شیشہ و تیشہ

یوسف ؔنرمل
شمع امن کی …!
نفرتیں ذہنوں میں پلنے لگ گئیں
زیست کی قدریں بدلنے لگ گئیں
کرگئے ہیں پار اندھیرے شب کی حد
بستیاں اب دن میں جلنے لگ گئیں
ہم نے کی روشن جو شمع امن کی
آندھیاں دہشت کی چلنے لگ گئیں
بکھرے تِنکو ! متحد ہوجاؤ بھی
اب ہوائیں تیز چلنے لگ گئیں
مُٹھی بھر چاول جو صدقہ کردیا
ہاں ! بلائیں ساری ٹلنے لگ گئیں
کیوں رقابت کی یہ خستہ وادیاں
پیار کی شبنم سے جلنے لگ گئیں
ہر جگہ نااہل ہیں بیٹھے ہوئے
گویا جعلی نوٹیں چلنے لگ گئیں
آج یوسفؔ زندگی کی تلخیاں
شعر کے سانچے میں ڈھلنے لگ گئیں
………………………
نمک پارے …!
٭ شادی ایک ایسی جنگ ہے جس میں دونوں دشمن روز ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔
٭ بیوی کی سالگرہ یاد رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ …!
’’ایک بار بھول کے دیکھو…!!‘‘
٭ بیویاں اس لئے لمبی عمر تک زندہ رہتی ہیں کیونکہ اُن کی بیوی نہیں ہوتی …!
٭ شادی ایک ایسی رسم ہے جس میں پہلے ہلدی لگاتے ہیں اور بعد میں چونا …!
٭ شادی صبر و شکر کا رشتہ ہوتا ہے ۔ میاں بیوی کو دیکھ دیکھ کر صبر کرتے رہتا ہے اور بیوی میاں کو دیکھ دیکھ کر شکر بھیجتے رہتی ہے …!
٭ شادی شدہ زندگی دِکھتی جنت پر رہتی دوزخ اور کنواری زندگی دِکھتی دوزخ پر رہتی جنت ہے …!!
مظہر قادری ۔ حیدرآباد
………………………
شراب نہیں خراب…!!
٭ کسی مشاعرے میں سُندرؔ مالیگانوی اپنا کلام سُنا رہے تھے ۔ شعر کچھ یوں تھا ؎
پاؤں رکھا اُس نے پانی میں
سارا پانی شراب کرڈالا
سامعین میں سے کسی نے زور سے کہا سُندر بھائی ’’پانی شراب ‘‘نہیں ، ’’پانی خراب ‘‘ کرڈالا ۔ سندرؔ صاحب بولے ۔ آپ چُپ بیٹھیے ، پاؤں اُس نے رکھا تھا ، آپ نے نہیں ۔
محمد حامداُللہ ۔ حیدرگوڑہ
………………………
کیا کھانا پسند کریں گے …!؟
٭ گڈس اینڈ سرویسیس ٹیکس (جی ایس ٹی ) سارے ملک میں نافذ ہوگیا ہے ۔ اس کے تحت ہر ایک چیز پر ٹیکس لگا ہے ۔ مثال کے طورپر جوتے پر 5% ٹیکس ہے وہیں چاکلیٹ اور مٹھائی پر 18% ٹیکس ہے ۔ اب آپ کو فیصلہ کرنا ہے ’’آپ کیا کھانا پسند کریں گے …!‘‘۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
………………………
صرف اور صرف ’’پناہ ‘‘
٭ شادی کے پانچ سال بعد ایک آدمی نے اپنے دوست سے اس کی شادی شدہ زندگی کے بارے میں پوچھا ۔ دل جلا دوست ایک ٹھنڈی آہ بھرکے بولا : ’’شروع میں تو میں اپنی بیوی کو ’بے پناہ‘ چاہتا تھا ، لیکن اب اس سے صرف اور صرف ’پناہ‘ چاہتا ہوں…‘‘
مبشر سید ۔ چنچلگوڑہ
………………………
چلو میرے ساتھ …!
٭ ایک بھکاری نے ایک آدمی سے کہا : بابوجی …! اﷲ کے نام پر دو روپئے دیتے جاؤ ۔ اُس آدمی نے جواب دیا: بابا ! میرے پاس دو روپئے نہیں ہے ۔
تو فقیر نے کہا ، اچھا ایک روپیہ دے دو ۔
اُس نے جواب دیا کہ ایک روپیہ نہیں ہے۔
فقیر نے ہمت نہیں ہاری پھر کہا ایک اٹھنی ہی دے دو ۔
اُس آدمی نے قدرے بیزار ہوکر جواب دیا اٹھنی بھی نہیں ہے ۔
تب بھکاری نے غصے کی حالت میں اپنا کاسہ اُس آدمی کی طرف بڑھادیا اور بولا ۔ چلو میرے ساتھ ہم دونوں مل کر بھیک مانگیں گے …!!
مرزا قمر علی بیگ ۔ نیو ملے پلی
………………………