شیشہ و تیشہ

شاہدؔ عدیلی
غزل
مرچی سموسہ کچھ بھی ہو کھاکر لکھو غزل
زردے کا پان منہ میں دباکر لکھو غزل
مچھر بھی داد دینے لگیں گے کلام پر
مچھر کو اپنا خون پلاکر لکھو غزل
لکھنا ہو شعر تم کو جو غالبؔ کے رنگ میں
غالبؔ کی ہر غزل کو گلاکر لکھو غزل
مفعول فاعلات کے چکر میں مت پڑو
فلمی دھنوں میں شعروں کو گاکر لکھو غزل
فکر سخن کا آپ کی انکاؤنٹر نہ ہو
پولس سے اپنی نظریں بچاکر لکھو غزل
بیٹھا تھا جب میں لکھنے غزل آدھی رات کو
بیگم یہ بولیں بتّی بجھاکر لکھو غزل
شاہدؔ غزل کے جسم سے پھوٹے نہ کوئی بُو
بہتر ہے یہ میاں کہ نہاکر لکھو غزل
………………………
مصنف اور لیڈر!
٭ ایک بہت بڑا مصنف تھا جس کی ایک بہت بڑے لیڈرسے دوستی تھی ۔ مصنف اس لئے بڑا تھا کہ اس نے بہت ساری کتابیں لکھی تھیں۔ اور زندگی کی بہت ساری حقیقتوں کو بے نقاب کیا تھا۔لیڈر اس لئے بڑا تھا کہ اس نے اپنی لیڈری چمکانے کے لئے بڑے بڑے بھاشن دئے تھے۔ قوم کو جنگ و جدال کی ترغیب دی تھی ، جب لیڈر ترقی کر کے بڑا آدمی بن گیا اور اس کی ہر حرکت قابل توجہہ ہوگئی تب اس نے مصنف کو سوانح حیات لکھنے بلایا۔ مصنف بہت بڑا تھا لیکن غریب تھا۔ قلم کی روٹی کھاتا تھا۔ مفلسی کی وجہ سے ایک حقیر معاوضہ پر تیار ہوگیا۔
بہت دن گزر گئے مصنف نہیں لوٹا۔لیڈر کو بڑی تشویش ہوئی۔ اس نے مصنف کو بلایا اور معلوم کیا :’’کیوں بھئی لیکھک ! تم نے ہماری سوانح حیات نہیں لکھی ؟‘‘۔
’’ اسے مکمل ہی سمجھئے جناب بس ایک اہم بات لکھنی رہ گئی‘‘۔مصنف نے جواب دیا۔’’کونسی اہم بات؟‘‘ لیڈر نے استعجابیہ انداز میں پوچھا۔مصنف خاموش رہا۔ لیڈر پھر بولا۔ ’’کیا تمہیں ہمارے دیئے ہوئے بھاشنوں کی تعداد معلوم نہیں ‘‘؟ ’’معلوم ہے‘‘
’’ پھر ہم نے کتنی ہڑتالیں کروائیں ، یہ لکھنا بھول گئے کیا؟‘‘وہ بھی لکھ دیا ہے جناب ؟
’’ہم نے خاکی وردی والوں کو کتنی گالیاں بکیں…‘‘’’ ہاں یہ بھی لکھ دیا حضور‘‘
’’ تو پھر ہماری سوانح حیات میں کون سی بات رہ گئی ہے؟‘‘ لیڈر پریشان ہواٹھا۔
مصنف نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔’’ آپ کی تاریخ وفات!‘‘
ابن القمرین ۔ مکتھل
………………………
’’مرتے دم تک ‘‘
مریض ( ڈاکٹر سے ) : ڈاکٹر صاحب ! میں شوگر کی بیماری کی وجہ سے سخت پریشان ہوں، کبھی یہ بڑھ جاتی ہے اور کبھی کم ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے دیگر اعضاء بھی متاثر ہورہے ہیں ۔ الگ الگ اعضاء کے ڈاکٹر یہی تلقین کررہے ہیں کہ اُن کی گولی نہ چھوڑوں ۔ ہر دن اتنی زیادہ گولیاں کھاتے ہوئے بیزار آچکا ہوں ،آپ کچھ کیجئے !
ڈاکٹر : فائیل دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے مزاحیہ انداز میں کہا ، یوں بھی میرے پاس تشخیص نہ کرواکے ایک عرصہ ہوچکا ہے ۔ تقریباً ہر بڑے ہاسپٹل میں آپ کی انٹری ہوچکی ہے ، فکر نہ کریں اور خوش رہیں ۔
مریض : وہ کیسے ؟
ڈاکٹر : شوگر کی بیماری بہت وفادار ہوتی ہے وہ مرتے دم تک نہیں جاتی …!!
محمد فصیح الدین ۔ کاماریڈی
………………………
حقیقی محبت …!
٭ دہلی کے ایک پارک کے نوٹس بورڈ پر یہ تحریر لکھی تھی ’’پیڑ پر اپنی محبوبہ کا نام لکھنے سے بہتر ہے اِس کے نام پر ایک پیڑ لگائیں‘‘ ۔
ایک شخص جو وہاں سے گزر رہا تھا یہ تحریر اُس کے دل کو چھو گئی اور اُس نے اپنی گرل فرینڈوں کی گنتی کی اور اپنی چار ایکر زمین میں گنا بودیا‘‘ ۔
مبشر سید ۔ حیدرآباد
………………………
کاش میں نے …!
٭ بچپن میں ماں کہتی تھی کہ گرگٹ کو نہیں مارنا ورنہ بیوی گونگی ملے گی ۔ آج افسوس ہوتا ہے کہ کاش ! بچپن میں ماں کی یہ ایک بات نہ مانی ہوتی تو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا …!!
مظہر قادری ۔حیدرآباد
………………………