شیشہ و تیشہ

شاہدؔ عدیلی
غزل
عیب مت دیکھئے ہیں اوروں کے اندر کتنے
پہلے یہ دیکھ لیں خود میں بھی ہیں پنکچر کتنے
ہر ڈسمبر کو وہ کہتی ہے کہ پچیس کی ہوں
اور پچیس پہ اٹکیں گے ڈسمبر کتنے
ہر نوالے کو نگل جاتے ہیں جلدی جلدی
دعوتوں میں میاں کھاتے ہیں چباکر کتنے
ہرجگہ کاٹنے آسانی سے ملتی ہے کُھلی
اس لئے خوش ہیں خواتین سے مچھر کتنے
مغربی عورتیں کثرت سے لباسوں کی طرح
کچھ ہی عرصے میں بدل دیتی ہیں شوہر کتنے
دانت بیلن سے جو ٹوٹے تھے وہ شوکیس میں ہیں
ہم نے تو زخم بھی رکھے ہیں سجاکر کتنے
ماں کی کمزور نگاہوں سے بچاکر شاہدؔ
اہلیہ کو وہ کِھلادیتے ہیں برگر کتنے
………………………
بالکل تازہ…!
٭ ایک سبزی فروش کے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔ پڑوسی، عزیز و اقارب دیکھنے کے لئے آئے۔ ایک خاتون نے بچے کو دیکھنے سے پہلے پوچھا : بھائی صاحب ! بچہ کیسا ہے ؟
سبزی فروش بولا : ’’بالکل تازہ ہے …!!‘‘
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
………………………
کیا پکاؤں…!؟
٭ ایک حیدرآبادی داماد اپنے سسرال لکھنو گیا ۔ ساس نے بڑے ہی سلیس انداز میں داماد کو پوچھا : بیگن شریف یا بھینڈی مبارک یا پالک پکاؤں … !
آپ کیا کھانا پسند کریں گے ؟
داماد بولا : میں گنہگار بندا ہوں بغیر وضو ان مقدس سبزیوں کے نام بھی لینے کے قابل نہیں ہوں تو کھاؤں کہاں …! بس کوئی بے غیرت یا آوارہ سا مرغا پکالیں…!!
سید شمس الدین مغربی ۔ ریڈہلز
………………………
اجازت …!
بچہ : ممی میں کب اتنا بڑا ہوجاؤں گا کہ آپ کی اجازت کے بغیر کبھی بھی کہیں بھی آ جا سکوں ؟
ممی (پیار سے ) : بیٹا اتنے بڑے تو ابھی تمہارے پاپا بھی نہیں ہوئے …!!
………………………
سعادت مند…!
ٹیچر : بیٹا تمہارے ڈیڈی کیا کام کرتے ہیں ؟
بچہ : ممی جو کام بولے وہ کام کرتے ہیں …!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
موزوں …!
٭ امراض قلب کے ہاسپٹل کی ایمبولینس دواخانہ کے قریب پہنچی تو ڈرائیور نے دیکھا کہ دو سرجن فٹ پاتھ پر سڑک کے کنارے کچھ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔
ڈرائیور نے قریب جاکر دریافت کیا : ’’کیا آپ کا کچھ کھوگیا ہے…؟‘‘
سرجن نے جواب دیا : ’’نہیں …!‘‘،دوسرے نے کہا ہم ایک انکم ٹیکس آفیسر کے تبدیلی دل کا آپریشن کررہے ہیں۔ اس کے سینے میں رکھنے کیلئے کوئی معقول سا پتھر تلاش کررہے ہیں جو نہیں مل رہا ہے …!!
پاشاہ بھائی ۔ شیخ واڑہ ، کوہیر
………………………
نہیں جانتا…!!
٭ آغا حشر کاشمیری کے شناساؤں میں ایک ایسے مولوی صاحب بھی تھے جنکی فارسی دانی کو ایرانی بھی تسلیم کرتے تھے، لیکن یہ اتفاق تھا کہ مولوی صاحب بیکاری کے ہاتھوں سخت پریشان تھے، اچانک ایک روز آغا صاحب کو پتہ چلا کہ ایک انگریز افسر کو فارسی سیکھنے کیلئے اتالیق درکار ہے۔ آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز کے ہاں بھجوا دیا، صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔
“ویل مولوی صاحب ہم کو پتہ چلتا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”
مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ “حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”
صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب کو تو خوش اخلاقی سے پیش آتے ہوئے رخصت کر دیا، لیکن اس رئیس سے یہ شکایت کی انہوں نے سوچے سمجھے بغیر ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کیلئے بھیج دیا جو فارسی کا ایک لفظ تک نہیں جانتا تھا۔
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………