صبح کا ستارہ

ولی تنویر
دسمبر کی وہ ایک سرد رات تھی میں بڑی دیر سے سائی رام کا انتظار کررہا تھا ۔ صبح جب اس کا فون آیا تھا اور وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا تو میں نے اسے شام میں آنے کیلئے کہا تھا ۔ وہ آج صبح ہی گاؤں سے شہر آیا تھا اپنے کسی نجی کام سے لیکن وہ مجھ سے ملنا اور کچھ ضروری بات چیت کرنا چاہتا تھا میں نے اسے شام اپنے گھر پر بلایا تھا ۔شام رات میں تبدیل ہوچکی تھی ۔ باہر سردی بھی بڑھ رہی تھی ۔ وہ ابھی تک نہیں آیا ۔ ورنہ وقت اور وعدہ کا بڑا پابند انسان ہے مجھے اسکی آمد کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا ۔ اس نے فون بھی نہیں کیا میرے پاس اس کا نیا فون نمبر بھی نہیں ورنہ میں خود اس تاخیر کی وجہ پوچھ لیتا ۔ سائی رام میرے اسکول کا ساتھی تھا ۔ ہمارے میڈیم الگ تھے لیکن اسکول ایک ہی تھا ۔ اسکول کے اوقات کے بعد ہم پلے گراؤنڈ میں ایک ساتھ فٹ بال ، ہاکی وغیرہ کھیلا کرتے اور اسکول کی دیگر مشترکہ مصروفیات میں بھی مل جل کر حصہ لیا کرتے ۔ قومی تقاریب میں بھی ہمارا بڑااچھا ساتھ ہوتا ۔ ضلعی اسپورٹس مقابلوں میں بھی ہم مشترکہ طور پر حصہ لیتے ۔ سائی رام کا تعلق گاؤں کے ایک غریب دلت فیملی سے تھا ۔ اس کے ماں باپ پڑھنے لکھے نہیں تھے ۔ اس کی فیملی زرعی مزدورکی حیثیت رکھتی تھی ۔ سائی رام کے بھائی بہن بھی لکھنے پڑھنے کی جانب زیادہ راغب نہیں تھے ۔ لیکن سائی رام کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا والدین کی مرضی تھی کہ وہ بھی ان کے ساتھ زرعی مزدوری شروع کرکے فیملی کی مدد کرے لیکن اس نے والدین کی مرضی کے خلاف پڑھنے لکھنے میں زیادہ دلچسپی لی اور اپنی کلاس میں اچھی پوزیشن بنالی تھی ۔ تعلیمی میڈیم تلگو ہونے کے باوجود اس کو اردو سے والہانہ محبت تھی اس نے بڑی محنت اور لگن اور جستجو سے اردو سیکھی تھی ۔

’’ٹرن … ٹرن…ٹرن‘‘ میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک فون کی آواز پر چونک پڑا ۔ فون سائی رام ہی کا تھا اس نے گیٹ کے باہر سے مجھے فون کیا تھا ۔ میں فوراً گیٹ کے باہر آیا سائی رام اپنے ایک دوست کے ساتھ کھڑا تھا ۔ انہیں اپنے ساتھ گھر کے اندر لے آیا اور رات کے کھانے کی خواہش کی ۔ اس نے اپنے ساتھ آنے والے دوست سے میرا تعارف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ’’ہمارے بڑے قریبی اور مخلص دوست راکیش ہیں انہیں کے گھر پر رات کے کھانے کی وجہ سے آنے میں دیر ہوئی ہے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’تمہارے انتظار میں میں نے اب تک رات کا کھانا نہیں کھایا ۔ دو نوالے ہی سہی میرے ساتھ کھالیں تاکہ میں بھی اپنی بھوک مٹاسکوں ۔ پھر بیٹھیں گے‘‘ ۔ انہوں نے میری بات مان لی اور کھانے کی میز پر بڑی دلچسپ اور مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں ۔

کھانے سے فارغ ہو کر جب ہم پھر دیوان خانے میں آئے اور چائے اور دور چلا ۔ راکیش نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا ’’آپ نے ہمیں اپنے ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کے لئے مدعو کیا ۔ آپ کو خیال نہ آیا کہ ہم غیر مذہب کے اور پچھڑی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ۔ آپ کو ہمارے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے غیریت نہ محسوس ہوئی کہ آپ چھوٹی ذات والوں کے ساتھ کھانا کھارہے ہیں ۔ جب کہ آج ہمارے ساتھ ہر جگہ ہر قوم پر بڑی ذات والے بہت ہی عجیب سا برتاؤ کیا کرتے ہیں‘‘ ۔ میں نے ان سے کہا ’’اسلام میں ایسا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے سب انسان آدم کی اولاد اور اللہ کے بندے ہیں ۔ سب برابری کے مستحق ہیں ۔ اللہ پاک کے نزدیک صرف تقوی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر ہی انسان اپنا بلند مقام بناتا ہے ۔ ورنہ ذات پات رنگ نسل ، گورے ، کالے اور علاقہ ملک و مقام دولت وثروت کی بنیاد پر کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہماری مساجد میں نماز کی صفوں میں بادشاہ اور غلام ، ملازم اور مالک ، غریب و امیر سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں ۔ اس وقت میں نے علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر ان کے حوالے کیا ۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
میں نے مزید کہا ’’راکیش آپ میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور میری گذارش پر مجھے ہم طعامی کا شرف بخشا یہ میرے لئے بڑی بات ہے‘‘ ۔ میری ان باتوں سے مسٹر راکیش بہت متاثر نظر آرہے تھے ۔ میں نے کہا ’’مساوات اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے ۔ اور انسانوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کا احترام ہم پر لازم ہے ۔ محبت ہمارا پیغام ہے ۔ نفرت سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ۔ پندرہ سو سال سے ہم نے دنیا کو محض یہی پیغام دیا ہے‘‘ ۔ قدرے توقف کے بعد میں نے کہا ’’اسلام میں سماجی اونچ نیچ کے تصورات بالکل نہیں ۔ انسانی حقوق اور آزادی اللہ تعالی کی طرف سے ہے ،

جو اس کائنات کا خالق اور مالک ہے ۔ اور دین میں کوئی جبر نہیں ۔ دین اسلام کو اللہ تعالی نے پسند کیا اور اسے بندوں کیلئے آسان بھی بنادیا‘‘ ۔ پھر سائی رام نے اپنی آمد اور مجھ سے ملنے کا مدعا بیان کیا ۔ سائی رام نے اپنے دوست کا مزید ایک بار تعارف کرایا ’’یہ مسٹر راکیش محکمہ تعلیمات میں ضلعی سطح کے بڑے عہدہ دار ہیں ۔ میرے بڑے اچھے ساتھی ، ہمدرد اور انسانیت دوست شخصیت کے مالک ۔ انہیں تقرری کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔ اردو شعر و ادب سے انہیں دیوانگی کی حد تک لگاؤ ہے ۔غالب ، اقبال ، حالی اور مخدوم و فیض کے عاشق ہیں ، ابن صفی ہماری مشترکہ پسند ہے ۔ اردو ہی دراصل ہماری دوستی کی اساس ہے ۔ ہم پچھلے چند دنوں سے بے چینی اور عجیب سے الجھن کا شکار ہیں ۔ ملک کے موجودہ حالات ہمیں پریشان کئے ہوئے ہیں اس وقت ہمارا ملک بڑے عجیب حالات سے گذر رہا ہے ۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا آنے والا کل کیسا ہوگا ۔ ملک کو آزاد ہوئے پون صدی گذر رہی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ ابھی تک ہم غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ اس وقت ہم انگریزوں کے غلام تھے اور آج غلاموں کے غلام ہیں۔ ملک کا وہ 3% طبقہ جو اس وقت انگریزوں کے دور میں ان کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا تھا اور ابتدائی جنگ آزادی کے دنوں میں مجاہدین آزادی کی مخبری کرکے جو انگریزوں کی خوشنودی حاصل کیا کرتا تھا آج وہی مخبری کرنے والا 3% طبقہ بھارت کا مالک بنا بیٹھا ہے ۔ وہ لوگ انگریزوں کی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ والی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔

ملک کے سارے وسائل اور بڑے عہدے اس 3% والے طبقہ کے ہاتھوں میں ہیں ۔وہ طبقہ جب جہاں ، جو چاہے کچھ بھی کرواسکتا ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات کرواکر ملک کی معیشت کو محض اپنے حقیر مفادات کیلئے تباہ و برباد کیا جارہا ہے ۔ مسلمانوں اور دلتوں میں خلیج اور نفرت پیدا کرکے خود اپنا الو سیدھا کیا جارہا ہے ۔ اور ادھر رشوت کے کالے بازار میں بھی وہی 3% طبقہ ملوث ہے جو ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کئے جارہا ہے ۔ ملک میں جتنے بھی اسکام اور گھٹالے رونما ہورہے ہیں اب سبھی میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح یہی طبقہ اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کی خاطر ملک کے عظیم مفادات کو داؤ پر لگارہا ہے‘‘ ۔ سائی رام نے کہا ’’دلت اور دیگر کمزور طبقات بھارت میں 52% ہیں اور مسلم اقلیت 30% ہیں اگر ہم آپس میں مل کر نئے بھارت کیلئے کمر کس لیں تو یہ 3% طبقہ کی غلامی سے بھارت کو آزاد کیا جاسکتا ہے ۔ اس مسئلہ پر ہمیں سنجیدگی سے غور وفکر کرنا ہے آپ ہماری مدد کریں ۔ کیونکہ آپ اپنی کمیونٹی میں اپنا بہتر مقام رکھتے ہیں لہذا اس کام کو بہتر انجام دے سکیں گے ۔ اب وقت آگیا ہے بھارت کو بچانے کا‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے سائی رام بہت سنجیدہ ہورہے تھے ۔ اور راکیش صاحب کی خاموشی ان کی تائید کررہی تھی ۔ میں نے کہا ’’سائی رام آپ کی باتیں اپنی جگہ بہت درست ہیں اور آج کے اس ماحول میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ۔ ہمیں اس جانب بہت جلد پوری سنجیدگی کے ساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ آنے والے دن بھارت کی تاریح کو بدلنے والے دن ہیں ایسے وقت ہمیں بڑی دانشمندی اور فکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے قدم آگے بڑھانا ہوگا ۔

ایک طرف تو فرقہ واریت کا دیو کھڑاہے دوسری جانب کرپشن اور دیگر کئی اسکام ملک کو تباہ کئے جارہے ہیں ۔ ہر طرف بدامنی اور نراش کا دور دورہ ہے ۔ فرعونیت اور انانیت نے ملک کو تباہی کی دہلیز تک پہنچادیا ہے ۔ اگر ہمارے ملک سے یہ فرقہ واریت اورکرپشن ختم ہوجائے تو ہمارا ملک دنیاکا سب سے بہتر ملک ہوسکتا ہے ۔ لیکن دنیا کی بڑی طاقتیں ہمیں ان دونوں لعنتوں میں مبتلا رکھ کر ہماری ترقی کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردئے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں میں مسلمان ہوں اپنے گھر کی دہلیز میں اور مسجد میں ہوں آپ ہندو ہیں ، کوئی کرسچن ہے یا سکھ ہے تو اپنے گھر اور عبادت گاہ میں لیکن جب باہر نکلیں تو صرف اور صرف ہم بھارتی بن کر نکلیں ۔ آپس میں بھائی چارہ کا مظاہرہ کریں ۔ ہمارا ہر کام صرف بھارت کے مفاد میں ہو اگر ایسا ہوگا تو ہم اپنے بھارت کو دنیا کا سب سے بہتر اور کامیاب جمہوری ملک بناسکتے ہیں اور ہماری ہی داستان ہوگی ہر داستان میں…‘‘ ۔ مسٹر راکیش جو بہت دیر سے خاموشی سے ہم دونوں کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے گویا ہوئے ’’اب آنے والے انتخابات میں ایک ایسے شخص کو وزیراعظم بنانے کے لئے پیش کیا جارہا ہے جس کے ہاتھ بے شمار معصوم اور بے گناہ انسانوں کے خون سے سرخ ہیں اگر وہ وزیراعظم بن جاتا ہے تو پھر پورے بھارت کی ندیوں کے پانیوں کو بے گناہوں کے خون سے سرخ کردے گا ۔ ہمیں اس سے ملک کو بچانا چاہئے ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی‘‘ ۔

اس شخص کے ہاتھ معصوم اور بے گناہ انسانوں کے حق ناحق سے سرخ ہیں‘‘ … ’’ظالم درندہ صفت انسان … اور مظلوم ، معصوم اور بے گناہ … دونوں ہی انسان ہیں … انسان انسان کا دشمن …‘‘ یہ کہتے ہوئے سائی رام کافی جذباتی ہورہا تھا ۔ کیسی عجیب بات ہے ۔ ’’کیا کوئی بکری کسی بکری کی قاتل رہی ہے ۔ کوئی بندر کسی بندر کا قاتل رہا ہے ۔ کیا کسی شیر نے کسی شیرکا قتل کیا ہے ۔ کسی کوئے نے کسی کوئے کو مارا ہے۔ لیکن ہم یہ کیسے انسان ہیں جو انسان ہی کی جان لیتے ہیں‘‘ ۔ پھر سائی رام نے کہا ’’میں نے سنا ہے قرآن پاک میں ایک چاپٹر ایسا ہے جس میں اللہ پاک کہتے ہیں ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا لیکن وہ اپنے ہی اعمال کی وجہ سے سافلین میں جاگرا‘‘ ۔ قدرے توقف کے بعد سائی رام یوں کہنے لگا ’’یہ سب 3% کی کارستانی ہے ۔ وہ خودکچھ کر نہیں سکتے اتنے ڈرپوک ہوتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں سے ایک چوہا ایک جھینگر بھی نہیں مارا جاسکتا ۔ یہ درندے غریب دلتوں کی خدمات لیتے ہیں انہیں ورغلاتے ہیں ۔شراب اور دولت دیتے ہیں ۔

معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے گھر بار مال اسباب ، زر زیور لوٹ لے جانے کی لالچ دیتے ہیں اور ان کی نہتی عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی اور زنا کرواکر اس لذت بے جا کے چسکے سے انہیں گرماتے ہیں اور یہ سارے کام پولیس کی نگرانی میں ہوتے ہیں‘‘ ۔ سائی رام اسی جذباتی انداز میںکہتا جارہا تھا ’’ان میں ہمت و شجاعت اگر ہے تو ذرا پولیس اور فوج کو چند گھنٹوں کے لئے وہاں سے ہٹا کر تو دکھادیں ۔ کیا یہ کام وہ خود اپنے بل بوتے پر کرسکتے ہیں ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ پولیس اور فوج کے مدد کے بغیر ایک فساد بھی نہیں کرسکتے ۔اگر ان میں دم ہے تو ان نہتے مظلوموں کے ساتھ دوبدو فساد کردکھائیں ۔ تب معلوم ہوجائے گا یہ کتنے بہادر ہیں ، ان مظلوموں کو صرف سادا لکڑیاں ہی ہاتھوں میں دیدو اور ان ظالموں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے دو ، تب بھی یہ ہار جائیں گے اور الٹے پاؤں فرار ہوں گے ۔ یہ سارے کھیل روپیہ پیسہ اور شراب کے ہیں جو 3% اور 52% والوں کو بے وقوف نوجوانوں کو اپنے چنگل میں لیکر برسوں سے یہ ننگا ناچ کررہے ہیں‘‘ ۔ سائی رام بڑے درد بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا ’’یہ ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی اب یہ زیادہ دن نہیں چلے گا ۔ بہت جلد اسکا بڑا برا انجام ہوگا ۔ بے ایمانی کی حکومت کچھ دن چل سکتی ہے لیکن ظلم و ستم کی حکومت بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے ۔ دنیا میں کیسے کیسے ظالم پیدا ہوئے اور ان کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوا ۔ یہ بھی اب چند دن کے مہمان ہیں‘‘ ۔ بڑے جذباتی انداز میں سائی رام کہتا جارہا تھا جیسے کوئی سنت مہاپرش ، کوئی پیر یا ولی کی زبان چل رہی ہو ۔ اس نے بڑے دردبھرے انداز میں کہا ’’مظلوم کی بدعا سے بچا جائے کیونکہ مظلوم کی بددعا اور خدا کے عرش میں کوئی حجاب نہیں ہوتا ۔ دیکھو یہ ظالم بہت جلد ، بہت جلد اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ جائیں گے ۔ خدا کرے یہ عبرت ناک انجام ہماری یہ گناہ گار آنکھیں جلد از جلد دیکھیں‘‘ ۔

سائی رام نے بڑے جذباتی انداز میں کہا ’’وہ‘‘ شخص گجرات میں ہزاروں انسانوں کا قاتل ہے ۔میں اسے مسلمانوں کا نہیں انسانوں کا قاتل کہوں گا ۔ کیونکہ مسلمانوں کا قاتل صرف جذباتی طور پر ایک کمیونٹی کا قاتل ہوسکتا ہے لیکن وہ انسانوںکا قاتل ہے ۔ اور انسانوں کا قاتل انسانیت کادشمن ٹھہرا ۔ آج اس نے مسلمانوں کا قتل عام کیا کل دلتوں ، عیسائیوں ، سکھوں کا قتل عام کرواسکتا ہے ۔ وہ درندہ صفت ہے ۔ اس نے انسان کی نہیں پوری انسانیت کی توہین کی ہے ۔ وہ ہندو بھی نہیں ہے کیونکہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں قتل خون غارت گری کی کہیں تعلیم نہیں ملتی ۔ ہندومت میں تو جانوروں کو تک تکلیف نہ دینے کا درس ملتا ہے ، سچا ہندو جھینگر ، مکھی بھی نہیں مارتا ۔ وہ تو سابرمتی کے کنارے بسنے والا ’’جنس اسود ہے‘‘ ۔ آپ کویاد ہوگا اسی سابرمتی کے ایک سنت نے لنگوٹی اور اپنی ایک لاٹھی کے ذریعہ ساری دنیا کو اہنسا اور عدم تشدد کا پیغام دیا تھا اور یہ سابرمتی کا سانپ دنیا کو قتل خون ، آگ غارت گری کا درس دیتا ہے ۔ ایسے درندے کو ہم اپنا وزیراعظم کیسے تسلیم کرلیں‘‘؟ ۔ انگریزوں نے ہمارے اس ملک کو جو سونے کی چڑیا ہوا کرتا تھا چمڑے کی چڑیا بنا ڈالا ۔ اسے نفرتوں کا آتش فشاں بنادیا تھا مگر ہم اپنے اس ملک کو پھر سے محبتوں کا چمن بنادیں گے‘‘ ۔ اس نے مزید کہا ’’ہمیں اپنے بھارت کے امن و استحکام ، ترقی و کامرانی و خوش حالی کیلئے کوئی بڑا کام سرانجام دینا نہیں ہے ۔ سابق وزیراعظم آنجہانی لال بہادر شاستری کے دو قول جو انہوں نے قوم کو دئے تھے ان پر سچے دل سے عمل کرلیں تو بھارت خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا ۔ ’’جئے جوان جئے کسان‘‘ ۔ اور دوسرا قول ’’بھارت کا ہر شہری جو جہاں پر بھی ہے اس کی جو ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کو سچے دل سے پورا کرلے‘‘ ۔ بس ہم سب اتنا بھی کرلیں تو بھارت کیلئے کافی ہے ۔

سائی رام نے کہا ’’بھارت میں رہنے والی ہر استری کو میں سیتا جیسی پویتر سمجھتا ہوں وہ کوئی بھی ذات کی ہو کسی بھارتی استری کے ساتھ کوئی برا کام کرتا ہے تو اسے بھگوان سیتا کے ساتھ برا کام کرنے کا پاپ دے ، یہ میری بددعا ہے‘‘ ۔ سائی رام نے اپنی آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا ’’اور اسے پاپی کو بھگوان ہمیشہ ہمیشہ نرک میں ڈال دے‘‘ ۔ اس کے لہجے میں بڑا عم تھا ’’ظلم و ستم اور حق تلفی کا بازار بند کرو ۔ مظلوم کی بددعا سے بچو ورنہ اپنی تباہی و بربادی کیلئے تیار ہوجاؤ تمہیں سنبھلنے کیلئے تھوڑی سی مہلت دی گئی ہے ۔ اس کے بعد بہت بڑی پکڑ میں آجاؤگے ۔ دیکھو اس ظالم فرعون کا حشر کیا ہوا جس کا ظلم و ستم دریائے نیل کے کناروں پر چلتا رہا ۔ آخر کار اسی دریائے نیل میں غرق کردیا گیا ۔ جب نیل والا غرق ہوسکتا ہے تو سابرمتی ، گنگا جمنا اور ملک کی تمام دریاؤں کے فرعون پر بھی وہی عذاب آسکتا ہے ۔ اپنے انجام کو نظروں میں رکھ کر ظلم کرویا سنبھل جاؤ ۔ ابھی وقت ہے ۔ انہیںدریاؤں میں جن پانیوں کو تم نے بے کس و بے بس مظلوموں کے لہو سے سرخ کیا ہوا ہے انہیں میں ڈوب مروگے اور تمہیں بچانے والا کوئی نہ ہوگا ۔ اس مہلت اور چھوٹ کا غلط مطلب نہ لو اس مہلت کو غنیمت جان کر اپنے عمل کو صحیح کرلو اور انصاف پر اتر آؤ ورنہ یہ وقت اور یہ مہلت ختم ہوگئی تو بڑی بری پکڑ میں آجاؤگے اور تمہاری داستان بھی نہ ہوگی

داستانوں میں ۔ دنیا کی تاریخیں اس بات کی گواہ ہیں اور تم سمجھدار ہو ۔ وہ غیبی طاقت بڑی بہت بڑی ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا ۔ اس طاقت کے اورمظلوم کی آہ اور بددعا میں کوئی پردہ حائل نہیں ۔آخر ظلم و ستم ، ناانصافی کایہ بازار بند کریں اور اس جگہ پیار و محبت ، اخوت ، بھائی چارگی اور انصاف کی دکانیں سجائیں ۔ اور اپنی ساری طاقت و توانائی بھارت کی ترقی کے لئے لگادیں ۔ ہم نے اپنی طاقت و توانائیاں بازاروں ، گلی کوچوں میں ضائع کردیں ، وہ خون جس کو ہم اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے استعمال کرنا تھا ناحق کے گلی کوچوں میں بہادیا ۔ کل اگر ہمارا دیس اپنی حفاظت کیلئے ہم سے خون طلب کرے تو اپنے ملک عزیز کو کیا جواب دیں گے ۔ جان لو ایکتا ، یکجہتی اور موالات میں بڑی طاقت ہے ۔ ہمارا دشمن ہمیں ایک ہونے نہیں دیتا جس دن ہم اس اہم نکتے کو سمجھ جائیں گے اس دن ہمارا اپنا پیارا بھارت یقیناً دنیا کا سوپر پاور ہوگا اور ہم دنیا کو بتادیں کہ بھارت ایک عظیم ملک ہے آج کی دنیا کا سوپر پاور صرف اور صرف بھارت ہے ۔ یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم سب ایک ہوجائیں ، ہم سب نیک ہوجائیں ۔ ہم سب کی ہر سوچ صرف اپنے بھارت کیلئے ہو اور ہم اپنے حقیقی دشمن کو پہچانیں جو دور بیٹھا ہمیں ایک ہونے نہیں دیتا‘‘ ۔ یہ کہتے ہوئے سائی رام کی آواز دوھری ہوئی جارہی تھی ۔ پھر اس نے یہ شعر پڑھا

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
رات کافی بیت چکی تھی ۔ تباشر مشرقی افق پر نمودار ہوا چاہتی تھی ۔ ہم نے طے کیا کہ اپنی اپنی کمیونٹی میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اس سنگین مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر بھرپور کوشش کریں گے تاکہ ہم بھارت کوبچاسکیں ۔ رات کا ایک بڑا حصہ ہم ساتھ بیٹھے اس اہم گفتگو میں مصروف رہے ۔ ہم تینوں پر تھکن کا شدید احساس تھا اور ذہن بھی کافی بوجھل ہورہے تھے ۔ بات کو ایک فیصلہ کن موڑ دینے کیلئے پھر ایک ملاقات کا عزم کرکے سائی رام اور راکیش چلنے کیلئے اٹھے ۔ انہیں رخصت کرنے میں خدا حافظ کرنے جب باہر آیا اور مشرقی افق پر صبح کا ستارہ پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوچکا تھا ۔ جس کو اس وقت ہم تینوں نے اس بات کی علامت سمجھا کہ اب بھارت کے افق پر صبح کا یہ ستارہ نمودار ہوچکا ہے یہ بھارت میں امن ، چین ، سکون ، ترقی ، کامرانی کی علامت ثابت ہوگا ۔ اب بھارت میں ایک نئی صبح طلوع ہوگی جو سب کے لئے خوشیاں ہی خوشیاں لائے گی ۔ آنے والی نسلوں کو ہم سفتۂ بے مثال دے پائیں گے۔