی ، فارسی کے عالم تھے۔ انہوں نے مولانا محمد علی کے جوابی اداریے کیلئے یہ شعر لکھ کر دیا ؎

بر کفے جام شریعت برکفے سندانِ عشق
ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باخقن
حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب طرز ادیب تھے ۔ حسن نظامی ’منادی‘ نکالتے تھے جو اُن کے ادبی شہ پاروں اور اُن کے روزنامچے کیلئے بہت مشہور تھا ۔ حضرت حسن نظامی کے اخبار میں اُن کے بنائے ہوئے واحدی منجن کا اشتہار بھی چھپتا تھا ۔ ایک بار کسی بات پر خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال میں کچھ اختلاف ہوگیا ۔ حسن نظامی نے اقبال کو شاعرِ پنجاب لکھنا شروع کردیا جس کا مقصد اس عظیم شاعر کی اہمیت گھٹانا تھا ۔ علامہ اقبال نے ایک پر لطف حرکت کی ۔ انہوں نے حسن نظامی کے واحدی منجن کی تعریف میں ایک خط لکھ دیا۔ علامہ نے لکھا کہ میرے دانتوں میں درد تھا ۔ آپ کے واحدی منجن سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ براہ کرم واحدی منجن کی دو شیشیاں بذریعہ وی پی روانہ فرمائیے۔ منادی کے اگلے شمارے میں حضرت حسن نظامی نے پورے صفحے کا اشتہار شائع کیا ۔ سرخی لگائی ’ واحد منجن کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی رائے‘
انیسویں صدی کے آخر میں لاہور کے ایک صاحب جن کا نام محبوب عالم تھا ’ پیسہ اخبار‘ نکالتے تھے جو بہت مقبول تھا ۔ محبوب عالم صاحب کے بعد اُن کے پوتے نے اخبار کی ادارت سنبھالی ۔ یہ بڑے جوشیلے آدمی تھے۔ انہوں نے ایک بار لندن کا سفر کیا اور وزیراعظم برطانیہ سرونسٹن چرچل سے ملاقات کیلئے وقت لیا ۔ چرچل بہت مصروف تھا ۔ پھر بھی اس نے دو منٹ دیئے۔ پیسہ اخبار کے ایڈیٹر صاحب نے ملتے ہی اُس سے کہا ’ ہمارے ملک کو فوراً آزاد کردیجئے ورنہ …‘ ۔ چرچل نے کوئی جواب نہیں دیا تو پیسہ اخبار کے ایڈیٹر نے پھر کہا ’ ہمارے ملک کو آزادی دے دو ورنہ !…‘ ۔ چرچل نے تمسخر سے پوچھا ورنہ کیا ہوگا ؟ پیسہ اخبار کے ایڈیٹر نے جواب دیا ’ورنہ میں آپ کے خلاف پیسہ اخبار میں ایڈیٹوریل لکھوں گا‘۔

مولانا محمد علی جوہر کی حس مزاح بھی بہت خاص تھی ۔ ایک مرتبہ اُن کے کاتب نے آکر کہا ’صاحب اخبار کی کتابت ہوچکی ہے لیکن ابھی بھی آخری صفحے کی چار پانچ سطریں خالی ہیں اور کوئی خبر نہیں ہے کہ یہ جگہ پرُ کی جائے۔ یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ تھا ۔ مولانا محمد علی جوہر مسکرائے اور کہا ’’لکھ دو کہ ایک جرمن جہاز کو جس میں دو سو جرمن سپاہی سوار تھے ، ایک برطانوی آبدوز کشتی نے ڈبودیا‘‘۔ تھوڑی دیر بعد کاتب پھر آیا اور کہنے لگا ’’ ابھی بھی ایک سطر خالی ہے‘‘۔ مولانا محمد علی نے کہا ’’لکھ دو کہ ابھی اس خبر کی تصدیق نہیں ہوئی‘‘۔
چلتے چلتے ایک چھوٹا سا قصہ اور بھی سن لیجئے ۔ اخباروں کے رپورٹر بھی خبریں جلد سے جلد اپنے اخبار کیلئے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک رپورٹر نے کسی سڑک پر ایک ہجوم دیکھا ۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ ہجوم کیوں ہے ۔ کسی نے اسے بتایا کہ ایک کار نے کسی کو کچل دیا ہے۔ رپورٹر لوگوں کو چیرتا ہوا مجمع میں گھس گیا ۔ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا ’’مجھے راستہ دو۔ مرحوم میرے قریبی عزیز تھے‘‘۔ لوگوں نے اُسے راستہ دیا لیکن رپورٹر کو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ایکسیڈنٹ تو ہوا تھا لیکن کار کے نیچے ایک گدھا مرا پڑا تھا ۔
بہرحال یہ تو خیر یونہی سا من گھڑت واقعہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سچے اور بے لوث صحافیوں اور صحت مند اخبارات کی ہمارے ملک میں کمی نہیں۔ ہمارے صحافی قابل بھی ہیں اور ذہین بھی ۔ یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ جو لوگ امتحان میں نقل کر کے پاس ہوتے ہیں ، صحافی بن جاتے ہیں۔