شیوسینا کی زیادتیاں

اٹھائیں ظلم کب تک اور جھیلیں سختیاں کب تک
لبوں پر دوستو! مجبور کے خاموشیاں کب تک
شیوسینا کی زیادتیاں
ہندوستان حالیہ برسوں میں جس مشکل دور سے گذر رہا ہے اس کی وجہ یہاں کے غیر اصولی اور خودسر سیاستدانوں کی کارستانیاں ہیں۔ ملک کی تہذیب اور روایات کے چہرے پر سیاہی تھوپنے والے سیاسی قائدین کو کھلی چھوٹ ملتی ہے تو آگے چل کر کئی بھیانک واقعات رونما ہوں گے۔ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کے کتاب کی رسم اجراء تقریب کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے شیوسینا کے کارکنوں نے بی جے پی کے سابق مشیر اور آبزرور ریسرچ فاونڈیشن کے سربراہ سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر کالا پینٹ پوت دیا۔ چہرہ سیاہ کرکے شیوسینا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس ملک کے بعض سیاستدانوں کے اندر سیاہ پسندانہ تبدیلیاں آرہی ہیں۔ جب سیاستداں عوام کے جذبات سے کھیلنے اور شورمچانے کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو عوام الناس کی روزمرہ کی زندگی کو مفلوج بناتے ہیں۔ بعض حرکتیں ایسی ہوتی ہیں جس کی ہرگوشے سے مذمت کی جاتی ہے۔ شیوسینا اپنے وجود کا احساس دلانے کیلئے ہی ایسی حرکتیں کررہی ہے تاکہ اس کا نام ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔ پاکستانی شخصیتوں، کھلاڑیوں، فنکاروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرنا انہیں تقریر سے روکنا، پروگرام پیش کرنے نہیں دینا شیوسینا کی پالیسیوں کا حصہ ہے۔ ماضی سے لیکر اب تک شیوسینا کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے والے لاء اینڈ آرڈر کے ذمہ داروں، قانون دانوں نے اس گروپ کے بیہودہ حرکتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ شیوسینکوں نے اب تک کئی موقعوں پر ہنگامہ برپا کیا ہے۔ کرکٹ کھلاڑیوں کو پریشان کرکے کرکٹ میچس روکنے کیلئے شیوسینکوں نے میدان میں گھس کر پچ بھی خراب کی تھی۔ کئی تہذیبی و ثقافتی پروگراموں کو منسوخ کرنے کیلئے منتظمین کو مجبور بھی کیا ہے۔ ممبئی میں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رسم اجراء تقریب کو روکنے کی کوشش کو ناکام تو بنادیا گیا مگر شیوسینکوں نے کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پوت کر مرکز کی مودی زیرقیادت بی جے پی کی حلیف پارٹی ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ مہاراشٹرا میں بھی بی جے پی، شیوسینا اتحادی پارٹیاں ہیں۔ ایک طرف بی جے پی خود کو ملک کے اقدار، تہذیب اور روایت کی پاسداری کرنے والی جماعت قرار دیتی ہے دوسری طرف شیوسینا فرقہ پرستانہ نظریہ کی کٹر حامی ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے تہذیبوں کو روندتے جارہی ہے۔ شیوسینکوں نے سینئر صحافی سدھیندر کلکرنی کا گھیراؤ کرکے انہیں خورشید محمود قصوری کی کتاب کی رسم اجراء تقریب میں شرکت سے روکنے کی بھی کوشش کی اور انہیں قوم دشمن قرار دے کر بی جے پی سے ان کی وابستگی کو بھی مشکوک بنادیا۔ شیوسینا گذشتہ 30 سال سے پاکستان کی شدید مخالفت کرتی آرہی ہے۔ اس کی یہ لڑائی سیاسی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی شہرت کیلئے ڈرامائی حرکتیں کرتی رہی ہے۔ مہاراشٹرا حکومت میں اتحاد برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنے والے شیوسینکوں کو اپنے رائے دہندوں کے سامنے جوابدہ ہونا ہے کہ آخر انہوں نے اپنے ووٹرس کیلئے کیا کیا ہے۔ سوال یہ ہیکہ ہندوستان کے دستور کے تحت ایسے سرکش گروپس کا خاتمہ کرنے کیلئے قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر اپنی بدتمیزیاں برپا کرنے والے گروپس اور ان کے سربراہوں کو سبق سکھانے کی نظم و نسق نے کوئی ہمت و کوشش ہی نہیں کی ہے۔ المیہ یہ ہیکہ برسراقتدار سیاستدانوں نے شیوسینا اور سنگھ پریوار کی دیگر تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے کر ملک و قوم کے حق میں بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سیاستدانوں کے اندر مخالفین کا حساب برابر کرنے کا جذبہ پایا جاتا ہے تو یہ خطرناک عملی منصوبہ ہوتا ہے۔ شیوسینا کا خطرناک عمل دکھائی دینے کے بعد اس کو قانون کے شکنجہ میں جکڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ چنانچہ یہ ٹولہ بدمست ہاتھی کی طرح معاشرہ کی تہذیب کو روندتے جارہا ہے۔ شیوسینا کے سربراہ نے مہاراشٹرا کی فرنویس حکومت سے علحدگی کا اشارہ دیا ہے۔ اتحادی حکومت کو سبق سکھانے کی غرض سے شیوسینا کا یہ ڈرامہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ مرکزکی نریندر مودی حکومت کی خاص عنایت کی وجہ سے ہی شیوسینا اور اسکے کارندے غیراصولی حرکتیں کررہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہیکہ شیوسینا صرف دھرنوں اور ماردھاڑ احتجاج کرنے والی پارٹی ہے اس کو ملک و ریاستوں کی ترقی عوام کی خوشحالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حکومت اور قانون کی بے عملی ان سینکوں کو مزید توانا بنارہا ہے۔ ایسی بے لگام تنظیموں کی حرکتوں کو برداشت کرنے کیلئے معاشرہ کس حد تک متحمل ہوسکتا ہے۔ ہر شخص کو جمہوریت کے مزے حاصل کرنے کی آزادی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو تکالیف پہنچائے۔