شیواجی کے خاندان کے مندر کا تحفظ حکومت ریاست حیدرآباد کی عاجلانہ کارروائی

آرکائیوز کے ریکارڈ سے     ڈاکٹر سید داؤد اشرف
ریاست حیدرآبادکے آصف جاہی حکمرانوں اور حکومت نے رواداری ، انصاف اور مساوات کے اصولوں اور اقدار کو سربلند کیا تھا ، تب ہی اس ریاست کی رواداری ، یہاں کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بھائی چارہ اور ہم آہنگی کا شہرہ نہ صرف سارے برصغیر (غیر منقسم ہندوستان) میں تھا بلکہ اس کی گونج ہندوستان کے باہر بھی سنی جاتی تھی ۔ یہ خصوصیات حقیقی اور سچی تھیں۔ اس ریاست سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی ان خصوصیات کے تعلق سے دعوے نہیں کئے، رواداری اور یکجہتی کے نعرے نہیں لگائے کیونکہ انہیںاس کی ضرورت نہیں تھی۔ نعروں کے زور و شور پر وہ ان خصوصیات کو منوانا نہیں چاہتے تھے ۔ یہ خصوصیات روز روشن کی طرح واضح حقائق کا درجہ رکھتی تھیں۔ پھر بھی آج کے دور میںجبکہ تعصب اور تنگ نظری کے اندھیرے پھیلتے جارہے ہیں ، ان خصوصیات کو ناقابل تردید حوالوں کے ذریعہ پیش کرنے کی بڑی ضرورت ہے تاکہ ان حقائق اور سچائیوں کی روشنی آج ان تاریکیوں کو دور کرے جو قلب و ذہن پرچھاتی جارہی ہیں۔
ریاست حیدرآباد کے آصف جاہی فرماں روا اختیار کل رکھنے والے مسلمان تھے ۔ اس لئے آج وہ لوگ جنہیںاس ریاست کے حالات اور واقعات کا اچھی طرح علم نہیں ہے ۔ ضرور سوچتے ہوں گے کہ اس ریاست کے حکمرانوں اور حکومت نے دیگر مذاہب کے تعلق سے کیا رویہ اختیار کیا ہوگا ؟ خاص کر عبادگاہوں کے تعلق سے ان کی حکمت عملی کس قسم کی رہی ہوگی ۔ کیا دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کا انہوں نے کیا اتنا ہی احترام کیا ہوگا جتنا وہ اپنے مذہبی مقامات کا احترام کرتے ہیں ۔ آج ان ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب سابق ریاست حیدرآباد کے ضلع اورنگ آباد کے موضع ورول میں واقع ایک کنڈ اور مندر کے تحفظ سے متعلق ساری کار روائی سے ملتا ہے ۔ ریاستی اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ اس کارروائی سے متعلق سرکاری ریکارڈ سے صرف یہ ظاہر ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر طرح ثابت ہوتا ہے کہ سابق ریاست حیدرآباد کی حکومت مندروں اور مذہبی آثار کا نہ صرف احترام کرتی تھی بلکہ ان کے تحفظ کا پورا خیال رکھتی تھی ۔ وہ اس معاملے میں آج کی کسی بھی سیکولر حکومت سے پیچھے نہیں تھا بلکہ اس کے اندازِ فکر اورطرز عمل کو آج کی سیکولر مملکت اور اس کے سیکولر نظام حکومت کے لئے لائق تقلید مثال سمجھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں کہ سابق ریاست حیدرآباد میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والوںکی عبادت گاہوں کی صیانت کا ہر طرح خیال رکھا جاتا تھا بلکہ ان کے تحفظ کیلئے درکار اقدامات کے موقع پر یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی جاتی تھی کہ مذہبی رسومات اور طور طریقوں کی انجام دہی میں کسی قسم کی مداخلت دانستہ یا غیر شعوری طور پر بھی سرزندنہ ہو ۔ مہارانی اہیلیا بائی ہولکر کے تعمیر کردہ کنڈ اور شیواجی کے آبا و اجداد کے تعمیر کروائے مندر کے تحفظ کی کارروائی کی ساری تفصیلات ذیل  میں دی جارہی ہیں جو آرکائیوز میں محفوظ ریکارڈ سے اخذ کردہ مواد پر مبنی ہیں۔
حیدرآباد ریذیڈنسی کے ایک عہدیدار تھا پیسن نے ایک مراسلہ مورخہ 14 ستمبر 1934 ء مہدی یارجنگ صدر الہام (وزیر) سیاسیات حکومت ریاست حیدرآباد کے نام روانہ کیا جس کے ساتھ ریاست اندور کے وزیراعظم کے مراسلے مورخہ 13 اگست 1934 ء کی ایک نقل منسلک تھی ۔ریاست اندور کے وزیراعظم کا مراسلہ گورنر جنرل ہندوستان کے ایجنٹ کے نام تحریر کیا گیا تھا ۔ تامپسن نے اپنے مراسلے کے آخر میں درخواست کی تھی اگر کوئی اعتراض نہ ہوتو حکومت ریاست حیدرآباد کچھ ایسے اقدامات کرے جن کی وجہ سے گریشنیشور مندر کے تحفظ کا یقین ہوجائے ۔
ریذیڈنسی کے عہدیدار تھاپسن کے مراسلے کے ساتھ وزیراعظم ریاست اندور کا جو مراسلہ منسلک تھا ، اس میں گریشنیشور (Grishneshwar) مندرکے بارے میں تفصیلات درج کئے جانے کے ساتھ ہی ساتھ اس مندر کے تحفظ کیلئے درخواست بھی کی گئی تھی۔ اس مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ ریاست حیدرآباد کے موضع ورول (ضلع اورنگ آباد) میں غار ہائے ایلورا کے بالکل نیچے مہارانی اہیلیا بائی ہولکر کا تعمیر کردہ کنڈ موجود ہے ۔ اس کنڈ سے ربع میل کے فاصلے پر ایک مندر ہے جو گریشنیشور مندر کے نام سے مشہور ہے ۔ اس مندر کو شیواجی کے آباد و اجداد نے تعمیر کروایا تھا ۔ بعد ازاں مہارانی اہیلیابائی ہولکر کی جانب سے اس مندر کو نہ صرف مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کروایا گیا بلکہ خوبصورت طریقے سے اس مندر کی آرائش و زیبائش بھی کی گئی تھی ۔ جہاں تک تحفظ او حفاظت کا معاملہ ہے یہ مندر اچھی حالت میں ہے لیکن کنڈ کے ایک جانب کے حروف مٹ گئے ہیں ۔ اس مندر کے پجاری نے مندر کے اندر ایک چولہا بنالیا ہے جس کے دھوئیں نے قیمتی مزین چھت کو خراب کردیا ہے ۔ علاوہ ازیں مندر کے سامنے کے حصے میں چاروں جانب جو ستون ہیں ان کے ایک حصے پر صند لگایا گیا ہے ۔ حکومت ریاست اندور بہت ممنون ہوگی اگر یہ واقعات حکومت ریاست حیدرآباد کے علم میں لائے جائیں اور اس حکومت تک ایسے اقدامات کرنے کیلئے حکومت ریاست اندور کی درخواست پہنچائی جائے جن سے مندر کا تحفظ یقینی ہوجائے۔
ریذیڈنسی کے عہدیدار تھاپسن کا مراسلہ محکمہ سیاسیاست حکومت ریاست حیدرآباد میں وصول ہونے کے صرف چند روز بعد محکمہ سیاسیات کی جانب سے ایک مراسلہ مورخہ 15 ستمبر 1934 ء معتمد محکمہ امور مذہبی کے نام جاری کیا گیا جس میں ضروری کارروائی کرنے اور جلد جواب روانہ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔ محکمہ امور مذہبی میں اس کارروائی پر فوراً توجہ دی گئی ۔ چونکہ ایک قدیم مندر کے تحفظ کا معاملہ تھا اس لئے اس بارے میں ضروری کارروائی کرنے کیلئے محکمہ امور مذہبی کی جانب سے محکمہ آثار قدیمہ کو لکھا گیا ۔ کارروائی کا آغاز اور ابتدائی اقدامات کئے جانے کے بعد محکمہ اور مذہبی نے ایک مراسلہ مورخہ 2 اکتوبر 1934 ء محکمہ سیاسیات کو روانہ کیا جس میں تحریر کیا گیا کہ اس بارے میں محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے ضروری کارروائی کی جارہی ہے ۔ پجاری نے مندر میں جو چولہا بنالیا ہے اور دھوئیں سے عمارت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے ، اس کا انسداد کیا جائے گا ۔ بیان کیا گیا ہے کہ ستونوں کو صندل لگانے سے نبت کاری (بیل بوٹے کا کام) کا کام چھپ گیا ہے ۔ اس عمل کی نسبت دریافت کرنے کے بعد مناسب تجویز پیش کی جائے گی چونکہ اس مندر میں عمل پوجا وغیرہ جاری ہے ، ایسی حالت میں اس امر پر غور کرنا ضروری ہے کہ کوئی ایسی پابندی عائد نہ کی جائے جو مراسم دیول میں رکاوٹ کا باعث ہو۔ مکمل کارروائی کے نتیجے سے متعاقب اطلاع دی جائے گی ۔ محکمہ آثار قدیمہ نے ضروری اقدامات کرنے کے بعد اس کی اطلاع محکمہ امور مذہبی کو روانہ کردی جس پر ناظم آثار قدیمہ کے مطابق کنڈ کی مشرقی دیوار پر جو سرخ پتھر کا کتبہ نصب ہے اس کے حروف پتھر میں کندہ ہیں اور ان میں سنگ مرمر کے ٹکڑ ے نصب کئے گئے ہیں۔ یہ ٹکڑے کتبے کی لوح کی کھلی جگہ نصب کئے گئے تھے جو بارش کی وجہ سے بعض جگہوں سے گر پڑے ہیں لیکن حروف تاہم نمایاں ہیں اور کتبے کے پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی ۔ محکمہ آثار قدیمہ اس کتبے میں سنگ مر مر کے ٹکڑے دوبارہ نصب کرنے کا انتظام کر رہا ہے ۔ اس مرا سلے کے ذریعہ یہ اطلاع بھی دی گئی کہ پجاری نے مندر کے ایک حصے میں جو چولہا بنالیا تھا ، اس کو اٹھوا دیا گیا ہے ۔ ستونوں کو صندل لگانے سے نبت کاری میں کوئی تغیر یا خرابی پیدا نہیں ہوئی ہے ، تاہم اس بارے میں پجاری کو ہدایت دے دی گئی ہے۔
محکمہ سیاسیات کو مکمل کارروائی کی اطلاع ملنے پر مہدی یار جنگ وزیر سیاسیات نے تھاپسن کو مراسلہ مورخہ 5 ڈسمبر 1934 ء کے ساتھ محکمہ امور مذہبی کا مذکورہ بالا مراسلہ منسلک کرتے ہوئے لکھا کہ منسلک کردہ مراسلے سے معلوم ہوجائے گا کہ گریشنیشور مندر کے تحفظ کے سلسلے میں حکومت ریاست حیدرآباد کی جانب سے کیا ضروری اقدامات کئے گئے ہیں ۔اس مراسلے کے جواب میں تھاپسن نے اپنے مراسلے مورخہ یکم فروری 1935 ء کے ذریعہ مہدی یار جنگ کو اطلاع دی کہ حکومت ریاست  اندور نے ان سے خواہش کی ہے وہ گریشنیشور مندر کے تحفظ کے لئے کئے گئے اقدامات پر حکومت اندور کا شکریہ حکومت ریاست حیدرآباد کو پہنچادیں ۔ محکمہ سیاسیات نے مراسلہ مورخہ 9 فروری 1935 ء کے ذریعہ تھاپسن کے مراسلے کی نقل محکمہ امور مذہبی کو بطور اطلاع روانہ کردی۔
اس کارروائی کی مندرجہ بالا تفصیلات سے ظاہرہوتا ہے کہ متذکرہ مندر اور کنڈ کے تحفظ سے متعلق یہ کارروائی انتہائی تیزی کے ساتھ دو ماہ بیس یوم کے اندر مکمل کرلی گئی تھی ۔ اس اس کارروائی کے لئے قانونی طور پر حکومت ریاست حیدرآباد پر کوئی لزوم عائد نہیں ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود اسے اخلاقی فریضہ اور حکومت کی ذمہ داری گردانتے ہوئے پایہ تکمیل کو پہنچایا ۔ بادی النظر میں شیواجی کے نام سے اس مندر کی وابستگی کسی ذہنی تحفظ یا متعصب کیلئے گنجائش پیدا کرسکتی تھی لیکن اس قسم کی باتوں کو حاشیہ خیال کے قریب بھی پھٹکنے  نہیں دیا گیا اور انصاف ، مساوات اور رواداری کے جذبے ہی کو پیش نظر رکھا گیا ۔ اس کارروائی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مندر اور کنڈ کے ار باب مجاز پجاری وغیرہ کو جونہ صرف ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے بلکہ لائق احترام سمجھے جاتے ہیں، اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی لاپرواہی ، من مانی اور بدسلیقگی کے ذریعہ مندر اور کنڈ کی آرائش و زیبائش اور استحکام کو نقصان پہنچائیں۔